ضیاء الحق سر حدی
دین اسلام کے فروغ کیلئے اولیاء کرام نے گراں قدر خدمات سرانجام دیں انہوں نے خدا کے دین کی خاطر بہت قربانیاں دیں خاص کر خطہ ہندوستان میں دین اسلام تو صوفیا کرام اور اولیاء کرام کے دم قدم سے پھیلاان بزرگانِ دین نے بے آباد ویرانوں کو پر رونق شہروں میں تبدیل کیا،ہماری نئی نسل ان اولیاء کرام کے متعلق جان سکے کہ اولیاء کرام کا کیا مقام ہے۔ ان چمکتے دمکتے ستاروں میں ایک ستارہ 14 رجب المرجب 536 ھ بمطابق 17 مارچ 1139 عیسویں کو ایران کے شہر اصفہان کے علاقے سیستان قصبہ سنجر میں غیاث الدین کے گھرمیں چمکا اور پھر برصغیر پاک و ہند میں بلند مرتبہ پایا اور آج صدیاں گزرنے کے بعد اس بزرگ ہستی کے پاک و ہند میں اسلامی تہذیب اور ثقافت کے اجلے نقوش نمایاں ہیں اس ستارے کا نام خواجہ خواجگان خواجہ معین الدین حسن چشتی سنجری اجمیری ؒ ہے۔آپ نجیب الطرفین سید تھے،آپ کو گھر میں پیار سے,,حسن،،کہہ کر پکارا کرتے تھے آپ کا شجرہ نسب تیرہویں پشت میں حضرت علیؓ سے جا ملتا ہے ہندوستان میں آپ سلسلہ چشتیہ کے بانی تھے ہندوستان کی روحانی فتح اور بر صغیر میں اصلاح و تربیت،رشدوہدایت اور اسلام کا پرچم لہرانے کیلئے کاتب تقدیر نے سلسلہ چشتیہ کا انتخاب فرمایا،جس میں بر صغیر میں سلسلہ چشتیہ کے بانی،مشہور صوفی بزرگ سلطان الہند،حضرت خواجہ غریب نواز معین الدین چشتیؒ کی خدمات اور ان کا تاریخ ساز کردار اسلامی تاریخ کا روشن اور ناقابل فراموش باب ہے اس عظیم المرتبت ہستی کا تذکرہ اس مختصر مضمون میں تحریر کر نا فقیر خاکپائے مرشد کے بس کی بات نہیں۔
مہر ولی شریف ہو، ناگو ر شریف ہو، تونسہ شریف ہو، کلیئر شریف ہو، سیال شریف، گولڑہ شریف، پاک پتن شریف یا تمبر پورہ شریف پشاور سب آپ ہی کا احسان اور فیضان ہے۔یہ بوریاں نشین دُنیا کی ہر نعمت کو ٹھکرا دیتے ہیں یہ ایسے فقیر ہوتے ہیں جن کی خانقا ہوں میں بادشاہ وقت برہنہ پا حاضر ہوتے ہیں، غریب نوازؒ سادات کے معزز گھرانے میں پیدا ہوئے آپ ؒ کے والد گرامی کا نام سید غیاث الدین سنجری جبکہ والدہ ماجدہ کا نام بی بی ماہ نور تھا۔حضرت خواجہ غریب نوازؒ کا بچپن اسرار و معرفت کے واقعات سے بھرا پڑا ہے صاحب نظر افراد نے بچپن میں ہی محسوس کرلیاتھاکہ آپؒ مستقبل میں دُنیائے انسانیت کے رہنما اور پیشوا ہونگے۔ آپؒ نے ابتدائی تعلیم روایتی انداز میں گھر پر ہی حاصل کی، پھر علاقائی مدرسے میں نو سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کرلیا تھا اور گیارہ سال کی عمر میں آپ ؒ کو تفسیر، حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کرنے کے غرض سے نیشا پور بھیج دیا گیا۔ آپؒ نے پانچ سال کا عرصہ وہاں گزارا، ابھی تعلیم مکمل نہ ہوئی تھی کہ 549ھ میں قتل وغارت کا بازار گرم ہوگیا۔ آپؒ صبر ورضا کا مجسمہ تھے گیارہ سال کی عمر میں والد گرامی کا سایہ سر سے اُٹھ گیا یہ واقعہ شعبان 548ھ کا ہے۔ ابھی جدائی کا صدمہ تازہ ہی تھا کہ والدہ محترمہ داغ جدائی دے گئیں۔
آپ کے کمالات بحر لامتناہی ہیں حتیٰ کہ کہتے ہیں کہ جس پر آپ کی نظر پڑتی تھی وہ صاحب معرفت ہو جاتا تھاآپ کو علوم ظاہریہ و باطنیہ دونوں میں کمال حاصل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے لوگوں کے دلوں کو مسخر کیا اور لاکھوں غیر مسلم آپ کے حسن اخلاق سے متاثر ہو کر تقریباً نوے90 لاکھ افراد ہندوستان بھر میں مشرف بہ اسلام ہوئے آپ کے ارشادات و ملفوظات کا مجموعہ خواجگان چشت کے ذریعہ خواص تک پہنچا جو یقینا مشعلِ راہِ حیات ہے۔جب آپ ہندوستان تشریف لائے تو یہاں پر مسلمانوں کی حالت ابتر تھی محمود غزنوی وفات پاچکے تھے اور پرتھوی راج کی حکمرانی تھی۔ہندوستان میں بولی جانے والی زبانوں پر عبور حاصل کیا۔حضرت معین الدین چشتیؒ شان بے نیازی لئے اجمیر میں داخل ہوئے ہندوستان کے طاقتور راجہ پرتھوی راج کے خلاف حق و باطل کا معرکہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے اللہ کی مدد سے جیت لیا تھایہ وہ معرکہ تھا جس میں نہ خون بہایا گیا،نہ سپاہ لڑی گئی،نہ ہتھیار اٹھے،نہ گھوڑے دوڑے اور نہ جنگی ہاتھی چنگھاڑے۔ کسی خادم نے حضرت خواجہ غریب نواز ؒ سے صورتحال عرض کی۔ خواجہ غریب نواز ؒ نے فرمایا" ان کا سحر کار گرنہ ہوگا۔ یہ دیوراہِ راست پر آجائے گا" یہ فرما کر حضرت خواجہ غریب نوازؒ نماز میں مشغول ہوگئے۔ تھوڑی سی دیر میں رام دیو اور اس کے ساتھی خواجہ صاحب ؒ کے بالکل قریب آگئے۔ خواجہ صاحب سلام پھیر چکے تھے۔ خواجہ صاحب ؒ نے نماز سے فارغ ہوکر جونہی اس مجمع پر نظر ڈالی وہ اپنی جگہ پر رُک گیا اور ان کی زبانوں پر تالے پڑ گئے، قوت ِ رفتار وگفتار سلب ہوگئی۔ رام دیو حضرت خواجہ غریب نوازؒکو دیکھ کر بید کی طرح تھرتھر کانپنے لگا وہ اپنی زبان سے رام رام کہنا چاہتا تھا۔ مگر اس کی زبان سے رحیم رحیم نکلتا تھا۔ یہ حال دیکھ کر پجاریوں نے رام دیو کو نصیحت کرنی شروع کی مگر اس کی یہ حالت ہوگئی کہ لکڑی، ڈنڈا، پتھر جو ہاتھ لگا وہ لے کر پجاریوں پر پڑ گیا۔ بیسوں پچاسوں پجاریوں کے سرپھاڑ دیئے، ہاتھ پیر توڑ دیئے، پجاری بھاگ گئے۔ حضرت خواجہ غریب نواز ؒ نے اپنے ایک خادم کے ہاتھ ایک پیالہ پانی سے بھر کر رام دیو کے پاس بھیجا، رام دیو بہ شوق تمام پانی پی گیا۔ پانی پینا تھا کہ اس کے دل سے کفر کی ظلمت محو ہوگئی۔ حضرت خواجہ غریب نوازؒ کے قدموں میں گر پڑا، توبہ کی اور مسلمان ہوگیا۔
رام دیو کے مسلمان ہوجانے سے حضرت خواجہ غریب نوازؒ بہت خوش ہوئے اور ان کا نام شادی دیو رکھا۔ پرتھوی راج نے حضرت خواجہ غریب نوازؒ کو اجمیر شریف سے نکلوانے کیلئے ہندوستان کے سب سے بڑے جادوگر جے پال جوگی کا سہار ا لیا کہ وہ اپنے جادو سے حضرت خواجہ غریب نوازؒ کو مات دے کر انہیں اجمیر شریف سے باہر نکال دے۔ جے پال اپنے چیلوں کے ہمراہ حضرت خواجہ غریب نوازؒ کے ساتھ مقابلہ کرنے آیا اور اپنے چیلوں کو حکم دیا کہ اپنا کا م شروع کرو، اپنے ہنر دکھاؤ۔ حضرت خواجہ غریب نوازؒ نے اپنے ہمراہیوں کے گرد عصائے مبارک سے حصار کھینچ کر فرما یا کہ اس حصار سے باہر نہ جانا۔ اتنے میں پہاڑ کی جانب سے ہزاروں سانپ حصار کی طرف دوڑنے لگے۔ حصار پہنچ کر بے بس ہوگئے۔ حضرت خواجہ غریب نوازؒ نے حکم دیا" ترجمہ: ان سانپوں کو بے خوف وخطر پکڑ کر پہاڑوں کی طرف پھینک دو " حضرت کے مریدوں نے تعمیل حکم کی۔جس جگہ یہ سانپ جا گرے اسی جگہ زمین سے ایک درخت برآمد ہوگیا۔ یہ نظارہ دیکھ کر جے پال دل ہی میں سخت نادم اور شرمندہ تھا کہ آج میری ساری عزت خاک میں مل گئی۔ آج کے بعد میری عزت کون کریگا۔ میں راجہ کو کیا جواب دوں گا اور راجہ کے سامنے کیا منہ لے کر جاؤں گا۔ اس کے بعد جے پال کے چیلوں نے یہ حربہ استعمال کیا کہ آسمان سے آگ برسانی شروع کردی، اس قدر آگ کہ تو دے اور انبار لگ گئے۔ مگر ایک چنگاری بھی حصار کے اندر داخل نہ ہوسکی اور ان کا یہ حربہ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ حضر ت خواجہ غریب نواز ؒ کو مخاطب کر کے کہا کہ اب میرا اور تمہارا مقابلہ باقی رہ گیا ہے بہتر یہ ہے کہ تم فوراً اجمیر چھوڑ دو ورنہ مین آسمان پر جا کر تمہارے سروں پر اس قدر بلائیں برساؤں گا کہ سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ یہ سن کر حضرت خواجہؒ نے متعجبانہ انداز میں فرمایا۔
تو کا رزمین رانکو ساختی
کہ با آسماں نیز پر داختی
یہ سن کر جے پال جوگی دل ہی دل میں شرمندہ ضرو ر ہوا۔ مگر اسے راجہ کی ناراضگی کا بھی ڈر تھا۔ فوراً ہی ہرن کی کھال ہوا میں پھینک کر اس پر بیٹھ کر آسمان کر طرف پرواز کرنے لگا اور نظروں سے غائب ہوگیا لوگ حیران تھے کہ دیکھو اب کیا ہوتاہے۔ حضرت خواجہ غریب نوازؒ نے اپنی کھڑاؤں کو حکم دیا کہ جا اس کا فرمر دو د کو مارتے مارتے زمین پر اُتارلا۔ حضرت خواجہ غریب نوازؒ کے حکم کی دیر تھی۔ کھڑاؤں ہوا میں اُرنے لگی، لوگوں کی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھی ہوئی تھیں۔ چند سیکنڈ میں جے پال جوگی زمین پر اترتا نظر آیا۔ جے پال کے منہ پر اس قد ر زور سے کھڑاؤں کھٹاکھٹ بج رہی تھی کہ پٹتے پٹتے جے پال کا منہ چقندر سا ہوگیا۔جے پال جوگی زمین پر اتر آیا اور فوراً خواجہ غریب نواز ؒ کے قدموں میں گر کر معافی مانگنے لگا۔ حضرت خواجہ غریب نواز ؒ نے اسے ایک پیالہ پانی پینے کا دیا پانی پیتے ہی اس کے دل سے کفر کی سیاہی دور ہوگئی۔ صدق دل سے کلمہ طیب پڑھ کر مسلمان ہوگیا۔
حضرت معین الدین چشتی ؒ نے انسانیت، محبت، سخاوت، شفقت، دوستی اور باہمی یک جہتی کا درس دیا آپ ؒ نے ارشاد فرمایا" او ل راہِ شریعت ہے، دوم راہِ طریقت اور سوم راہِ معرفت " آپؒ سخت مجاہدے کے لئے مسلسل روزے رکھتے اور آٹھویں دن روزہ افطار کرتے بدن پر صرف ایک کپڑا ہوتا پھٹ جاتا تو پیوند لگالیتے۔ اس واحد کپڑے میں آپؒ کی وفات تک اتنے پیوند لگ چکے تھے کہ اس کا وزن ساڑے بارہ سیر تھا۔ سال تک نماز عشاء کے وضو سے نماز فجر ادا کی دو کتابیں انیس الارواح، گنج الاسرار، رسالہ آداب دم زدن، رسالہ در تصوف (منظوم)، رسالہ وجود یہ، مکتوبات، وصول المعراج، آثارِ منسوب شامل ہیں۔ حضرت خواجہ غریب نواز ؒ ایک خوش گو شاعر بھی تھے آپ ؒ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی پیروی میں شاعری کو اپنے جذبات قلبی واردات ِ محبت اور مشاہدات حقیقت کا ذریعہ بنایا آپؒ کا دیوان”دیوان ِمعین“ فارسی میں ہے اور شائع ہو چکا ہے۔
آپ بیس سال تک مرشد کی خدمت میں رہے اور اس عرصہ میں دس سال تک مرشد کے ساتھ سیاحت کی آپ نے بغداد، ہمدان، تبریز، اصفہان، خرقان استر آباد، سبزہ وار، بلخ اور 588 ھ میں لاہور تشریف لائے اور یہاں پر حضرت علی ہجویری المعروف حضرت داتا گنج بخش ؒ کے مزار پر مراقبہ کیا اور چلہ کاٹا اور مزار سے جاتے ہوئے یہ شعر پڑھا۔
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں را پیر کامل کاملاں رار ہنماء
589 ھ کو براستہ ملتان دہلی اجمیر شریف میں نزول اجلال فرمایا یہاں مقیم ہو کر آپ نے اپنے تجدیدی عمل سے ”لا الہ الا اللہ محمدرسو ل اللہ“ کا وہ سدا بہار گلشن مہکایا جس کی خوشبو سارے پاک و ہند میں آج بھی پھیلی ہوئی ہے اور انشا ء اللہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے قائم رہے گی جب حضرت غریب نواز ؒ کی جانشینی اور اللہ تعالی کے وعدوں کا وقت قریب آیا تو ہندوستان میں نعرہ حق بلند ہوا اور مرشد کامل حضرت خواجہ عثمان ہارونی ؒ نے اپنے مرید خاص کے ہمراہ حج پر جانے کا فیصلہ کیا حرمین شریفین میں ایک مسجد میں مرشد و مرید نے اعتکاف کیا اور پھر مکہ مکرمہ میں زیارت خانہ کعبہ کی اور خواجہ غریب نواز کا ہاتھ پکڑ کر حق تعالی کے سپر د کیا اور بارگاہ الہی میں دعا فرمائی ”مولائے کریم میرے معین الدین حسن کو اپنی بارگاہ میں قبول فرما“۔
حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ سے حضرت معین الدین چشتی کی جود و سخا کے بارے میں نقل ہے کہ میں بیس سال حضرت کی خدمت میں رہا ہوں کبھی کسی کو حضرت نے انکار نہیں فرمایا جب کوئی شخص کچھ مانگنے آتا حضرت مصلے کے نیچے ہاتھ ڈال کر جو اس کی قسمت کا ہوتا وہ اس کو دے دیتے آپؒ کا یہ بھی بیان ہے کہ میں نے اس عرصہ میں حضرت کو غصہ ہوتے نہیں دیکھا۔ خواجہ غریب نواز نام کے ہی غریب نواز نہیں تھے بلکہ حقیقتاً آپ کے دل میں دوسروں کی ہمدردی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ آخر خواجہ صاحب کے دُنیا سے جانے کا وقت بھی آگیا 6 رجب 627ھ بمطابق 16مارچ 1235 عیسویں بروز پیر عشاء کی نماز کے بعد خواجہ صاحب نے اپنے حجرے کا دروازہ اندر سے بند کر لیا کسی کو بھی حجرہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی، حجرے کے باہر خدام موجودتھے۔رات بھر ان کے کانو ں میں صدائے وجد آتی رہی، رات کے آخری حصے میں وہ آواز بند ہوگئی صبح کی نماز کا وقت ہوا، لیکن حجرے کا دروازہ نہیں کھلا تو خدام کو حیرت ہوئی آخر کار کافی سوچ بچار کے بعد دروازہ توڑاگیا تو دیکھا کہ غریب نواز وصال فرما چکے ہیں بوقت وصال آپ کی پیشانی مبارک پر بخط نور تحریر تھا ”ھذا حبیب اللہ مات فی حب اللہ“ (یہ اللہ کا حبیب ہے اور اللہ کی محبت میں جاں بحق ہوا) آپ کا مزار شریف دہلی سے 444 کلو میٹر اجمیر شریف میں عقیدت مندوں کے لئے مرجع خلائق ہے۔بوقت وصال آپ کی عمر 97 برس تھی نماز جنازہ آپ کے بڑے صاحب زادے خواجہ فخر الدین نے پڑھائی، اور جس حجرے میں آپ نے وصال فرمایا تھا اسی میں آپ کو دفن کیا گیا آج بھی اجمیر شریف میں آپ کا مزار شریف زیارت گاہ خاص و عام ہے اس اللہ والے کو دنیا سے رخصت ہوئے کئی صدیاں گزر گئی ہیں مگر اس کا رعب آج بھی مخلوق خدا پر قائم ہے۔