زینب کیس کا تاریخی اور فوری فیصلہ

زینب کیس کا تاریخی اور فوری فیصلہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


انسداد دہشت گردی کی عدالت نے قصور کی کمسن زینب کو اغوا، زیادتی اور قتل کرنے کے مجرم عمران کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے چار مرتبہ پھانسی، مجموعی طور پر 32 سال قید اور 41 لاکھ روپے جرمانے کا حکم سنایا ہے۔ زینب کیس عدلیہ کی تاریخ کا تیز ترین مقدمہ قرار پایا ہے، انسداد دہشت گردی کی عدالت نے کوٹ لکھپت جیل لاہور میں روزانہ آٹھ سے دس گھنٹے تک سماعت کرنے کے بعد فیصلہ سنایا۔ صرف 98 گھنٹے میں اس قدر اہم مقدمے کا پہلی بار فیصلہ سامنے آیا۔ عمران نے اپنے جرائم کا ازخود اعتراف کر لیا تھا، اِس لئے بھی جلد فیصلہ ممکن ہُوا۔ عدالت نے سزاؤں کے خلاف اپیل کے لئے مجرم کو پندرہ دن کی مہلت دی ہے۔ وحشی درندے کے خلاف معاشرے میں تمام طبقوں کی نفرت کا یہ عالم ہے کہ اُسے سرعام پھانسی دینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ مجرم کو پھانسی کیسے اور کہاں دی جائے، یہ فیصلہ حکومت کرے گی۔ تاہم بعض قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ قانون میں سرِعام پھانسی دینے کی گنجائش نہیں، اِس کے لئے متعلقہ قانون میں ترمیم کرنا ہوگی۔ مقتولہ زینب کے والدین نے مطالبہ کیا ہے کہ وحشی درندے نے جس جگہ زینب کی لاش پھینکی تھی، اُسے وہیں پر پھانسی دی جائے۔ عمران کو صرف زینب کیس میں متذکرہ بالا سزاؤں کا حکم سنایا گیا ہے، دیگر 8 بچیوں کے مقدمات زیر سماعت ہیں، مزید کارروائی کا فیصلہ ابھی نہیں کیا گیا ہے۔
زینب کیس حکومت اور پولیس کے لئے چیلنج بن گیا تھا۔ اِس وجہ سے عوامی اور سیاسی حلقوں کی جانب سے سخت تنقید کرتے ہوئے احتجاج کیا جاتا رہا۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار فرانزک لیب کے ذریعے ملنے والے ثبوتوں پر انحصار کرتے ہوئے مقدمے کا فیصلہ سنایا گیا۔ اِس کے ساتھ ساتھ عدالت کو فیصلہ کرنے میں آسانی ہوئی کہ مجرم عمران نے اعترافِ جرم کرتے ہوئے زینب سمیت دیگر بچیوں کے اغوا، زیادتی اور قتل کرنے کی تفصیلات بھی بیان کیں جبکہ کئی درجن گواہوں کے بیانات بھی قلمبند ہوئے۔ اِس فیصلے کو تاریخی اور مثالی قرار دیا جا رہا ہے۔ پولیس کے ساتھ ساتھ دیگر ایجنسیوں نے بھی مجرم کا سراغ لگانے کے لئے تعاون کیا، لیکن ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے ظالم اور وحشی درندہ پکڑا گیا۔ مجموعی طور پر گیارہ سو سے زیادہ افراد کے ٹیسٹ کئے گئے۔ اِس کیس کی اہمیت کا اندازہ اِس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھی ازخود نوٹس لے کر متعلقہ اداروں کو ہدایات جاری کیں جبکہ آرمی چیف نے آرمی ایجنسیوں کو پولیس سے تعاون کرنے کے لئے کہا تھا۔ انتہائی تیز رفتاری سے مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے چند دنوں میں مظلوم خاندان کو انصاف مہیا کر دیا گیا ہے۔ مختلف حلقوں کی جانب سے یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ فوری انصاف کے لئے کیا اسی طرح ہر مقدمے کو غیر معمولی اور انتہائی اہم قرار دینا پڑے گا۔ بنیادی طور پر پولیس کا کردار اہمیت رکھتا ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ لاپتہ اور اغوا ہونے والے بچوں کی ایف آئی آر درج نہیں کی جاتی، کئی کئی دنوں (بعض اوقات ہفتوں گزر جاتے ہیں) بعد مقدمہ درج بھی ہو جائے تو تلاش کرنے اور مجرم پکڑنے میں دلچسپی نہیں لی جاتی۔ یہ شکایت عام ہے کہ پولیس افسران اور اہلکار رشوت کے بغیر تھانے میں مظلوم والدین اور لواحقین کی فریاد بھی نہیں سنتے ہیں، اغوا کے بہت سے دوسرے واقعات کی طرح زینب کیس میں بھی پولیس افسروں (ڈی ایس پی اور ایس ایچ او) نے روایتی بے حسی، فرض ناشناسی کا ثبوت دیا اور رشوت کا انتظار کرتے رہے۔ اگر اغوا کئے جانے کے فوراً بعد پولیس سرگرم ہو جاتی تو شاید نوبت زینب کے قتل تک نہ پہنچتی۔ مجرم عمران کے لئے تو عدالت نے سزا سنا دی ہے، کیا یہ ضروری نہیں کہ جن پولیس افسروں اور اہلکاروں نے بے حسّی، غیر ذمے داری کا ثبوت دیا، اُن کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔ یہ پالیسی اختیار کرنا ضروری ہے کہ تھانوں میں اپنے فرائض کی ادائیگی نہ کرنے والوں کے خلاف بھی سخت کارروائی ہوگی۔ کسی پولیس افسر کی ایک شہر یا تھانے سے ٹرانسفر کوئی سزا نہیں۔ باقاعدہ سخت محکمانہ کارروائی کی روایت کا آغاز کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

مزید :

رائے -اداریہ -