”ذہنی تناؤ اور عہدے“

 ”ذہنی تناؤ اور عہدے“
 ”ذہنی تناؤ اور عہدے“

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


کچھ رشتے خون سے جُڑے ہوئے نہیں ہوتے،تاہم ان سے تعلق کی مضبوطی خون کے رشتوں سے بڑھ کر اخلاص،وفا اور عزّت پر مبنی ہوتی ہے۔ایسے ہی میرے ایک دوست جو اسلام آباد میں مقیم ہیں، میرے ساتھ گہرے بھائی چارے میں جُڑے ہیں۔تیس سالوں پر محیط تعلق میں جہاں انہیں میں نے ہمیشہ انتہائی مخلص پایا،وہاں ایک نیک خُو،ایماندار اور محنتی انسان کے طور پربھی دیکھا۔ لاہور میں ایک وفاقی دفتر میں کلرک کی حیثیت سے ملازمت کا آغاز کیا۔مگر ”مطلوبہ سہولت میّسر ہونے کے باعث“ آگے بڑھنے کی اُمنگ نے بیٹھنے نہ دیا۔شبانہ روزجُہدِ مسلسل کے بل بوتے پر فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے تحت سخت مقابلہ جاتی امتحانات کے ذریعے پہلے محکمہ تعلیم میں وائس پرنسپل اور پھر ایک دوسرے محکمہ میں ڈائریکٹر منتخب ہوئے۔آج گریڈ 20میں قومی سطح کے اہم عہدہ پر تعینات ہیں۔ترقّی کی منازل تک پہنچنے کے دوران جس ثابت قدمی کا مظاہرہ انہوں نے کیا وہ بہت کم لوگوں کے حِصّہ میں آتا ہے۔ مگر عہدوں کے عروج نے اُن کے اندر بسے خوبصورت اور باوَصف انسان کی شخصیت میں ذرا بھی جھول نہیں آنے دیا۔وہی مروّت، وہی دیانتداری اور وہی تعلق کی گیرائی آج بھی تازہ ہے۔کچھ عرصہ قبل ملاقات ہوئی تو ان کے چہرے کے ساتھ ساتھ باتوں سے بھی اداسی جھلکتی محسوس ہوئی۔والدین کی وفات کے بعد، چھوٹا بھائی، جو ڈاکٹر ہے، حصولِ روزگار اور ذاتی قیام و عروج کے لئے انگلینڈ منتقل ہو گیا۔بیٹے،بیٹیاں سب طالب علم ہیں،جو صُحبت یا وقت والد کو درکار ہے وہ اُنہیں میّسر نہیں کر پاتے۔تشویش اور ذہنی تناؤ کی دوائیں مستقل کھاتے ہیں۔طبیعت میں حساسیّت کی زیادتی اور دیگر ذہنی الجھنوں کے باعث ذیابیطس نے پکڑ لیا ہے۔دفتر میں جو وقت گزر جائے اسے ہی اپنا اصل وقت سمجھتے ہیں۔


تشویش اورذہنی تناؤ ہم وطنوں کے جسموں سے نکل کر چہروں پر ایسے رینگتا دِکھائی دیتا ہے،جیسے دیمک لکڑی کی چوگاٹھ کو اندر سے کھا لینے کے بعد اس کی بیرونی سطح پر رینگتی دِکھائی دیتی ہے۔جہاں اس تشویش،ذہنی دباؤ اور مایوسی کی وجہ اپنوں کے ہاتھوں ”عطا کردہ“تنہائی ہے،وہاں اس کے اور بھی بہت سے اسباب ہیں،مثلاً زندگی کے کسی بھی حِصّہ میں جسمانی،جنسی یا جذباتی تشدد، نشہ آور دواؤں کا مسلسل استعمال،بڑھتی عمر میں تنہائی،لوگوں سے ٹکراؤ،پیاروں کی موت یا جدائی کا غم، ہارمون میں تبدیلی،خاندانی اور وراثتی پسِ منظر، ملازمت کے حصول یا شادی میں ناکامی،طلاق، ملازمت سے سبک دوشی یا ریٹائرمنٹ وغیرہ۔ ایسے حالات میں،جوانوں میں بالخصوص، نشہ آور اشیاء کے استعمال کارجحان پنپنے لگتاہے،جو بذاتِ خود ذہنی تناؤ میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔


 متذکرہ اسباب کے علاوہ کچھ احباب کو ان کا ذاتی طرزِ زندگی تشویش اور ذہنی تناؤ کا شکاررکھتا ہے۔وہ دوسروں پر اندھا دھند اعتماد کر لیتے ہیں یا اُن سے بہت بلند توقعات وابستہ کر لیتے ہیں اور رفتہ رفتہ یہ اعتماد اور توقعات طبیعت کا حِصّہ بنتے جاتے ہیں۔جیسے ہی اعتماد کو ٹھیس پہنچتی ہے یا اُمید بَر نہیں آتی تو نتیجہ ذہنی تناؤکی صورت میں نکلتا ہے۔ اسی طرح زندگی کے اندر نظم و ضبط سے گریز کو عادت بنا لینے والے افراد ذہنی تناؤ سے کبھی جان نہیں چھڑا سکتے۔کیونکہ نہ اُنہوں نے وقت پر سونا،نہ وقت پر اُٹھنا،نہ وقت پر کھانا پینا۔جس کام کے لئے بھی نکلنا ہوبھاگم بھاگ دوڑے جاتے دِکھائی دیتے ہیں اور زبان پر اکثریہ جُملہ ہوتا ہے”اوہ، ہم لیٹ ہوگئے،ہم لیٹ ہو گئے“یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ کوئی شخص اپنی عادات کوکسی ضابطے کا پابند نہ کرے اور پھر خوش بھی رہے۔


آج ایک طرف تو گلی محلوں میں کھلی یونیورسٹیوں نے نا اہل بچوں کے ہاتھوں میں بھاری بھرکم ڈگریاں پکڑا کر اُنہیں باور کرایا ہے کہ وہ تعلیم کی بہت بلند سطح پر پہنچ چکے ہیں۔جبکہ وہ ڈگری سے متعلقہ مضمون کی مبادیات سے بھی ناواقف ہوتے ہیں۔دوسری طرف کچھ لوگ ایسے ہیں جو لائق و فائق توہیں،مگر انہوں نے شوقِ مطالعہ کو”شوقِ بستر“ اور”شوقِ موبائل“ کی نظر کر رکھا ہے۔جب ایسے لوگ مقابلہ کے سمندر میں قدم رکھتے ہیں توتِنکے ثابت ہوتے ہیں،جنہیں پہلی ہی لہر اُچھال کر سپردِ ساحل کر دیتی ہے۔نتیجتاً، وہ سمندر کے پانی کو کوستے ہیں،اورپے در پے ناکامیوں کے باوجود خود کو غلط ماننے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ایسی صورت میں ذہنی تناؤاور مایوسی کا شکار ہونا فطری سی بات ہے۔


ایک خاص تعداد اُن حضرات کی ہے جو زندگی کے ہر شعبہ میں شارٹ کٹ کے ذریعے بلند و بالا مقاصد کے حصول کے خواب دیکھتے ہیں یاناقابلِ حصول مقاصد کا تعین کر لیتے ہیں،مثلاً بغیر تیاری کے بہت بڑے انتظامی عہدہ کے امتحان میں کامیابی کا خواب یاجسمانی صلاحیتوں سے محروم ہونے کے باوجود قومی کھلاڑی بننے کا خواب۔ ایسے خواب کبھی پورے نہیں ہوتے،بلکہ مایوسی اور ذہنی تناؤکا سبب بنتے ہیں۔گھروں،بازاروں،بس اڈّوں پرتکرار کرتے،گالیاں دیتے،جھگڑا کرتے افراد کا اگر تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہو گا،اُن میں سے اکثریت مایوسی اور ذہنی تناؤ کا شکار ہے۔


بلاشبہ زندگی مختصر ہے۔اس کو خوبصورت بناناتبھی ممکن ہے جب جُملہ تعلقات کی ساخت پر توجہ دی جائے اور اُمید کی سطح کوبے لگام نہ ہونے دیاجائے۔بھلے ایسی اُمید سگی اولاد،والدین یابہن بھائیوں سے ہی کیوں نہ رکھی گئی ہو۔مطالعے کو موبائل فون اور بسترِ استراحت پر ترجیح دے کر،نظم و ضبط کا سہارا لے کر، منزل کے مکمل راستہ سے جانکاری حاصل کرتے ہوئے،شارٹ کٹ سے چھٹکار حاصل کیا جائے۔گھر سے نکل کرکسی سرسبز میدان میں گلہریوں کو بھاگ بھاگ کر درختوں پر چڑھتے اترتے، یا پرندوں کوایک دوسرے سے اٹھکھیلیاں کرتے توجہ سے دیکھ لیا جائے۔وہ دوست جو ہنسنے ہنسانے کا ہنر رکھتے ہوں، ان کی چائے یا کھانے پر کبھی کبھاردعوت کر لی جائے۔اپنا طبعی اور نفسیاتی معائنہ وقتاً فوقتاً کرا لیا جائے تاکہ نشہ آور ادویات کی نوبت نہ آئے۔”السلام علیکم“،”معذرت“،”شکریہ“،”مہربانی“،”آپ ٹھیک کہتے ہیں“،”میری غلطی تھی“ جیسے الفاظ اور جُملوں کو رواج دیا جائے۔اگر ہم نے خود کو خود ہی بدلنے کی کوشش نہ کی تو مایوسی اور ذہنی تناؤ کو مرتبوں،عہدوں اور گریڈوں سے ذرا بھی خوف نہیں آتا۔

مزید :

رائے -کالم -