سعودی عرب میں پاکستان کے نئے سفیر
کسی سربراہِ مملکت کے دورے میں تجزیہ کار باڈی لینگویج پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ بہت سے نتائج باڈی لینگوئج کو دیکھ کر اخذ کئے جاتے ہیں۔ شہزادہ محمد بن سلمان کی دورۂ پاکستان کے دوران باڈی لینگوئج واضح طور پر یہ پیغام دے گئی ہے کہ وہ اس دورے سے بہت خوش تھے۔
نہ صرف خوش تھے، بلکہ یوں لگ رہا تھا کہ وہ سعودی عرب سے باہر اپنے اس قدر بھرپور استقبال اور وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے حد درجہ اپنائیت پر بہت شاداں و فرحاں تھے۔ انہوں نے جس بے تکلفی سے وزیر اعظم ہاؤس میں عمران خان کی باتوں کے جواب میں یہ کہا کہ آپ مجھے سعودی عرب میں اپنا سفیر سمجھیں، یہ کسی بھی حکمران کی طرف سے ایک بہت بڑا علامتی اظہار تھا۔
خاص طور پر ماضی میں نہ تو کسی سعودی حکمران نے ایسی بات کہی اور نہ ہی اس قدر اپنائیت اور بے تکلفی کا اظہار کیا۔ ایسا فوری حکم بھی کبھی جاری نہیں ہوا جو شہزادہ محمد بن سلمان نے وزیر اعظم عمران خان کے سعودی عرب کی جیلوں میں قید پاکستانیوں کی رہائی کا معاملہ اٹھانے پر جاری کیا اور 2017 قیدی فوری رہا کرنے کا حکم دیا۔ یہ سب باتیں ایک بڑے تبدیل شدہ منظر نامے اور تعلقات کی نشاندہی کر رہی ہیں۔۔۔ پھر شہزادہ محمد بن سلمان کا دوران خطاب یہ کہنا کہ ہمیں پاکستان میں ایسی ہی قیادت کا انتظار تھا، ایک بہت اہم جملہ ہے، جو سعودی عرب کے حکمران طبقے کی سوچ کو ظاہر کرتا ہے۔
شہزادہ محمد بن سلمان کے دورے کو صحیح معنوں میں گیم چینجر قرار دیا جا رہا ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ تو یہی ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان کو ایک بڑی سرمایہ کاری کے لئے منتخب کر لیا ہے۔ بیس ارب ڈالرز کے فوری معاہدے ہو گئے ہیں اور محمد بن سلمان نے اسے آغاز قرار دیا ہے، جس نے بہت آگے تک جانا ہے ان کا یہ کہنا کہ پاکستان کا مستقبل بہت خوشحال ہے اور اس خوشحالی میں ہمارا بھی حصہ ہوگا، بڑی اہم بات ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ سعودی عرب تیل کی آمدنی پر انحصار کرنے کی بجائے جو نئے ذرائع تلاش کر رہا ہے، وہ اسے پاکستان میں ہی نظر آتے ہیں ۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ مغرب میں سرمایہ کاری کا وہ فائدہ حاصل نہیں ہوتا جو ترقی پذیر معیشتوں میں سرمایہ لگانے سے ہوتا ہے۔ صاف لگ رہا ہے کہ اس حوالے سے سعودی عرب جو نیا دروازہ کھولنا چاہتا ہے۔ وہ پاکستان کی طرف کھلتا ہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے پاکستان میں سیاحت کے امکانات پر بھی امید افزا باتیں کی ہیں اور کہا ہے کہ اگلے بیس برسوں میں پاکستان سیاحت کا بہت بڑا مرکز بن جائے گا اور ہم اس میں اپنا حصہ ڈالیں گے۔ یہ اس امر کا اشارہ ہے کہ سعودی عرب سیاحت کے شعبے میں ایک بڑی سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے۔
انفراسٹرکچر کی بہتری، ہوٹلنگ کی صنعت اور سیاحتی مقامات کی ترقی ایسے شعبے ہیں جن میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کی جا سکتی ہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان چونکہ خود ایک ترقی پسندانہ سوچ رکھتے ہیں اور جدت سے خوفزادہ ہونے والے نہیں، اس لئے وہ پاکستان کو بھی ایک جدید ملک دیکھنا چاہتے ہیں۔
یہ دیرینہ بات تو انہوں نے بھی دہرائی ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کی موجودہ قیادت ایک بدلے ہوئے تناظر میں تعلقات کا فروغ چاہتی ہیں۔ یہ بڑی اچھی بات ہے کہ سعودی عرب پاکستان کو اپنی مستقبل کی اقتصادی منصوبہ بندی کے تناظر میں کلیدی اہمیت دے رہا ہے، اس سے جہاں سعودی عرب کے لئے نئے معاشی اہداف بنانے میں آسانی رہے گی، وہیں پاکستان کو مسلسل چلے آنے والے معاشی بحران سے نکلنے میں بھی مدد ملے گی۔
سعودی ولی عہد کے اس دورے پر پوری دنیا کی اس لئے بھی گہری نظر ہے کہ گوادر میں سعودی عرب جو آئل ریفائنری لگانے جا رہا ہے، وہ تیل کی سیاست کا بھی نقشہ تبدیل کر سکتی ہے، پھر سی پیک میں سعودی عرب کی شمولیت اس منصوبے کو اس تاثر سے نکال سکتی ہے کہ وہ صرف پاک چین منصوبہ ہے۔
اُدھر چین نے سعودی ولی عہد کے دورے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے یہ بیان جاری کیا ہے کہ سی پیک میں سعودی عرب کی شمولیت کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ سعودی عرب اپنی بند معیشت اور ثقافت کو دنیا کے لئے کھول رہا ہے اور یہ سب کچھ شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد سے ہوا ہے۔
سودی عرب میں سنیماؤں کی اجازت ہو یا خواتین کو ڈرائیونگ کرنے کی، سعودی ولی عہد نے ان کی اجازت دی۔ سب نے دیکھا کہ ولی عہد محمد بن سلمان نے وزیر اعظم کے عشایئے میں روایت سے ہٹ کر انگریزی میں فی البدیہہ خطاب کیا، وگرنہ اس سے پہلے سعودی حکمران صرف عربی میں ہی گفتگو کرتے تھے۔
یہ بات بجائے خود مغرب کے لئے ایک بہت بڑا اشارہ ہے کہ سعودی عرب کو اب صرف ایک مذہبی ریاست سمجھ کر روابط نہ رکھے جائیں، بلکہ سعودی عرب اب ایک روشن خیال ترقی پسند ملک بننے جا رہا ہے۔
دورۂ پاکستان کو شہزادہ محمد بن سلمان نے دنیا کو پیغام دینے کے لئے استعمال کیا ہے۔ ایک طرف انہوں نے پاکستان کی طرف مکمل جھکاؤ ظاہر کر کے دنیا کے سامنے دونوں ملکوں کے تعلقات کی نوعیت واضح کر دی ہے اور دوسری طرف عمران خان نے یہ دو ٹوک اعلان کر کے دنیا پر واضح کر دیا ہے کہ پاکستان سعودی عرب کا فرنٹ لائن اتحادی ہے اور اس پر آنج نہیں آنے دے گا۔
بعض لوگ یہ دور کی کوڑی لا رہے ہیں کہ محمد بن سلمان کی پالیسیاں امریکی پالیسی سازوں کی دی ہوئی ہیں اور ان میں بنیادی نکتہ اسرائیل کو تسلیم کرنا ہے، جس کے لئے کام ہو رہا ہے۔ یہ بڑی بے تکی بات نظر آتی ہے۔
اگر کوئی کہتا ہے کہ سعودی عرب پاکستان کے ساتھ قربت کے تعلقات کسی امریکی ایجنڈے کو پورا کرنے کے لئے بنا رہا ہے تو اس کی عقل کا ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ حقیقت اس کے برعکس یہ ہے کہ سعودی عرب امریکی دباؤ سے نکلنا چاہتا ہے اور اس کے لئے اسے پاکستان کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان کی سیاسی و عسکری سپورٹ سعودی عرب کو بہت سے چیلنجوں سے بچا سکتی ہے۔
خود امریکہ کو بھی اس کا اندازہ ہے۔ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کامیابیاں اور افغانستان میں امریکہ کی بے بسی دو ایسے عوامل ہیں جنہوں نے پاکستان کے اس خطے میں کلیدی کردار کو واضح کر دیا ہے۔ ایسے میں پاک سعودی تعلقات میں قربت اور عوام کی سطح پر ان تعلقات کا فروغ بہت بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔اس سارے پس منظر میں جو بات بڑی اہمیت کی حامل ہے، وہ خود شہزادہ محمد بن سلمان کی شخصیت ہے، انہیں غالباً اگلی کئی دہائیوں تک سعودی عرب کا حکمران رہنا ہے۔
شاہ سلمان نے بادشاہت سنبھالنے کے بعد جس طرح سعودی حکمرانوں کی چین آف کمانڈ تبدیل کی اور اپنے نوجوان بیٹے محمد بن سلمان کو اپنا ولی عہد بنایا، اس نے اس تبدیلی کی بنیاد رکھ دی جو آج سعودی حکمرانوں کی سوچ میں نظر آ رہی ہے۔ اب یہ بات تو وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ شاہ سلمان کے بعد شاید کوئی سعودی حکمران 75 یا 80 سال کی عمر میں برسر اقتدار نہ آئے۔ اب نوجوان قیادت ہی آئے گی اور سعودی عرب کی روائتی حکمرانی میں آنے والی تبدیلی آگے بڑھے گی، پیچھے نہیں جائے گی۔ آج محمد بن سلمان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ انہوں نے سعودی عرب کی ایلیٹ کلاس سے اربوں ڈالرز نکلوائے جو اس نے کرپشن اور ٹیکس چوری سے بنائے تھے۔
اپنے ہی طبقے کے افراد پر ہاتھ ڈالنا معمولی بات نہیں ہوتی۔ یہ کسی حکمران کے آہنی عزم کو ظاہر کرتا ہے۔ محمد بن سلمان نے یہ کام کر کے اپنے مضبوط اعصاب کی نشاندہی کر دی ہے۔
اب ظاہر ہے مستقبل میں بھی وہ کڑے فیصلے کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ اور امریکہ بھی ان کا بغور مشاہدہ کر رہے ہیں، صحافی عدنان خشوگی کے معاملے پر ولی عہد کے خلاف صدر ٹرمپ سے لے کر ہر مغربی حکمران نے کیا کچھ نہیں کہا، مگر محمد بن سلمان نے تمام الزامات کو رد کر کے اپنے مضبوط اعصاب کا ثبوت دیا۔ اب انہوں نے سعودی عرب میں خود کو پاکستان کا سفیر کہہ دیا ہے۔
یہ ایک بہت کلیدی اشارہ ہے جو اس حقیقت کو آشکار کرتا ہے کہ سعودی عرب کی پالیسیوں میں اب پاکستان بنیادی محور کی حیثیت رکھتا ہے، یہ کوئی معمولی بات نہیں۔