دہشت گردی کی ایک اور واردات؟
پشاور پولیس لائنز کی جامع مسجد میں خودکش دھماکے کے بعد اب کراچی کے پولیس ہیڈکوارٹر پر دہشت گردی ہوئی، یہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ جھڑپ میں تین مسلح افراد مر گئے جبکہ دوسری طرف شہدا کی تعداد چار ہے، پولیس حکام کے مطابق پولیس اور رینجرز کی مشترکہ کاوش سے یہ ملزم مارے گئے اور دفاتر کلیئر کرا لئے گئے ہیں اور تفتیش کا کام جاری ہے۔ وزیراعظم، وزیراعلیٰ سندھ اور دیگر سیاسی حکام نے اس دہشت گردی کی واردات کو ناکام بنانے پر سیکیورٹی اداروں کی تعریف کی۔ اب چونکہ تفتیش جاری ہے، اس لئے ہم سب کو نتائج کا انتظار کر لینا چاہیے اور کوئی ایسی بات نہیں کرنا چاہیے جو تفتیش کو متاثر کرے تاہم تجویزتو دی جا سکتی ہے اگرچہ تفتیش کا دائرہ پہلے سے ان سوالات کو حل کرنے کی کوشش کررہا ہوگا لیکن عوامی ذہن میں یہ سوال گونجتا ہے کہ پولیس لائنز پشاور کے بعد اب یہ دوسرا سانحہ ہے جس میں دہشت گرد دندناتے اندر آئے اور خونریزی کی اس لئے یہ سوال تو ہوگا کہ یہ دہشت گرد پشاور میں دھماکہ کے بعد اور بھی دلیر ہو گئے تاہم یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ ایسے حساس مقام میں اندر داخل ہونے کے لئے کیا گُر استعمال کیا گیا کہ پشاور سانحہ کے بعد اصولی طور پر حساس مقامات کی نگرانی زیادہ موثر کیوں نہ ہوئی؟ کہ دہشت گردوں نے ہدف حساس مقامات کو بنایا ہے، ان کے نزدیک تقدس بھی کوئی شے نہیں، کراچی سانحہ کے حوالے سے کہا جا رہا تھا کہ حملہ آور دہشت گردوں کی تعداد نو سے دس ہے اور اب معلوم ہوا کہ تین دہشت گرد مارے گئے، ابھی تک ان کے دوسرے ساتھیوں کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے۔ گزارش یہ ہے کہ عوام کو بھی مطمئن کرنا لازم ہے، جہاں تک رینجرز اور پولیس کی جوابی کارروائی کا دخل ہے تو سب تعریف پر مجبور ہیں کہ حملہ آوروں کے عزائم ناکام بنا دیئے گئے جو عملے کو یرغمال بنا کر طویل کھیل کھیلنا چاہتے تھے۔ اس سے پہلے بھی سی ٹی ڈی اور فوج نے کئی کامیابیاں حاصل کیں اور قربانی بھی دی۔
ہم تواتر سے قومی یکجہتی کی بات کررہے اور درخواست کرتے ہیں کہ سیاسی قائدین کو قومی نقطہءنظر سے غور کرنا اور سوچنا چاہیے اور اکٹھے ہو کر تخریبی کارروائیوں کا سدباب کرنا چاہیے اگر توتکار کا سلسلہ چلتا رہا تو ایسے حادثات و واقعات ہوتے رہیں گے۔
اس وقت ملکی سیاسی حالات اچھے نہیں اور استحکام کا نام لینے والے ایسی کارروائیاں کرتے ہیں جو جلتی پر تیل کا کام دیں، نئے انتخابات کے لئے مطالبہ یا جدوجہد کرنا جمہوری عمل ہے، لیکن یہ سب بھی آئینی اور قانونی دائرہ کے اندر رہ کر ہونا چاہیے۔ تحریک انصاف کو اپنے رویے اور عمل پر خودبخود غور کرنا چاہیے کہ کیا ان طریقوں سے مقصد حاصل ہوگا، شاید نہیں؟ اگر ایسا ہی ہے تو پھر بہتر عمل یہی ہے کہ مل بیٹھ کر اتفاق رائے سے فیصلہ کر لینا چاہیے کہ انتخابات کب ہوں گے اور کیسے ہوں گے؟ کہ دہشت گردی اور تحریکوں سے جو حالات بنتے ہیں ان کے حوالے سے بھی متضاد بیان بازی ہو رہی ہے، اس وقت امن کی ضرورت ہے اور ملک کے اندرونی اور سیاسی استحکام ہی سے یہ ممکن ہے۔
ہم سب کو وطن عزیز کی ضرورت ہے اور اس میں کوئی دو آراءنہیں ہیں، لیکن لازم امر یہ ہے کہ اس کے لئے مخاصمت سے احتراز کیا جائے۔ ملک میں امن و امان کے حالات بہتر نہیں ہیں اور امن ہی سے معاشی استحکام جڑا ہوا ہے، جہاں تک دہشت گردی کی موجودہ لہر کا تعلق ہے تو اس بارے کنفیوژن دور کرنے کی ضرورت ہے، اس وقت حزب اختلاف میں ایک ہی بڑی پارٹی تحریک انصاف ہے اور اسی سے بات کرنے کی بھی ضرورت ہے اگر امریکہ پر سنگین الزامات کے بعد امریکی حمائت حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تو ملک کے اندر آپس میں مل بیٹھ کر کیوں نہیں فیصلے کر لئے جاتے۔ یہی بہتر عمل ہے ویسے بھی حالات کی سنگینی کا اندازہ لگانا چاہیے کہ ہم کہاں کھڑے اور دوست ممالک کا رویہ کیسا ہے، یہ مان لیتے ہیں کہ سب آئی ایم ایف سے معاہدے کے منتظر ہیں جونہی یہ معاہدہ ہوا ادھر سے بھی امداد یا گرانٹ ملنا شروع ہو جائے گی اور اسی امید پر دنیا قائم ہے۔ قومی سطح پر دو مزید امور پر غور کرنا ہے پہلا تو یہ ہے کہ کیا مسلسل قرض لے کر سارے قرض بے باک کئے جا سکتے ہیں یا پھر عالمی مالی اداروں یا دوستوں سے طویل مدتی امداد حاصل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ جس قدر قرض سر چڑھ چکا ہے اسے اتارنا بھی تو ہے، اس پر بھی غور کی ضرورت ہے جبکہ ملک کے اندر سیاسی استحکام پیدا کرنے کے لئے تحریک انصاف اور اتحادیوں کے درمیان بات چیت ہونا چاہیے۔ مذاکرات ہی موجودہ اقتصادی بحران سے عہدہ برآ ہوا جا سکتا ہے، اس کے لئے اپنی انا کو قربان کرنا ہوگا۔عمران خان ایک قدم اور آگے بڑھے ہیںانہوں نے بدھ سے”جیل بھرو“ تحریک کا اعلان کر دیا ہے،اس سلسلے میں یہ بھی بتایا گیا کہ سابق اراکین اسمبلی بھی گرفتاری دیں گے۔ پی ٹی آئی چیئرمین نے تو طعنہ زنی ختم کر دی ہے کہ وہ خود گرفتاری کیوں نہیں دیتے؟انہوں نے کہا تو یہی تھا کہ پہلے خود گرفتاری پیش کریںگے لیکن ایسا کوئی اہم اعلامیہ نظر سے نہیںگذرا،شاید ابھی مکمل صحت نہیں ملی؟
یاد رہے کہ تحریک طالبان سے مذاکرات بھی ناکام ہو چکے اور ٹی ٹی پی کے اندر بھی اختلاف ہیں جن کو روائتی حملوں سے حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، ہم سب کو اپنی ذمہ داری نبھانا ہوگی۔