الیکشن کرانے کیلئے مزید کیا کیا جا سکتا ہے ،غور کر رہا ہوں:عارف علوی

  الیکشن کرانے کیلئے مزید کیا کیا جا سکتا ہے ،غور کر رہا ہوں:عارف علوی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


         حیدر آباد (نیوز ایجنسیاں ) صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہاہے صدر کے پاس کسی کی تحقیقات کا کوئی آئینی اختیار نہیں،آئین کے تحت صرف مشاورتی اختیار حاصل ہے،انہو ں نے یہ بات سول ایوی ایشن اتھارٹی آڈیٹوریم میں ایوان صنعت و تجارت حیدر آباد میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کے دوران چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے سابق آرمی چیف کےخلاف تحقیقات کےلئے لکھے گئے خط سے متعلق سوا ل کے جواب میں کہی ،صدر مملکت نے کہا چیف الیکشن کمشنر کو بروقت انتخابات کرانے کے سلسلے میں انہوں نے جو خط لکھا تھا اس پر مزید کیا قدم اٹھایا جائے ابھی وہ اس کے بارے میں غور کر رہے ہیں۔ آئین نے صدر کو اقدام کا نہیں مشورے کا اختیا ر دیا ہے، ابھی میں اس سلسلے میں غور کر رہا ہوں ۔ قبل ازیں صدر پاکستان نے تقریب سے خطاب میں چیف الیکشن کمشنر کو لکھے گئے خط کا حوالہ دیتے ہوئے کہا جمہوری ملکوں میں حالا ت کتنے ہی خراب کیوں نہ ہوں انتخابات برو قت کرائے جاتے ہیں کیونکہ جمہوریت کا یہی تقاضا ہے۔ ملک کے موجودہ نہایت خراب حالات میں چارٹر آف اکانومی سمیت اہم قومی ایشوز پر حکومت اور حزب اختلاف میں اتفا ق رائے اہم ضرورت ہے جس کےلئے وہ مسلسل کوششیں کر تے آ رہے ہیں مگر سب میں تیس مار خان ہونے کے احساس اور انا پرستی کے باعث کوئی باہم مشورے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا، یہ رویہ ٹھوس قومی پالیسیوں کی تشکیل اور تسلسل میں بڑی رکاوٹ ہے، ہر قسم کے حالات میں آئین اور قانون کی بالادستی اور وقت پر انتخابات کا انعقاد جمہوریت کا تقاضا ہوتے ہیں ورنہ 90روز میں انتخابات کا وعدہ ہونے میں بعض مرتبہ 11سال لگ جاتے ہیں، ملک کے موجودہ حالات کا فیز عارضی ہے معاشی ترقی میں آئی ٹی کا شعبہ اسوقت بین الاقوامی سطح پرسب سے اہم ہے جس پر خصوصی توجہ کی ضرور ت ہے، پاکستان میں اتنا ٹیلنٹ ہے اس سے پاکستان چند سال میں ترقی کی دوڑ میں بہت آگے نکل سکتا ہے۔ عارف علوی نے کہا ملک کی ترقی میں صنعت و تجارت اور کاروبار سے وابستہ برادری کا بہت بڑا حصہ ہے لیکن ملک بھر کے چیمبرز آف کامرس کو یہ مستقل شکایت رہی ہے کہ معاشی پالیسی سازی میں ان سے مشاورت نہیں کی جاتی، انسان کی یہ فطرت ہے وہ اپنے آپ کو افلاطون سمجھتا ہے اور کسی سے مشورے کی ضرورت نہیں سمجھتا، یہ بہت خراب رویہ ہے کہ مسائل کے حل اور معاملات کو چلانے میں مشاورت کو اپنی ہتک سمجھا جاتا ہے اور کوئی اپنی سمت درست کرنے کےلئے تیار نہیں ،میں نے 26سال تک عمران خان کےساتھ کام کیا ،حیدرآباد میں بھی چھوٹے بڑے پروگراموں میں بارہا شریک رہا ہوں اسلئے مجھے اندازہ ہے کہ دوسرے کو اپنی بات کے سلسلے میں قائل کرنا بہت مشکل کام ہے، حکومت اور حزب اختلاف میں دونوں کو بٹھا کر ملک کو موجودہ انتہائی پریشان کن معاشی اور سیاسی حالات سے نکالنے کی کوشش کرتا آ رہا ہوں لیکن ابھی تک کوئی کامیابی نہیں ملی، لیکن میں یہ کوششیں کرتا رہوں گا، جس طرح بارش ہونےوالی ہوتی ہے تو ہنگامی طور پر کچھ ہنگامی تدابیر اختیار کر لی جاتی ہیں ہمارے یہاں بھی اسی طرح کیا جاتا ہے مسائل کے حل کےلئے مستقل طور پر پالیسی سازی اور عملی اقدامات نہیں اٹھائے جاتے، مشاورت کو اپنی بے عزتی سمجھا جاتااور گھمنڈ کا احساس حائل رہتا ہے۔اپنے منصب کے تقاضوں کے مطابق کوشش کرتا آ رہا ہوں کے سب سٹیک ہولڈرز کو ساتھ بٹھا کر سیاسی معاشی بحران کا مستقل حل تلاش کیا جا سکے، اس وقت معاشی حالات بہت خراب ہیں ان کو درست کرنے کےلئے ٹھوس عملی اقدامات اور کمٹمنٹ کی ضرورت ہے اس کےلئے حکومت، سیاسی قیادت، صنعتکا ر ، تاجر برادری سب پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے، ہر شخص کہتا ہے ملک میں کرپشن بہت زیادہ ہے مگر کرپشن کرنےوالوں کو پکڑا نہیں جاتا، کرپشن کا خاتمہ صرف حکومت یا سیاستدانوں کی ذمہ داری نہیں ، آپ پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ سیاستدان بھی آپ ہی بناتے ہیں، 80 فیصد عام لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے وہ بھی آپ جیسے کامیاب لوگوں پر بھرو سہ کرتے ہیں کہ آپ ملک کو ان حالات سے نکالیں گے اور ترقی کی راہ پر لے جانے کےلئے اپنا کردار ادا کریں گے، آئی ایم ایف کا کردار بینک جیسا ہے جب آپ بینک سے قرضہ لینے جاتے ہیں تو وہ اپنی شرائط رکھتا ہے تاکہ اس قرضے کو آپ درست طور پر استعمال کر سکیں کہ قرضہ واپس کرنے کے قابل بھی رہیں۔ ان سارے معاملات کا سب کو علم ہے مگر ہم خود اپنے آپ سے مخلص نہیں ہیں تو باہر کے لوگ ہمارے لئے کیا کریں گے۔ مہنگائی و بیروزگاری بہت زیادہ ہے ۔ اگر سندھ پنجاب سمیت کسی بھی صوبے میں تعلیم کی صورتحال خراب ہے تو اس کہ ہم سب ذمہ داد ہیں، پارلیمنٹ، عدلیہ، انتظامیہ میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے، پاکستان دنیا میں پانچویں بڑی قوم ہے یہاں اہلیت رکھنے والے نوجوانوں کی کوئی کمی نہیں، اگر قومی مفاد کے مطابق تمام اسٹیک ہولڈر آئین قانون کے دائرے میں رہ کرجمہوری تقاضوں کے مطابق آگے بڑھنے کا مصمم ارادہ کر لیں تو ملک ایک عشرے میں بہت آگے جا سکتا ہے اور موجودہ بحران عارضی ثابت ہو سکتا ہے۔ ہمیں اپنی سمت درست کرنے کی ضرورت ہے۔
عارف علوی 

مزید :

صفحہ اول -