اوپن بیلٹ سے ہارس ٹریڈنگ ختم ہو گی یا نہیں، کچھ نہیں کہہ سکتے، افسوس پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ میثاق جمہوریت سے پھر گئیں: چیف جسٹس
اسلا م آ باد (سٹاف رپورٹر، مانیٹرنگ ڈیسک، نیوز ایجنسیاں) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ افسوس ہے پاکستان پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ (ن) میثاق جمہوریت معاہدے سے پھر گئیں۔انہوں نے کہا کہ معاہدہ کے مطابق انہیں ووٹ کے خفیہ طریقہ کار کو ختم کرنا تھا لیکن اب سیاسی جماعتیں اس پر عمل نہیں کررہیں۔سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے کے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت ہوئی۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید کے دلائل سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ارکان اسمبلی پارٹی کے نظم و ضبط کے پابند ہیں، خلاف ورزی پرکارروائی ہوسکتی ہے۔چیف جسٹس کے استفسار پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ نااہلی کی سزا ووٹوں کی خرید و فروخت پر ہو سکتی ہے، پارٹی پالیسی کیخلاف ووٹ دینے پرنہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ اوپن بیلٹ سے ہارس ٹریڈنگ ختم ہونے کا کوئی ثبوت نہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اوپن بیلٹ سے ہارس ٹریڈنگ ختم ہوگی یا نہیں کچھ نہیں کہہ سکتے۔اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے الیکشن کمیشن کے ترمیم کے مؤقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 226 میں ترمیم کیے بغیر وفاقی حکومت کی خواہش پوری نہیں ہوسکتی۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کا اطلاق سینیٹ انتخابات پر نہیں ہوتا، آرٹیکل 59 میں خفیہ ووٹنگ کا کوئی ذکر نہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ عدالت خود کو سیاست سے بالاتر رکھے،الیکشن کمیشن کو اپنی ذمہ داری پوری کرنے دیں، سپریم کورٹ کا دائرہ ایڈوائزری ہے، عدالت صرف اٹھائے گئے سوالات کے جواب دے سکتی ہے چیف جسٹس نے کہا ہے کہ آرٹیکل 63 اے کا اطلاق سینیٹ انتخابات پر نہیں ہوتا، آئین کا آرٹیکل 59 سینیٹ کے حوالے سے ہے جس میں خفیہ ووٹنگ کا کوئی ذکر نہیں،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آرٹیکل 59 اور 226 کو ملا کر پڑھنا ہوگا، خفیہ رائے شماری میں متناسب نمائندگی نہ ہوئی تو آئین کی خلاف ورزی ہوگی،جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس بیلٹ پیپرز سے اچھا ثبوت کوئی نہیں ہو سکتا، سب سے پکا ثبوت ہی کمیشن کے پاس نہ ہو تو کیا کارروائی ہوگی۔۔ چیف جسٹس نے سیکرٹری الیکشن کمیشن سے پوچھا کہ کیا انتخابات 2021 کے لیے کوئی ہدایت نامہ تیار ہوا؟۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ حالیہ سینیٹ انتخابات کے لیے ہدایت نامہ ابھی جاری کرنا ہے۔ ایڈوکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے دلائل میں کہا کہ ہدایت نامہ میں متناسب نمائندگی اور خفیہ ووٹنگ کا ذکر ہے، آرٹیکل 226 کے تحت وزیراعظم، وزرائے اعلی کے علاوہ ہر الیکشن خفیہ رائے شماری سے ہو گا، ووٹ ڈالنے کا عمل خفیہ نہیں ہونا چاہیے، موجودہ حالات میں شخصیات کو نہیں اداروں کو مضبوط کرنا ہوگا، اراکین اسمبلی کو سیاسی جماعتیں لیکر آتی ہیں جہنیں مزید مضبوط کرنا ہو گا، بلواسطہ انتخابات میں اراکین پارٹی ڈسپلن کے پابند ہوتے ہیں، ماضی میں بھی غیر قانونی طریقے سے مینڈیٹ چوری ہو۔۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارٹی کے خلاف ووٹ دینے پر کوئی سزا نہیں، جس پارٹی کے خلاف ووٹ دینا ہے کھل کر دے، سزا صرف ووٹوں کی خریدوفروخت پر ہو سکتی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آرٹیکل 59 اور 226 کو ملا کر پڑھنا ہوگا، خفیہ رائے شماری میں متناسب نمائندگی نہ ہوئی تو آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ریفرنس میں اٹھایا گیا سوال ہی غیر مناسب ہے، ہارس ٹریڈنگ کا سب نے سنا ہے کسی کے پاس شواہد نہیں، اخباری خبروں اور ویڈیوز تک ہی ہارس ٹریڈنگ ہوتی ہے، عدالت کو سیاسی سوالات سے دور رہنا چاہیے۔ چیف جسٹس نے انہیں ٹوکا کہ آئین بذات خود بھی ایک سیاسی دستاویز ہے، آئینی تشریح کرتے وقت عدالت سیاسی کام ہی کر رہی ہوتی ہے، کیا الیکشن رزلٹ کے بعد ووٹ کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ گنتی کے وقت ووٹ کو دیکھا جاتا ہے، تاہم ووٹ ڈالنے والے کا علم نہیں ہوتا، آئین ووٹ ڈالنے والی کی شناحت ظاہر کرنے کی اجازت نہیں دیتا، کیا اوپن بیلٹ سے ہارس ٹریڈنگ ختم ہو جائے گی؟۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اوپن بیلٹ سے ہارس ٹریڈنگ ختم ہو گی یا نہیں کچھ نہیں کہہ سکتے، پیسہ چلنے کے شواہد سامنے آئیں تو الیکشن کمیشن کارروائی کرے گا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ پارٹی لائن کے خلاف ووٹ سامنے آنے پر الیکشن کمیشن تحقیقات کر سکے گا، پیسہ کا لین دین نہ ہوا تو بات ہی ختم ہو جائے گی، انتخابی عمل میں کرپشن پر استثنی نہیں مل سکتا۔ جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس بیلٹ پیپرز سے اچھا ثبوت کوئی نہیں ہو سکتا، سب سے پکا ثبوت ہی کمیشن کے پاس نہ ہو تو کیا کارروائی ہوگی۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ کیا ووٹر کی شناخت ظاہر ہونا کرپشن کا ثبوت ہے؟، عدالت کو پارٹی ڈسپلن کو تحفظ دینے کا کہا جارہا ہے، رشوت اور ووٹوں کی خریدوفروخت الیکشن ایکٹ کے تحت جرم ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ تو کہہ رہے ہیں ہارس ٹریڈنگ ہوتی ہی نہیں، حالانکہ پارلیمان میں قراردادیں منظور ہوتی رہیں کہ ہارس ٹریڈنگ ختم ہونی چاہیے، اٹارنی جنرل نے قراردادیں بھی عدالت کو دے دی ہیں، ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے میثاق جہموریت میں ہارس ٹریڈنگ کو تسلیم کیا ہے، آپ کو بطور نمائندہ سندھ حکومت سن رہے ہیں پیپلز پارٹی کے وکیل کے طور پر نہیں۔ جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ بادی النظر میں کوئی ثبوت ہو تو ووٹوں کا جائزہ لینے کا اختیار ہونا چاہیے، ووٹ کا جائزہ لیے بغیر جرم کیسے ثابت ہو گا؟۔ سلمان طالب الدین نے کہا کہ صرف ووٹ دیکھنے سے بھی تو جرم ثابت نہیں ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ صرف رقم کی ادائیگی مسئلہ نہیں وہ کسی بھی مد میں ہوسکتی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ووٹ کو خفیہ رکھ کر جرم کی حوصلہ افزائی کرنے والی بات ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے اٹارنی جنرل کے دلائل اپناتے ہوئے کہا کہ قرآن پاک میں بھی کرپشن سے منع کیا گیا ہے، دنیا نے انتخابی عمل سے کرپشن روکنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نیاز اللہ نیازی نے بھی اٹارنی جنرل والے دلائل اپناتے ہوئے کہا کہ سینیٹ الیکشن میں کرپشن کی ویڈیو سامنے آچکی ہے، ووٹ کو خفیہ رکھنے کا عمل پولنگ اسٹیشن تک محدود ہے، الیکشن کمیشن اج تک شفاف انتحابات نہیں کروا سکا۔ سپریم کورٹ نے سماعت (آج) جمعہ کوساڑھے دس بجے تک ملتوی کردی۔
سپریم کورٹ