تیسرا عشق (1)

تیسرا عشق (1)
تیسرا عشق (1)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


پچھلے دنوں بہاولنگر سے عبدالمجید خان سے فون پر بات ہوئی۔ وہ میرے عزیزروں میں سے ہیں۔ مشرقی اور مغربی زبانوں کا نہایت اعلیٰ ذوق رکھتے ہیں۔ میری پوسٹنگ جب بہاولنگر میں تھی تو ان سے بے تکلفانہ گفتگو رہتی تھی۔ انہوں نے چھوٹتے ہی پوچھا: ”بھائی جان! عشق کی اقسام کتنی ہیں؟“ میں نے کچھ سوچ کر جواب دیا: ”مجھے تو عشقِ حقیقی اور عشقِ مجازی کا علم ہے اور وہ بھی صرف کتابی قسم کا“…… کہنے لگے ایک تیسرا عشق بھی ہوتا ہے اور یہ عشقِ مجازی کا پیش خیمہ ہے…… میں یہ نیا نام سن کر حیران ہوا۔ مجید خان چونکہ تصوف اور اہلِ تصوف سے بھی خاصی آشنائی رکھتے ہیں، اس لئے تادیر ”وعظ و تلقین“ سے بندے کو فیض یاب کرتے رہے۔ بات بات پر شعر کی سند ان کی دیرینہ عادت ہے۔ ذیل کا کالم ان سے طویل ٹیلی فونک گفتگو کا حاصل ہے۔ کچھ نکات یادداشت سے اتر چکے ہیں۔ شاید میری طرح بعض قارئین کے لئے معلومات افزائی کا باعث ہوں۔ فرمانے لگے:غالب کا شعر ہے:


رو میں ہے رخشِ عمر کہاں دیکھئے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے، نہ پا ہے رکاب میں


رخشِ عمر اگرچہ دوڑ رہا ہے لیکن اس کی تیزی ء رفتار کا پتہ نہیں چلتا۔ انسان دیکھتے ہی دیکھتے بچپن سے لڑکپن، لڑکپن سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپے کی طرف بھاگا چلا جاتا ہے۔ تقریباً ہر روز کم از کم ایک بار آئینہ دیکھتا ہے تو اس کو کبھی حیرت نہیں ہوتی کہ وہ عمر کی اگلی منزل پر جاپہنچا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ وقت رک گیا ہے لیکن اسپِ وقت کی رفتار اتنی برق رفتار ہوتی ہے کہ آئینے میں انسانی عمر کی ریس (Race) نگاہوں سے اوجھل رہتی ہے۔ آئینے کو اگر زبان مل جاتی تو وہ انسان سے ہمکلام ہو کر اسے تنبیہ ضرور کرتا کہ گردشِ ایام نے تیری عمر کی ایک اور گھڑی گھٹا دی ہے اس لئے ہوشیار باش۔ وقت گویا ایک گھڑیال ہے جو نہ صرف آپ کے چہرے پر نصب ہے بلکہ جسم کے ہر حصے پر اس کی گراریاں اور دوسرے پرزے چل رہے ہیں اور منادی کر رہے ہیں کہ دم لینے کی فرصت نہیں۔


لیکن اس رخشِ عمر کے علاوہ ایک گھوڑا اور بھی ہے جسے رخشِ خیال کہتے ہیں۔ یہ رخش اتنا تیز دوڑتا ہے کہ کوئی سپر کمپیوٹر بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اس رخش کے زیرِ حکم دوسرے کئی اور گھوڑے بھی ہیں جو بیک وقت مختلف اطراف و جوانب کی طرف دوڑتے رہتے ہیں۔ اگر کمپیوٹر کی مثال دوں تو یہی کہوں گا کہ اسپِ کمپیوٹر صرف اسی طرف دوڑے گا جس طرف کا اس کو حکم دیا جائے گایعنی جو کچھ اس میں فیڈ کیا جائے گا۔ اور جس سمت کا حکم اس فیڈ (Feed) میں دیا جائے گا وہ کمپیوٹر کا گھوڑا صرف اسی طرف دوڑے گا۔ لیکن انسان کا رخشِ خیال بیک وقت کئی اطراف میں دوڑتا ہے اور بہت تیز دوڑتا ہے۔ ایک انسان دوسرے انسان سے جب ہمکلام ہوتا ہے تو جو موضوع ڈسکس ہو رہا ہوتا ہے، بظاہر اس پر فوکس رکھتا معلوم ہوتا ہے لیکن دراصل اس کے دماغ میں بیک وقت کئی موضوعات بڑی برق رفتاری سے مختلف سمتوں میں دوڑ رہے ہوتے ہیں۔


ہم نماز ادا کرنے لگتے ہیں تو اچھی طرح جانتے ہیں کہ ادائیگی ء نماز کے احکامات یہ ہیں کہ صرف اللہ کریم کی طرف دھیان رہے اور بڑے خشوع و خضوع کے ساتھ اس ذاتِ واحد کے حضور خیال کو فوکس رکھا جائے۔ نماز میں یہی حکم ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ نماز پڑھتے ہوئے دنیا جہان کے موضوعات کی طرف دھیان چلا جاتا ہے۔ منہ سے (یا دل میں) تو تلاوتِ قرآن جاری ہوتی ہے لیکن اسپِ خیال کسی اور طرف بھاگ رہا ہوتا ہے۔ کسی کا شعر ہے کہ زبان اگر ذکرِ خداوندی میں مشغول ہو اور خیالات،دنیا داری کی طرف امڈے چلے جا رہے ہوں تو اس نماز کا کوئی فائدہ نہیں:


زباں در ذکر، دل در فکرِ خانہ
چہ حاصل زیں نمازِ پنجگانہ؟


میرے ساتھ اکثر یہ ہوتا ہے کہ شبِ تنہائی میں جب سونے لگتا ہوں تو نیند سے کچھ دیر پہلے اَن گنت خیالات، دل و دماغ میں گھوم رہے ہوتے ہیں۔ کہنے کو تو یہ آرام کا وقت ہوتا ہے۔ دن بھر کی محنت و مشقت کے بعد جسم اور ذہن دونوں آسودگی مانگتے ہیں لیکن میں نے اکثر نوٹ کیا ہے کہ کتنا بھی تھکا ہوتا ہوں پھر بھی نیند کی دیوی کی آغوش میں گرنے سے پہلے کئی دوسری دیویوں اور دیوتاؤں کی یاد آتی ہے اور بسا اوقات تو آئے چلی جاتی ہے۔
ایسی ہی ایک شب کا ذکر ہے کہ دماغ میں ایک عجیب سی فلم چلنے لگی۔ ایک سوال بار بار خیال کے دروازے پر دستک دینے لگا۔ اور سوال یہ تھا کہ آیا عشقِ حقیقی، واقعی عشقِ حقیقی ہوتا ہے اور عشق مجازی کیا انسانی گناہ کا دوسرا نام ہے؟


سب سے پہلے عشقِ حقیقی کی کئی پرتیں نہاں خانہ ء دماغ میں نکلتی گئیں …… مثلاً کیا عشقِ حقیقی، عشقِ خداوندی کا دوسرا نام ہے۔ اگر ایسا ہے تو اس کے بھی کئی ذیلی مدارج ہیں۔سب سے پہلے انبیاء کا گردہ آتا ہے۔ تاہم یہ گروہ انسانوں کا ایک مخصوص اور محدود گروہ ہے۔ یہ اللہ کے خاص بندے ہوتے ہیں جو رسول اور پیغمبر کہلاتے ہیں۔ یہ گناہ سے پاک ہوتے ہیں اور معصوم ہوتے ہیں۔ البتہ کبھی کبھار ان سے بھی نادانستہ طور پر کوئی غلطی سرزد ہو جاتی ہے لیکن وہ غلطی (Mistake) گناہ (Sin) شمار نہیں ہوتی۔ مثلاً ہمارے جدِ امجد حضرت آدم سے ایک غلطی سرزد ہوئی۔ انہوں نے اپنے خالق کی حکم عدولی کی اور دانہ ء گندم کھا لیا اور انہیں بہشت سے نکال دیا گیا اور زمین پر پھینک دیا گیا۔ حضرتِ نوح نے اپنے بیٹے کو بچانے کے لئے خدا سے اجازت مانگی جو نہ ملی لیکن غلطی تو ہو گئی۔ حضرتِ یونس سے بھی غلطی ہوئی اور وہ شکمِ ماہی میں ڈال دیئے گئے، حضرتِ سلیمان سے بھی اسی طرح کی کوئی لغرش ہوئی اور وہ بھٹیاری کا چولھا جھونکتے رہے۔


الغرض تمام انبیائے کرام سے کوئی نہ کوئی غلطی ضرور سرزد ہوئی مگر حضرت محمدﷺ وہ آخری نبی تھے جن سے نہ کوئی گناہ سرزد ہوا اور نہ انہوں نے کسی غلطی کا ارتکاب کیا۔ اسی باعث آپؐ کو نبیوں کا سردار کہا گیا۔ وہ ایک حساب سے عبد ضرور تھے لیکن عبدہ بھی تھے۔ اقبال نے عبد اور عبدہ کا فرق اس شعر میں واضح کیا ہے:


عبد دیگر، عبدہو چیزے دگر
ایں سراپا انتظار، او منتظر


]عبد ایک چیز ہے اور عبدہو بالکل ایک دوسری اور جداگانہ چیز ہے، عبد سراپا انتظار ہے اور عبد ہوسراپا منتظر ہے (یہ واقعہ ء معراج کی طرف اشارہ ہے)[
صوفیا کے ہاں عشقِ حقیقی کی دو بڑی بڑی منازل ہیں۔ پہلی منزل ”فنافی الشیخ“ ہے۔ یعنی اپنے مرشد کی مکمل پیروی کرنا اور اس کی ہدایات اور فرمودات پر بلا توقف عمل کرنا۔ خواجہ حافظ شیرازی نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر مرشد یہ کہے کہ ادائے نماز والے مصلّے کو شراب میں بھگو کر رنگین کر دو تو ایسا ہی کرو۔ لیکن دوسرے مصرع میں یہ کہا ہے کہ پیرِ مغاں اور سالکِ راہِ سلوک، منازلِ عشق سے غافل نہیں ہوتا۔ وہ اپنے مرید کو شراب سے سجادہ رنگین کرنے کا حکم نہیں دے گا۔ یہ تو محض ایک حجت ہے کہ اگر کوئی مرشد بظاہر خلافِ شرع بھی کوئی حکم دے تو اس کی بجا آوری میں تاخیر نہ کرو:


بہ مے سجادہ رنگیں کن گرت پیرِ مغاں گوید
کہ سالک بے خبر نہ بود ز راہ و رسمِ منزل ہا


عشقِ حقیقی کی دوسری اور آخری منزل ”فنافی الرسول“ ہے۔ اقبال نے کیا خوب فرمایا ہے:
بہ مصطفیؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی تمام بولہبی ست
کون نہیں جانتا کہ مرزا غالب شراب سے بھی شغل فرمایا کرتے تھے۔ لیکن ان کی کلیاتِ فارسی میں نعت کا یہ ایک شعر ان کو شائد جنت میں لے جائے:
غالب ثنائے خواجہؐ بہ یزداں گزاشیتم
کاں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمدؐ است
لیکن عشقِ حقیقی کی جو تصریح حضرت وارث شاہ نے کی ہے وہ از بس قابلِ توجہ ہے۔ فرماتے ہیں:
اول حمد خدائے دا ورد کیجئے
عشق کیتا سو جگ دا مول میاں
پہلے آپ ہی رب نے عشق کیتا
معشوق ہے نبی رسولؐ میاں
دوسرے لفظوں میں خدا اور محمدﷺ ایک دوسرے کے عاشق و معشوق ٹھہرے!


لیکن کیا کوئی ایک انسان (مرد یا عورت) دوسرے انسان سے عشقِ حقیقی کر سکتا ہے؟…… یہ سوال بڑا گستاخانہ ہے اور اس کا جواب دینا بھی اسی لحاظ سے مشکل ترین ہے۔ جب سے دنیا عدم سے وجود میں آئی ہے،اس پراسس کے تسلسل کو مادی اور روحانی دونوں صورتوں میں ڈھالنے کے لئے مرد اور عورت کا وجود لازم و ملزوم ہے۔ چنانچہ سب سے پہلا سوال یہ ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ کیا باوا آدم اور اماں حوا آپس میں عاشق و معشوق بھی تھے؟…… اس کا جواب نفی میں ہو گا کہ اگر اثبات میں ہوتا تو پھر تو ہر مرد اور ہر عورت ایک دوسرے کے (میاں بیوی ہونے کے علاوہ) عاشق و معشوق بھی ہوتے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ تاریخِ عالم پر نظر ڈالیں تو ہر عہد میں ہر براعظم میں ایک یا ایک سے زیادہ جوڑیاں (Couples) ایسی بھی ہوئی ہیں جن کا عشق، زبان زدِ خاص و عام تھا۔

میں باقی براعظموں کی بات نہیں کرتا کہ وہ براعظم ایشیا کے بعد دریافت ہوئے۔ میں صرف ایشیاء کے چند عشاق کی مثالیں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں کہ ان میں کسی جوڑی (مرد اور عورت) نے ایک دوسرے سے محبت کی اور اتنی ٹوٹ کر کی کہ دونوں امر ہو گئے۔ شمالی امریکہ، جنوبی امریکہ اور افریقہ میں بھی شائد اس طرح کے جوڑے ماضی ء قدیم میں ہوں گے جنہوں نے ایک دوسرے سے محبت کی اور غیر معمولی تکالیف اور آزمائشوں سے گزرنے کے بعد بھی ایک دوسرے کا دم بھرنے سے باز نہ آئے۔ لیکن مغرب کا کلچر ایک جداگانہ کلچر ہے۔ اس میں ایک عورت اور ایک مرد کے عشق کی بات خال خال ملتی ہے اور یہ روائت وہاں آج بھی بکثرت دیکھنے کو ملتی ہے…… تو نہ سہی اور سہی، اور نہیں اور سہی والا مقولہ مغرب میں پہلے بھی رائج تھا اور آج بھی ہے۔ لہٰذا ان کے عشق کو عشقِ حقیقی کا نام دینا درست نہیں ہوگا۔


اور جہاں تک ایشیا کا تعلق ہے تو دنیا کے سارے مذاہب کے بانی اور پیغمبرانِ عظّام اسی ایشیاء کی خاک سے اٹھے اور یہیں مدفون ہو گئے (حضرت یوسف نے اگرچہ مصر میں اپنی جوانی گزاری لیکن ان کی پیدائش بھی ایشیا میں ہوئی تھی) گوتم بدھ اور راجہ رام چندر جی (سری کرشن) اور بابا گورونانک صاحب بھی ایشیا کی خاک سے اٹھے اور جہاں تک عیسائی دنیا کا تعلق ہے یا قومِ یہود کا سوال ہے تو ان کے پیغمبر (حضرت عیسیٰ ؑاور حضرت موسیٰ ؑ) بھی ایشیا ہی کے رہنے والے تھے۔ حضرت آدم سے لے کر حضرت محمدؐ تک تمام انبیائے علیہم السلام، ایشیا (اور بالخصوص مشرق وسطیٰ) میں پیدا ہوئے اور یہیں وفات پائی۔ لہٰذا ان سارے رسولوں کا عشقِ حقیقی جو خداوند تعالیٰ کی ذات سے تھا اس کا منبع سرزمینِ ایشیا تھی۔(جاری ہے)

مزید :

رائے -کالم -