صحافی دوست وزیر اعلیٰ کی باتیں

صحافی دوست وزیر اعلیٰ کی باتیں
 صحافی دوست وزیر اعلیٰ کی باتیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بعض اوقات کچھ باتیں ذہن پر اس طرح اثر انداز ہوتی ہیں کہ نا چاہتے ہوئے بھی ان پر بحث کی گنجائش نظر آتی ہے اوربحث کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ لاہور پریس کلب کے نو منتخب عہدیداروں کی تقریب حلف برداری کے بعد کئی روز سے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی تقریر پر بحث ہو رہی ہے کہ کیا کسی حکمران کی صحیح معنوں میں صحافی کے ساتھ دوستی ممکن ہے؟ اگر ’’دوستی‘‘کا کوئی سلسلہ چل نکلے تو وہ کامیابی سے ہمکنار ہو سکتا ہے؟ایک طرف اخباری کالموں اور ٹی وی چینلوں پر بحث ہوتی رہی ہے تو دوسری جانب یار لوگ آپس میں بحث جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس بحث کا کوئی قابل قبول اورمتفقہ نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ دراصل وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے اپنی تقریر میں کہا کہ مجھے لاہور پریس کلب کے صدر شہباز میاں نے’’صحافی دوست‘‘قرار دیا ہے، اگر میں صحافی دوست ہوں تو پھر صحافیوں کو بھی میرا دوست ہونا چاہئے‘‘۔


اس سے پہلے کہ بات آگے بڑھائی جائے، یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ حکمرانوں کو اول تو سو فیصد کامیابی کبھی حاصل نہیں ہوئی۔ وہ جتنی بھی’’خدمت‘‘کرلیں، کسی نہ کسی حوالے سے انہیں تنقید کانشانہ بننا ہی پڑتا ہے۔ جب حالات کچھ ایسے ہوں کہ تنقید برائے تنقید کی وباء پھیل جائے تو پھر اچھے کاموں میں کیڑے نکالتے کچھ نہیں سوچا جاتا۔ ادھر حکمرانوں کی حالت یہ ہے کہ تنقید برداشت کرنے کا ان میں حوصلہ بہت کم ہوتا ہے۔ صحافیوں سے دوستی ہو بھی جائے تو جلد یا بدیر وہ برہمی کاشکار ہو جاتے ہیں۔ جہاں تک میاں براداران کی بات ہے تو ان کے بارے میںیہ سمجھا جاتا ہے کہ انہیں تنقید پسند نہیں آتی۔ مخالفین کی طرف سے میاں برادران کو’’مغل شہزادے‘‘کہا جاتا ہے کہ وہ جمہوری حکومت کو بادشاہوں کی طرح چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ظاہر ہے، اس میںیار لوگ کچھ بڑھا بھی دیتے ہیں زیب داستان کے لئے!


حکمرانوں کے مزاج اورروایات کے بارے میں مختصراً گفتگو کے بعد یہ بات بھی گوش گزار کرنا ضروری ہے کہ صحافیوں میں بھی ایسے مہربانوں کی کمی نہیں، جن کی چھیڑ چھاڑ پر حکمرانوں کو بار بار کہنا پڑتا ہے۔۔۔’’تنگ نہ کرو بھائی‘‘۔۔۔غالب نے ایسی ہی صورت حال میں کہا تھا:’’یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح۔۔۔‘‘ جب سلطنتٍ شعروادب کا تاجدار مِرزا غالب نصیحتیں برداشت نہیں کرتاتو میاں برادران کی نازک مزاجی سے توقع کیسے کی جائے کہ وہ مسلسل اوربے جا تنقیدبرداشت کریں گے۔ ایسے میں دوستی اور وہ بھی دوطرفہ دوستی ممکن دکھائی نہیں دیتی۔ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ حکمرانوں کی اپنی سو طرح کی مصلحتیں اور مجبوریاں ہوتی ہیں۔ صحافیوں کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ حقائق نگاری اورحقیقت بیانی ہی ان کا اصل کام ہے۔ حقیقی صحافی کسی بھی معاملے میں اپنے’’دوست‘‘سے رعایت نہیں کرسکتا، چنانچہ توقع کرنی ہی نہیں چاہئے۔ہاں، یہ ضرور ہے کہ زرد صحافت کی ہلکی سی جھلک بھی جائز نہ سمجھی جائے۔ خوشامدی پہلو کی صورت نہیں ہونی چاہئے۔ سوال یہ ہے کہ کیا حکمران برداشت اورحوصلے سے کام لے سکیں گے؟ اسی طرح صحافی اپنے پیشہ ورانہ اصولوں پر سختی سے قائم رہ سکتے ہیں؟


برسوں پہلے جب وزیر اعظم نواز شریف نے موٹروے بنانے کی بات کی تھی تو اس منصوبے پر بہت زیادہ تنقید کرتے ہوئے انہیں’’شاہ خرچ‘‘قرار دیاگیا، بالکل اسی طرح وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو بھی میٹروبس کے حوالے سے مسلسل تنقید اورالزامات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ سونے پر سہاگا کہ انہوں نے اورنج ٹرین کے بظاہر مشکل اورمہنگے ترین منصوبے پر کام شروع کررکھا ہے۔ ہوگا یہی کہ میٹروبس کی طرح جب اورنج لائن ٹرین بھی چلنے لگے گی اورشہباز شریف تنقیدی تیروں کی بارش میں یہ سوچیں گے کہ تاریخ میں ان کا نام سنہری حروف سے لکھا جائے گا یانہیں؟ اس سوال کا جواب آنے والے وقت میں مل جائے گا۔ اصل سوال تو یہ ہے کہ میٹروبس اوراورنج لائن ٹرین کا مستقبل کیا ہے اوران منصوبوں کے حوالے سے اپوزیشن کی طرف سے جو شور مچایا جارہا ہے کہ اربوں روپے سبسڈی کب تک دینا پڑے گی اورکتنی بھاری رقوم چین کے سرمایہ کار بینک کو واپس کرنا ہوں گی؟ کیاواقعی ایسا ہوگا یا یہ پراپیگنڈہ شہباز شریف کی مخالفت برائے مخالفت کاحصہ ہے؟


دوستی کی بات ہو رہی تھی۔۔۔تو وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے دوطرفہ دوستی پر زور دیا ہے۔ سچی بات ہے، دوستی یا محبت، دو طرفہ نہ ہوتولطف نہیں آتا اوروہ دیر پا اور مضبوط بھی نہیں ہوتی۔ احمد فراز نے دوستی کے حوالے سے کیا خوب کہا تھا۔۔۔’’دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا‘‘۔۔۔جی ہاں، وزیر اعلیٰ شہباز شریف صاحب! آپ کو دوستی سے پہلے دوست تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ مخلص اورسچا دوست رب تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہوتا ہے۔ ویسے بھی حضرت علیؓ کے قول کا مفہوم ہے کہ و ہ شخص بہت غریب ہے، جس کاکوئی دوست نہیں!مخلص اور سچے دوست کی تعریف یہ بھی بتائی گئی ہے کہ وہ اپنے دوست کی اصلاح کے لئے اسے تنہائی میں نصیحت کرتا ہے۔ اسی طرح دوستی کے تقاضے کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ اگر دوست مشکل میں ہو اوراسے مدد کی ضرورت ہو تو بڑھ چڑھ کر مدد کرنی چاہئے۔ مشکل وقت میں پورا ساتھ دینے والا ہی سچا دوست ہوتا ہے۔ غلام حیدر وائیں درویش منش انسان تھے۔ ’’اللہ انہیں غریق رحمت کرے‘‘۔ ان الفاظ کے ساتھ انہیں صحافی برادری یاد کرتی ہے۔ وہ حکومتی جماعت کے جنرل سیکرٹری تھے۔ کئی سال تک وزیر اورپھر وزیر اعلیٰ بھی رہے، مگر انہیں اچھے الفاظ سے اس لئے یاد کیاجاتا ہے کہ جب پریس کلب کے لئے نئی بلڈنگ تلاش کی جارہی تھی تو غلام حیدر وائیں شہید نے خود شملہ پہاڑی کا دورہ کرکے پریس کلب بنانے کی منظوری دی تھی۔ آج تمام صحافی وائیں صاحب کو دل سے دعائیں دیتے ہیں۔ سچی بات ہے، غلام حیدر وائیں شہید کا احسان ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔


ایک اور سیاستدان چودھری پرویز الہیٰ نے اپنے دور اقتدار میں ایک بہت اچھا کام کیا کہ لاہور میں صحافیوں کے لئے ہاؤسنگ سکیم کی منظوری دی اور ترجیحی بنیادوں پر ترقیاتی کام شروع کرائے گئے۔ اسی وجہ سے لاہور کے صحافی انہیں دعائیں دیتے ہیں۔ کئی صحافیوں نے وہاں گھر تعمیر کرکے رہائش اختیار کرلی ہے۔ اگر اس رہائشی سکیم کے بعض حصوں پر ’’ اسٹے آرڈر‘‘ والی کارروائی رکاوٹ نہ بنتی اورصحافیوں کو مناسب شرائط پر قرضے دیئے جاتے تو شاید آج صحافی کالونی میں کوئی پلاٹ خالی نہ ہوتا۔ جب سے شہباز شریف وزیر اعلیٰ بنے ہیں، ترقیاتی کاموں کی تکمیل کاانتظار کیا جارہا ہے۔ پہلے پرویز رشید کمیٹی کام کرتی رہی، اب زعیم قادری کمیٹی بنائی گئی ہے۔ خدا کرے تیزی سے معاملات نمٹائے جائیں۔ کچھ ایسے انقلابی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے کہ صحافی کالونی اسی سال پوری طرح آباد ہو جائے۔


محترم شہباز شریف نے لاہور پریس کلب کے لئے سالانہ گرانٹ تیس لاکھ سے بڑھا کر پچاس لاکھ روپے کرنے کااعلان کیا۔ ان کے ہم نام شہباز میاں صدر پریس کلب نے فرمائش کی تھی کہ اس سال بہتر انتظامات کے لئے ساٹھ لاکھ روپے دیئے جائیں۔ اگر مزید دس لاکھ روپے بھی دے دیئے جاتے تو وزیر اعلیٰ کے لئے کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ اس مرحلے پر ہم ایک تجویز پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ویسے تو ہمارے کئی رفقاء نے منع کیا ہے۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ سالانہ گرانٹ کے لئے دس لاکھ نہیں دیئے گئے، وزیر اعلیٰ صاحب سے کروڑوں روپے کی بات نہ کی جائے، لیکن ہمارا دل کہتا ہے کہ بات کردینی چاہئے۔شہباز شریف کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ مفادعامہ کو ترجیح دیتے ہیں۔ لاہور پریس کلب کے ممبران کی تعداد کے مطابق صحافی کالونی میں پلاٹ موجود ہیں۔ اس وقت نوے فیصد پلاٹ خالی پڑے ہیں کہ تعمیر کے لئے رقم نہیں۔ میری تجویز یہ ہے کہ پنجاب بینک سے ہر پلاٹ پر گھر تعمیر کرنے کے لئے پندرہ سے بیس لاکھ روپے نہایت آسان اقساط پر قرضہ مہیا کردیا جائے۔ یہ ایسا کام ہے کہ تاریخ میں شہباز شریف کانام سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ عموماً بچے پوچھتے ہیں کہ گھر کب بنائیں گے تو آسمان کی طرف دیکھ کر یہی جواب دیا جاتا ہے کہ اللہ بہت جلد کوئی سبب بنا ئے گا۔ اگر اپنے گھر کی چھت تعمیر کرنے کا وسیلہ شہباز شریف بن جائیں تو ان کا یہ کارنامہ اگلی نسلوں تک یاد رکھا جائے گا۔ ویسے بھی جب دو طرفہ دوستی کی بات چل نکلی ہے تو یہ کام کرنے میں کوئی حرج نہیں، ویسے بھی جائز کام حاکم وقت سعادت سمجھ کرکریں تو حقوق العباد اورحقوق اللہ کی ادائیگی ہو جائے گی۔۔۔ تاہم سوال تو یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف جو عجزوانکساری سے خود کو’’خادم پنجاب‘‘ کہتے ہیں، وہ صحافی دوستوں کا یہ جائز کام کرنا پسند کریں گے؟۔۔۔’’خادم پنجاب ‘‘ دل پر ہاتھ رکھیں اورپھر فیصلہ کریں، جو یقیناًدرست فیصلہ ہوگا۔

مزید :

کالم -