سیاست اور ریڈ لائن 

 سیاست اور ریڈ لائن 
 سیاست اور ریڈ لائن 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 ٹویٹر پر آج کل سب سے مقبول ٹرینڈ ”زمان پارک پہنچو“ چل رہا ہے ٹویٹر کے علاوہ سیاست کا ٹرینڈ بھی آج کل یہی ہے حکومت نے بھی غالباً یہ آسان راستہ ڈھونڈ لیا ہے کہ مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے پولیس کی گاڑیاں زمان پارک کی طرف بھیج دو، سارا میڈیا اور ساری توجہ اسی طرف ہو جائے گی۔ اب عمران خان نے 22 فروری سے جیل بھرو تحریک کا اعلان کر دیا ہے پہلے مرحلے میں لاہور کے کارکن گرفتاریاں دیں گے۔ سوال یہ ہے کہ سارے کارکن اگر گرفتار ہو گئے تو زمان پارک کی چوکیداری کون کرے گا؟ اب تو ایک کال دی جاتی ہے اور ہزاروں کارکن دن دیکھتے ہیں نہ رات زمان پارک پہنچ جاتے ہیں اور عمران خان کو اپنی ریڈ لائن قرار دے کر راستے بند کر دیتے ہیں۔ حکومتی وزراءاس بات پر عمران خان کا مذاق اڑاتے ہیں کہ وہ کارکنوں کو تو جیل بھرو تحریک کا کہہ رہے ہیں خود زمان پارک میں چھپے ہوئے ہیں انہیں پہلے گرفتاری خود دینی چاہئے۔ مگر وزراءکی ان باتوں میں آ کر عمران خان گرفتاری نہیں دیں گے کیونکہ وہ جانتے ہیں ان کا باہر رہنا کتنا ضروری ہے۔ یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ عمران خان کئی ہفتوں سے زمان پارک میں بیٹھے ہیں، کہیں باہر نہیں گئے عملاً انہوں نے خود کو گھر میں قید کر رکھا ہے مگر اس کے باوجود ان کی سیاست کا ڈنکا پہلے سے بھی زیادہ بج رہا ہے۔ وگرنہ ایسے حالات میں کہ جب لیڈر گھر تک محدود ہو جائے تو اس کے کارکنوں کی سرگرمیاں بھی محدود ہو جاتی ہیں نہ صرف محدود ہو جاتی ہیں بلکہ رفتہ رفتہ دم توڑنے لگتی ہیں۔ عمران خان نے عجب طرزِ سیاست متعارف کرائی ہے وہ صرف زمان پارک میں بیٹھ کر ملک کی سیاست پر چھائے ہوئے ہیں حکومت انہیں گرفتار کرنے کے جتن کرتی ہے مگر کارکنوں کے آگے بے بس ہو جاتی ہے۔ اسلام آباد کی دو عدالتوں نے عمران خان کی ضمانتیں خارج کیں تو یوں لگا کہ اب گرفتاری عمل میں آئے گی۔ اسی دوران ہائیکورٹ سے راہداری ضمانت کی باتیں بھی ہونے لگیں اور لاہور ہائیکورٹ نے اس مقصد کے لئے عمران خان کی عدالت میں حاضری کا حکم دیا تو یہ بحث چھڑ گئی کہ عمران خان عدالت جائیں گے یا نہیں لاہور پولیس کی گاڑیاں بڑی تعداد میں زمان پارک پہنچ گئیں پھر وہی ڈرامائی صورت حال پیدا ہوئی کہ کارکنوں نے زمان پارک کو گھیرے میں لے لیا۔ اس خدشے کے پیش نظر کہ عمران خان کو کہیں ہائیکورٹ جاتے ہوئے راستے ہی میں گرفتار نہ کر لیا جائے انہیں ہائیکورٹ نہیں جانے دیا گیا کیا اس سے پہلے کبھی سیاست کا یہ منظر دیکھا گیا ہے۔ بڑے بڑے رہنما یا تو خود گرفتاری دیتے رہے یا پھر پولیس انہیں تمام حصار توڑ کر گرفتار کرتی رہی لیکن انہیں گرفتار کرنا حکومت کی ضد تو انہیں گرفتار نہ ہونے دینا کارکنوں کا عزم ہے۔


ایک طرف سیاست کا یہ کھیل جاری ہے تو دوسری طرف پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات ایک مسئلہ فیثہ غوث بن گئے ہیں حکومت اور الیکشن کمیشن ان الیکشن سے ایسے بدک رہے ہیں جیسے یہ کوئی بارودی سرنگ ہوں عجیب و غریب توجیحات پیش کی جا رہی ہیں۔ عمران خان نے یہاں بھی ٹھہرے پانی میں ایک ایسا پتھر پھینکا ہے جس سے ہر طرف ارتعاش برپا کر رکھا ہے دو ٹوک بات کسی طرف سے بھی نہیں کہی جا رہی اور بے یقینی ہے کہ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ الیکشن کمیشن اس حوالے سے گول مول جوابات دے رہا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر نے سپریم کورٹ میں اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں فوج کی طرف سے بھی انکار کر دیا گیا ہے اور عدلیہ نے بھی عدالتی افسر دینے سے معذرت کر لی ہے جبکہ امن و امان کے لئے پولیس اور انتظامیہ نے بھی ہاتھ کھڑے کر دیئے ہیں کیا آپ نے ایسی باتیں پہلے کسی چیف الیکشن کمشنر کی زبان سے کبھی سنی ہیں سوال تو یہ بھی ہے کہ چیف الیکشن کمشنر نے کیا زبانی کلامی فوج اور عدلیہ سے تعاون مانگا تھا، کیا انہوں نے الیکشن شیڈول سے پہلے ہی یہ سارے کام کر لئے۔ قانون تو یہ ہے کہ جب الیکشن شیڈول کا اعلان ہوگا تو تمام ریاستی ادارے الیکشن کمیشن کے اختیار میں آ جائیں گے، وہ جسے چاہے جو بھی حکم دے، اسے عملدرآمد کرنا پڑے گا۔ یہ عجیب صورت حال ہے کہ گورنر یہ کہتے ہیں تاریخ دینا ان کی ذمہ داری نہیں، پنجاب کے گورنر کا تو یہ استدلال ہے کہ چونکہ انہوں نے اسمبلی توڑی ہی نہیں اس لئے وہ انتخابات کی تاریخ دینے کے بھی پابند نہیں دوسری طرف الیکشن کمیشن یہ دہائی دے رہا ہے کہ آئینی طور پر وہ از خود الیکشن کی تاریخ دے ہی نہیں سکتا، یہ کام گورنر کا ہے گورنر وفاقی حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں اور وفاقی حکومت آسمان سے کسی غیبی آمد کا انتظار کر رہی ہے کہ ملک کے معاشی حالات اچھے ہو جائیں عوام کو ریلیف ملے تو وہ الیکشن کی تاریخ دے، اس سے پہلے تو اسے اپنی واضح شکست نظر آ رہی ہے۔


اس سارے معاملے میں تیسرے فریق صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی ہیں وہ چیف الیکشن کمشنر کو دو خطوط لکھ چکے ہیں، جس میں انتخابات 90 روز میں کرانے کی یاددہانی کرائی گئی ہے۔ دوسرے خط میں تو انہوں نے چیف الیکشن کمشنر کو ایوان صدر آنے کی دعوت بھی دیدی ہے کہا یہ جا رہا ہے کہ اس معاملے میں پیش رفت نہ ہوئی تو صدر مملکت اپنا آئینی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اب یہ بات تو ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ ایک طرف انتخابات کرانے کا بڑھتا ہوا مطالبہ اور آئین کی ڈیڈ لائن ہے اور دوسری طرف الیکشن سے بچنے اور آئین کی مدت کو اپنے مطلب کے معانی پہنانے کی کوشش جاری ہے اس کھینچا تانی سے کیا نکلتا ہے کسی کو کچھ معلوم نہیں البتہ اس کشمکش سے ملک کی چولیں ضرور ہل رہی ہیں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے حالات دگرگوں ہیں اور معیشت ڈانواں ڈول ہے بے یقینی اتنی ہے کہ کسی کو کچھ معلوم نہیں آنے والے کل کیا ہونے جا رہا ہے۔ ایسے میں ایک محاذ زمان پارک میں لگا ہوا ہے جہاں بیٹھ کر عمران خان نے ملکی سیاست کی ڈوریاں ہلانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے وہ زمان پار میں بیٹھ کر سیاست کی ایک نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ یہ بات تو طے ہے کہ وہ گرفتاری نہیں دیں گے چاہے عدالتیں بھی ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کرتی رہیں یہ ان کی ایک ایسی کمزوری ہے جو اب ان کے لئے ایک طعنہ بنتی جا رہی ہے۔ سیاست میں جیلیں اور گرفتاریاں معمول کا حصہ ہوتی ہیں لیکن عمران خان ایک ریڈ لائن ہیں اور ان کے حامی انہیں گرفتار ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے اب سوال یہ ہے جس قسم کے سیاسی حالات میں ہم گھر چکے ہیں ان سے نکلنے اور آگے بڑھنے کا آخر راستہ کیا ہے۔ انتخابات ہی ایک راستہ ہے جو سیاسی بحران سے نکال سکتا ہے مگر یہ راستہ ابھی ریڈ سگنل کی زد میں ہے عمران خان کی مقبولیت اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے حکومت میں شامل جماعتیں فی الوقت انتخابات کو خودکشی کے مترادف سمجھتی ہیں تاہم سمجھ انہیں بھی نہیں آ رہی کہ آئین سے انحراف کیسے کریں۔ ایسے حالات میں جمہوری ممالک کے سیاستدان ڈیڈ لاک کو ختم کر کے آپس میں مل بیٹھتے ہیں گفتگو کرتے ہیں کوئی قابل قبول حل نکالتے ہیں مگر یہاں تو کوئی دوسرے کی بات تک سننے کو تیار نہیں۔ زمان پارک اور ایوان وزیر اعظم میں ٹھنی ہوئی ہے۔ اصل ریڈ لائن یہ ہے جسے ختم کر کے گرین لائن میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

مزید :

رائے -کالم -