نظام عدل اور عدم گستری بنیادی تقاضے
کسی بھی انسانی معاشرے کی بقاء و تحفظ اور ترقی کے لئے نظامِ عدل اور عدل گستری کی اہمیت اساسی نوعیت کی ہوتی ہے۔ اگر نظامِ عدل جلد اور فوری انصاف نہ دے سکے تو ظلم و جبر کی قوتیں معاشرے سے انسانی اوصاف و اقدار کا قلع قمع کر دیتی ہیں اور اگر کوئی بھی نظام ، عدل گستری کو یقینی نہیں بنا پاتا، مظلوم کی داد رسی نہیں کر سکتا، ظالم کے ہاتھ کو روک نہیں سکتا، لیٹروں ، ڈاکوؤں، خائنوں، بددیانتوں، بدعنوانوں ، قاتلوں، رسہ گیروں، بدمعاشوں، جنسی درندوں اور طاقت کے نشے میں چورافراد و عناصر اور طبقات کو کیفرِ کردار تک نہیں پہنچا سکتا تو
معاشرے کو بدترین زوال سے دوچار ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔
ہم اپنی ستر سالہ قومی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہمیں یہ تسلیم کرنے میں لحظہ بھر کا تامل بھی نہیں ہونا چاہیے کہ بالعموم ہمارے ہاں عدل و انصاف ، جنسِ نایاب ہی رہی ہے۔ اکثر و بیشتر ہمارے حکم ران طبقے اور اختیارات سے لیس انتظامیہ نے عادلانہ رویّے اپنانے کی بجائے ظلم و ستم کو روا رکھنے کو ہی اپنا وطیرہ بنائے رکھا ۔ انہوں نے .....الا ماشاء اللہ..... نہ صرف خود ظلم کی داستانیں تخلیق کیں بلکہ ظالموں کی پشت پناہی کی ، انہیں تحفظ فراہم کیا، ان کے مفادات کی نگہبانی کی، ان کے جرائم سے پردہ پوشی کی، حالانکہ ان کے مناصب ان سے عادلانہ رویّوں کے متقاضی تھے۔ ان کی کسی پالیسی، اقدام، عمل اور حکم سے نہ کسی کی حق تلفی ہونی چاہیے تھی اور نہ ہی کسی کے ساتھ زیادتی۔ بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا۔ حکم ران اور انتظامی افسران نے اکثر و بیشتر وہ سب کچھ کیا جو انہیں نہیں کرنا چاہیے تھا، اور ہر اس کام سے بالعموم اجتناب برتا، جسے سرانجام دینا ان کا فرضِ منصبی تھا۔
جہاں کہیں بھی ایسی غیر منصفانہ صورتِ حال جنم لے، وہاں عدل و انصاف کی مشینری سرگرمِ عمل ہوتی ہے اور وہ پھر مظلوم کی داد رسی کرتی ہے، اس کی پشت پناہ بنتی ہے، اسے تحفظ فراہم کرتی رہے، اس کے حقوق کی نگہداشت کا فریضہ سرانجام دیتی ہے۔ یہی مشینری کبھی ظالم کی طنابیں کھینچتی ہے، کبھی اس کے دراز ہوتے بازوؤں کو ہتھکڑی پہناتی ہے، کبھی اسے حوالۂ زندان کرتی ہے اور کبھی خون آلود ہاتھوں کوشل کر دیتی ہے۔ یہ عدالتی مشینری ہی معاشرے میں انصاف کا بول بالا کرتی ہے۔ اس کی بدولت ظلم و ستم کا پھیلتا ہوا دائرہ سکڑتا ہے اور عدل کی فرماں روائی قائم ہونے لگتی ہے، بدامنی کے دراز ہوتے سائے سمٹنے لگتے ہیں اور امن و سکون کا دور دورہ ہونے لگتا ہے۔ اسی کی وجہ سے ظالموں اور قاتلوں کے گرد گھیرا تنگ ہونے لگتا ہے اور مظلوموں کو کشادگی و فراخی کے احساس سے شاد کام ہونے کا موقع ملتا ہے۔ اسی مشینری کی درست کارکردگی سے ظلم کی چکی میں پسنے والوں میں زندہ رہنے کی امنگ انگڑائیاں لینے لگتی ہے۔ منفی جذبات زیرِ دام آنے لگتے ہیں، مثبت رویّوں کو فروغ ملتا ہے اور یوں معاشرہ میں روا داری پنپنے لگتی ہے۔ عدل و انصاف کا نظام اور مشینری عدل گستری کا کام جتنی زیادہ قوت کے ساتھ سرانجام دینے کے اہل ہوں گے ، معاشرے اسی قدر استحکام آشناہوتا چلا جائے گا۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ انصاف سستا اور فوری ملے۔ ایسا انصاف جس کے حصول کا خواب دیکھنا، غریب تو کجا متوسط طبقے کے افراد کے لئے بھی دیکھنا ناممکنات میں سے ہو جائے، اور جسے حاصل کرنے کے لئے کئی نسلوں کو انتظار کرنا پڑے، اسے نہ تو عدل سے تعبیر کیا جاتا ہے اور نہ ہی اس نظام کو عادلانہ ہونے کا سزاوار قرار دیا جا سکتا ہے۔
اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرنے میں کسی بھی ذی شعور فرد کو لحظہ بھر کا بھی تامل نہیں ہو گا کہ ہمارا آج کا نظامِ عدل بہت سی اصلاحات اور تبدیلیوں کا متقاضی ہے۔ یہ نظام سستا اور فوری انصاف دینے کی صلاحیت سے بہرہ وَر نہیں ہے۔ حصولِ انصاف کی خاطر لوگوں کی زندگی بھر کی جمع پونجی داؤ پر لگ جاتی ہے، خاندان کے خاندان کنگال ہونے لگتے ہیں اور تونگری کی جگہ مفلسی ڈیرے ڈالنے لگتی ہے۔ سالہا سال تک لٹکتے کیس، ذہنی و جسمانی سکون کو غارت کر دیتے ہیں۔ تھانے اور کچہریوں کا ماحول تو عزتِ نفس کو بھی مجروح کرنے لگتا ہے ، کسی بھی شریف آدمی کے لئے ان دونوں کا رخ کرنا، ناپسندیدہ اعمال میں سرِفہرست محسوس ہوتا ہے۔ جبھی تو ہمارے بزرگ تھانے کچہریوں سے بچے رہنے کی دعائیں دیا کرتے تھے۔
انصاف کی فراہمی میں پولیس اور وکلاء کا کردار بڑا اہم بلکہ بنیادی نوعیت کا ہوتا ہے، بدقسمتی سے یہ دونوں ادارے اکثرو بیشتر صورتوں میں حصول انصاف کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتے ہیں، بلکہ یہ کہنا شائد غلط نہ ہو گا کہ ان میں سے اول الذکر تو اپنے انصاف کش طرزِ عمل اور رویّوں کے باعث ظلم وستم کو فروغ دینے پر ہی ادھار کھائے بیٹھا ہوتا ہے۔زینب قتل کیس میں پولیس کے کردار کو آپ اور کیا نام دیں گے؟
اس گھمبیر صورتِ حال میں یقیناًاس امر پر بحث مباحثہ ہونا چاہیے کہ سستے اور فوری انصاف کو یقینی بنانے کے لئے کیا اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں، موجودہ نظام اور مشینری میں کیا تبدیلیاں کی جانی چاہئیں کہ جن کی بدولت کوئی بھی لاچار و بے بس انسان حصولِ انصاف سے محروم نہ رہ سکے اور نہ ہی کوئی ظالم و جابر اور بدقماش و بدعنوان اپنی دہشت و وحشت ، اپنی قوت و سطوت اور اپنے مال و دولت کے باعث انصاف کا خریدار بن سکے۔ ایسا نظامِ عدل جو ظالموں ، قاتلوں ، خونی درندوں ، لٹیروں ، ڈاکوؤں، بدعنوانوں، انسان نما حیوانوں اور جنسی بھیڑیوں پر لرزہ طاری کر دے، ان کی نیندیں حرام کر دے اور ان کا جینا دوبھر کر دے۔ایسا نظامِ عدل جو مجبور و مقہور بے گناہ لوگوں ، مظلوموں اور چیرہ دستیوں کے شکار افراد کا پشتیبان بن سکے، ان سے روا رکھے جانے والے ظلم کا خاتمہ کرسکے، انہیں جان و مال کا تحفظ فراہم کر سکے، ان کی عفتوں اور عصمتوں کا محافظ بن سکے اور شرفاء کی عزتوں کو پامال ہونے سے بچا سکے۔
ایسے نظامِ عدل کے لئے یقیناً جدوجہد کی جانی چاہیے، اس لئے کہ ایک حقیقی انسانی معاشرے کے لئے ایسا ہی نظامِ عدل مطلوب ہوتا ہے۔ یہ نظامِ عدل جس معاشرے میں بھی کار فرما ہوتا ہے ، وہ اندرونی و بیرونی خطرات سے محفوظ و مامون ہو جاتا ہے۔ اس میں امن و سکون کا دور دورہ ہوتا ہے۔ہرفرد کو ترقی کے یکساں مواقع میسر ہوتے ہیں اور وہ اپنی خداداد صلاحیتوں اور استعداد کو بروئے کار لاتے ہوئے نہ صرف خود عروج و سربلندی کی طرف گام زَن رہتا ہے بلکہ اپنے معاشرے، قوم اور ملک کو بھی اوجِ ثریا سے ہم کنار کرنے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ ایسا نظامِ عدل صرف اور صرف اسلامی اصولوں کو اپنا کر اور اسلامی احکامات و فرامین کی روشنی میں ہی تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ اس نظامِ عدل کے لئے مطلوب مشینری، اسلامی تعلیمات کے مطابق تیار کردہ افراد ہی فراہم کر سکتے ہیں۔ اسلامی تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی اسلامی نظامِ عدل کو بروئے کار لایا گیا، منصبِ قضاء پر باصلاحیت و باکردار اور خوفِ خدا رکھنے والے افراد کا تعین کیا گیا،عدل گستری کے ناقابلِ فراموش عہد انسانی تاریخ کے روشن ترین ادوار بن گئے ۔ اپنے ماضی کو اپنا حال اور اپنا مستقبل بنا کر ہم آج بھی اپنے ظلمت کدے کی تنویر کا اہتمام کر سکتے ہیں۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔