شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ...قسط نمبر 36

شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ...قسط ...
شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ...قسط نمبر 36

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کھنڈرکے وہ حصے جہاں بارش کا اثر نہیں پڑا تھااور غبار موجود تھا،وہاں شیر کے ماگھ نمایاں تھے ۔بیٹھنے اٹھنے کی جگھیں بھی معلوم ہوتی تھیں۔ایک شکستہ کمرے کے کناروں والی دیوار کے ساتھ بوسیدہ سیڑھیاں نیچے اتری تھیں ۔غالباًتہ خانہ ہوگا۔ان اطراف میں ماگھ بھی بکثرت تھے اور مجھے یہ یقین کرنے میں دیر نہ لگی کہ شیر اسی سرنگ یا تہ خانے میں رہتا ہوگا۔میں کھنڈر میں گھوم پھر کر واپس آگیا اور ایک جگہ اپنی مچان اور کھلگے کے لیے بھی منتخب کرلی۔
کھنڈر اور ندی کے درمیان ماگھ کی کثرت تھی اور یہاں برگد کا ایک بہت پرانا اور پھیلا ہوا درخت بھی تھا ۔میں نے نوشاہ کے آدمیوں کو اسی درخت پر مچان باندھنے کی ہدایت کی اور خود نوشاہ کو ساتھ لیے ندی کی طرف چل دیا ۔تھرمس میں چائے بھری ہوئی تھی۔ندی کے کنارے ایک کشادہ اور صاف جگہ بیٹھ کر ہم لوگوں نے تھرمس کھولا اور چائے سے لطف اٹھانے لگے۔

شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں قسط نمبر 35 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
سامنے گھنے درختوں کی طویل اور شاداب قطار کے درمیان بل کھاتی ہوئی ندی کا شفاف پانی بہ رہا تھا ۔حدِنگاہ تک پھیلے ہوئے سبزے کا فرش ،ہوامیں سنبل وریحاں کی بسی ہوئی خوشبو،جھومتے ہوئے ہرے بھرے درخت ۔ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ مقام جنت کا ایک ٹکڑا ہو۔لیکن اس تمام دلکشی اور نظر نوازی کے باوجود سارے ماحول پر ایک ناقابل بیان دہشت کا تسلط تھا۔جولوگ مچان باندھ رہے تھے نہ تو ان کی آواز آتی تھی،نہ خود ہی آپس میں بات کرنے کو دل چاہتا تھا ۔چائے ہم لوگوں نے خاموشی کے ساتھ ختم کی اور تھرمس بند کرکے اٹھنے ہی کو تھے کہ نوشاہ نے ندی کے دوسرے کنارے کی طرف اشارہ ۔میں نے دیکھنے سے پہلے رائفل اٹھائی ،تب ادھر دیکھا۔
ایک کالا سیاہ ہرن پانی پی رہا تھا ۔اس کے سینگ بھی بہت لمبے تھے اور اگر مجھے شیر کی فکر نہ ہوتی تو یقیناً اسے مار دیتا ۔۔۔۔ذرا دیر وہ پانی پیتا رہا۔اس دوران میں سر اٹھا کر کبھی کبھی ادھر ادھر بھی دیکھ لیتا۔پھر آٹھ دس منٹ کے بعد اطمینان سے چل کر جنگل میں غائب ہوگیا۔
ہم لوگ واپس آئے تو مچان باندھی جاچکی تھی ۔میں نے کھلگے کو باندھنے کے لیے جگہ بتا دی تھی اور ان لوگوں نے درخت کی باہر نکلی ہوئی ایک جڑ میں بہت مضبوط سوت کے رسے سے کھلگے کا پیر باندھ دیا تھا۔
’’ کیا اسی وقت سے مچان پر بیٹھنے کا ارادہ ہے۔۔۔۔؟‘‘نوشاہ نے پوچھا۔۔۔۔۔۔
’’ظاہر ہے ۔اب گاؤں واپس جانا اور پھر آنا تو ناممکن نہیں ۔۔۔سولہ میل کا سفر اتنی آسانی اور تیزی سے کیسے طے ہوگا۔۔۔۔؟‘‘
ہم لوگ اس کام سے فارغ ہو کر بیل گا ڑیوں کی طرف آگئے ۔جو وہاں سے تین سو گز کے فاصلے پر تھیں ۔بارہ بج رہے تھے۔ہمارے آدمیوں نے ایک صاف جگہ دستر خوان بچھاکر کھانا لگا دیا اور میں نے اور نوشاہ نے اطمینان سے کھانا کھایا۔ابھی کھانا ختم کرکے ہاتھ صاف کررہے تھے کہ کوئی میل ڈیڑھ میل شمال مشرق کی طرف سے شیر کے دہاڑنے کی آواز آئی ۔لیکن یہ آواز حملہ کرنے کی آوازنہیں تھی،بلکہ وہ دہاڑ تھی جو صحراکے اس فرمانروا کے خونخوار حلق سے اطمینان وفراغت کے وقت نکلتی ہے۔دس بارہ منٹ کے وقفے سے آواز دوبارہ آئی اور اس دفعہ اس کا فاصلہ کم تھا۔اس کا مطلب یہ تھا کہ شیر اسی طرف آرہا ہے۔
ہم لوگوں نے جلدی جلدی سامان سمیٹا ۔۔۔نوشاہ ،میں اور ملازم ضروری سامان لے کر مچان پر چڑھ گئے۔باقی لوگوں کو ہدایت کردی کہ کسی قدر آواز سے باتیں کرتے گاؤں واپس جائیں اور دوسرے روز صبح پھر ہمارے پاس آئیں ۔چند منٹ میں ہی وہ لوگ بیل گاڑیوں پر بیٹھ کر حسب ہدایت باتیں کرتے ڈوب کی طرف چل دیے۔
وقت گزرتا رہا ۔نہ شیر کی آواز آئی اور نہ خود شیر ہی آیا۔البتہ ریچھ اس درخت کے نیچے سے کئی دفعہ گزرے اور کھلگے کو دیکھ کر ایک ریچھ نے خاصا شور بھی مچایا ۔۔۔۔اس کے بعد شام ہونے تک سناٹا رہا۔مغرب کے بعد وہ قطعہ زیادہ دہشتناک ہوگیا۔میرے خیال میں چاند کی چھٹی یا ساتویں رات تھی۔ذرا دیر کے لیے چاند نکلا۔خفیف سی روشنی پھیلی ،اس کے بعد پھر اندھیرا ہوگیا۔
ندی کی طرف پانی پر جانے والے کچھ بھیڑیے ،چند ریچھ اور اکّا دکّا چیتل گزرے ۔شیر نظر نہیں آیا ۔یا تو کسی اور راہ سے کھنڈر میں داخل ہوگیا یا راستے میں ہی کہیں ٹھہرگیا۔
چاند غروب ہونے کے بعد درخت پر اور مچان کے ارد گرد تاریکی ہوگئی ۔ہاتھ کو ہاتھ سُجھائی نہیں دیتاتھا ۔لیکن جس مقام پر کھلگا بندھا تھا،وہ تاروں کی خفیف روشنی میں ہلکا دھبا سا نظر آتا تھا۔یکبارگی مچان کی پشت پر پتوں میں کھڑکھڑاہٹ ہوئی ۔ایسی کھڑکھڑاہٹ جیسے کوئی جانور تیزی سے پتوں کے درمیان سے گزرگیا ہو۔۔۔۔میں نے خیال کیا کہ لنگور یا بندر ہوگا،جس نے ہم لوگوں کی کسی حرکت سے ڈر کر اپنی جگہ بدلی ہے۔ کیونکہ دن کے وقت ان درختوں پر میں نے بے شمار لنگور دیکھے تھے اور لنگوروں سے خوف زدہ ہونے کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔
لیکن چند ہی سیکنڈ کے وقفے سے آواز کا اعادہ ہوا۔اب تو میرے کان کھڑے ہوئے ۔نوشاہ بھی گھبرائے۔خصوصاًوہ ملازم جو ساتھ بیٹھا تھا ،اسے بڑی پریشانی ہوئی۔کیونکہ اس نے کئی بار پہلو بدلا اور میرے گھٹنے کو چھوکر مجھے متوجہ کرنے کی بھی کوشش کی ۔ابھی میں اس پر غور ہی کر رہا تھا کہ پھر کھڑکھڑاہٹ ہوئی،اور بالکل قریب۔۔۔۔
میں سوچ رہا تھا،بار بار کھڑکھڑاہٹ کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔تیندوایا لنگور یا جو کچھ بھی ہو،ایک دو دفعہ سے زیادہ آواز نہیں کرتا۔تین بار مسلسل آواز کا ہونا عجیب سی بات تھی۔میں یہ سوچ رہا تھا کہ پھر آواز ہوئی۔۔۔۔وہی پتوں کے درمیان میں سے کسی کے گزرنے کی کھڑکھڑاہٹ۔۔۔۔۔
اب خاموش بیٹھے رہنے کا موقع نہیں تھا ۔میں نے نوشاہ سے کہا،’’ٹارچ روشن کیجیے‘‘۔۔۔۔۔غالباًوہ خود یہی کرنے والے تھے۔ادھر میرے منہ سے یہ الفاظ نکلے،ادھر انھوں نے ٹارچ روشن کردی،روشنی سے سارا درخت جگمگایا۔۔۔اب جو منظر اس مچان سے عین چند فٹ کے فاصلے پر نظر آیا،اس نے ہم سب کا خون خشک کردیا۔۔۔۔(جاری ہے )

شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ...قسط نمبر 37 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں