یوں نہیں، یوں: اشعار!

یوں نہیں، یوں: اشعار!
 یوں نہیں، یوں: اشعار!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پھر ہم ہیں اور غلطی ہائے اشعار کا معاملہ! درستی ضروری ہے کہ اغلاط کا رواج عام نہ ہونے پائے، اگرچہ خاصا عام ہو چکا ہے پھر بھی کوشش میں کیا حرج ہے؟
انہی دنوں اظہر جاوید [مرحوم] کے دورِ ادارت کے ماہنامہ ’’تخلیق‘‘ لاہور کے شمارہ جون 2014ء کی ورق گردانی کرتے ہوئے، ممتاز ترقی پسند ادیب و شاعر جناب مسلم شمیم کا ایک وقیع مضمون ’’ادب اور معرکہِ خیر و شر‘‘ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ فاضل محقق و نقاد نے ایک مشہور زمانہ شعر مولانا ظفر علی خان کے نام سے یوں درج کر رکھا ہے:
قتلِ حسینؓ اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
جبکہ یہ مشہور بلکہ ضرب المثل شعر ہرگز مولانا ظفر علی خان کا نہیں، مولانا محمد علی جوہر کا ہے۔
ماہنامہ’’تخلیق‘‘ لاہور کا شمارہ مارچ 2013ء انہی دنوں پڑھتے ہوئے محترمہ عذرا اصغر کے مضمون بعنوان: ’’کچھ یادیں، کچھ باتیں‘‘پر اٹکنا پڑا۔ موصوفہ نے مضمون کی ابتدا ایک مشہورِ زمانہ شعر کو اس طرح لکھ کر کی ہے:
شوکت ہمارے ساتھ عجب حادثہ ہوا
ہم رہ گئے ہمارا زمانہ گزر گیا
جبکہ شوکت واسطی (مرحوم) نے پہلے مصرع میں ’’عجب‘‘ نہیں ’’ بَڑا‘‘ کہہ رکھا ہے۔ گویا صحیح شعر یوں ہوا:
شوکت ہمارے ساتھ بڑا حادثہ ہُوا
ہم رہ گئے ہمارا زمانہ چلا گیا
اس شعر میں جو کہ شوکت تخلص کے ساتھ شوکت واسطی کا مقطع ہے، اکثر اوقات محسن لگا کے محسن نقوی یا محسن احسان کے نام سے اخبارات و رسائل و جرائد اور فیس بک پر، یعنی سوشل میڈیا پر پھیلا دیا جاتا ہے۔ میرا خود اختیار کردہ فرض ہے کہ شاعر اور شعر کا تحفظ کروں ۔’’حق بہ حقدار رسید ‘‘ کراؤں، لہٰذا لکھ رہا ہوں کہ یوں نہیں، یوں ہے
روزنامہ ’’جنگ‘‘ 30جنوری 2017ء ادارتی صفحے کے دوسرے صفحے پر ناروے کے کسی مضمون نگار ارشد فخر الدین محمد کا مضمون ’’ہمارا خون بھی شامل ہے‘‘ نظر سے گزرا۔حضرت علامہ اقبال کا ایک مشہور شعر اس طرح چھپا ہوا پڑھنے کو ملا:
فطرت افراد سے اغماز تو کر لیتی ہے
نہیں کرتی مگر قوموں کے گناہوں کو معاف
مذکورشعر کے دوسرے مصرعے کو بے وزن کرکے علامہ کا ’’دھڑن تختہ‘‘ کر دیا گیا ہے،جبکہ صحیح مصرعے کے ساتھ علامہ اقبال کا مکمل درست شعر یوں ہے:
فطرت افرادسے اغماض تو کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف
مضمون نویس لکھتے ہیں:’’ایسے میں شاعر بھی ہمارے دَور کے مجبور ہو گئے جگر مراد آبادی،جون ایلیا، جوش ملیح آبادی اور افتخار عارف کو بھی پاکستان آنے کا فیصلہ کرنا پڑا‘‘۔۔۔! باقی تو سب ٹھیک ’’جگر مراد آبادی‘‘ کوکب پاکستان آنے کا فیصلہ کرنا پڑا؟ وہ تو ان کے زبردستی کے شاگرد راز مراد آبادی تھے جن کو پاکستان آنے کا فیصلہ کرنا پڑا، جگر صاحب تو تادمِ مرگ انڈیا میں رہے۔ ان اغلاط کی اصلاح کے لئے ایڈیٹر کہاں ہے؟؟
ممتازطفاز کالم نگار حسن نثار نے اپنے کالم ’’چوراہا‘‘ مطبوعہ ’’جنگ‘‘ 2فروری 2017ء میں ایک مشہور زمانہ غزل کا مطلع اس طرح تحریر کیا ہے:
ہم تم ہوں گے ساون ہو گا
رقص میں سارا جنگل ہو گا
اس طرحشعر کی خوبصورتی اور معنی و مفہوم میں تو کوئی فرق نہیں پڑتا، مگر فاروق روکھڑی کے اس مطلع میں ’’بادل‘‘ اور ’’جنگل‘‘ قوافی اور ’’ہوگا‘‘ ردیف ہے۔ صحیح مطلع یوں ہے:
ہم تم ہوں گے بادل ہو گا
رقص میں سارا جنگل ہو گا
’’اور یہ کہ:
کس نے کیا مہمیز ہَوا کو
شاید آپ کا آنچل ہو گا
روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘ کی اشاعت بدھ 8فروری 2017ء میں جناب شکیل فاروقی نے اپنے کالم ’’قلم برداشتہ‘‘ میں ایک مشہور زمانہ شعر بغیر شاعر کے نام کے ’’اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی‘‘ کے ذیلی عنوان کے ساتھ رقم کیا ہے، پہلا مصرع تو ٹھیک ہے، مگر دوسرا مصرعہ انہوں نے یوں لکھا ہے:دیکھو زمانہ چال قیامت کی چل گیا جبکہ ’’دیکھو‘‘ کی بجائے شاعر نے ’’دوڑو‘‘ کہا ہوا ہے۔ جسٹس شاہ دین ہمایوں کا یہ مشہور شعر دراصل صحیح شکل میں اس طرح ہے:
اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہو گا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
اجمل خٹک کثر نے اپنے مضمون ’’امریکہ: خان صاحب کے کیا کہنے؟‘‘مطبوعہ ’’جنگ‘‘ اتوار 5فروری 2017ء میں ایک مشہور زمانہ شعر حضرت غالب کو بخش دیا ہے:
صد سالہ دورِ چرخ تھا ساغر کا ایک دَور
نکلے جو میکدے سے تو دنیا بدل گئی
جبکہ یہ شعر ہر عہد پر غالب مرزا اسد اللہ خان غالب کا ہرگز نہیں، بلکہ گستاخ رامپوری کا ہے۔
تخلیق کے شمارہ مارچ 2013ء میں علی رضا کے مضمون روشنی کی مثال تھا میں حضرت احسان دانش کا مشہور زمانہ شعر آغاز ہی میں اس طرح پڑھنے کو ملا:
قبر کے چوکھٹے خالی ہیں انہیں مت بھولو
جانے کب کون سی تصویر سجا دی جائے
دراصل قبرستان کوئی پینٹنگز کی یا آرٹ کی نمائش گاہ نہیں کہ قبر کے چوکھٹوں پر تصویر سجائی جا سکے۔ یہاں ’’لگانے‘‘ کا محل تھا اور شاعر نے اسی طرح شعر کہہ رکھا ہے۔ استاد گرامی احسان دانش کاصحیح شعر یوں ہے:
قبر کے چوکٹھے خالی ہیں انہیں مت بھولو
جانے کب کون سی تصویر لگا دی جائے

مزید :

کالم -