”دانائی کی زندگی“۔۔۔ خوشی کا حصول ہی بہترین اخلاقی جستجو ہے

”دانائی کی زندگی“۔۔۔ خوشی کا حصول ہی بہترین اخلاقی جستجو ہے
”دانائی کی زندگی“۔۔۔ خوشی کا حصول ہی بہترین اخلاقی جستجو ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تحریر: ظفر سپل
قسط:127
ارنسٹ ماخ(1838-1916ء) آسٹریلین فلسفی اور طبیعیات دان تھا جو فزکس میں ”ماخ نمبر“(Mach Number) اور”شاک وویز تھیوری“(Shock Waves Theory) اور فلسفے کے میدان میں ”منطقی اثباتیت“ میں اپنے اہم کردار کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اس نے 14 سال تک اپنے والدین ہی سے اپنے گھر میں تعلیم حاصل کی۔ مزید3 سال اس نے ایک جمنیزیم (Gymnasium) میں گزارے۔1855ءمیں اس نے ویانا یونیورسٹی میں داخلہ لیا، جہاں سے وہ 1960ءمیں فزکس میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے کر فارغ ہوا اور باقی زندگی اس نے پروفیسری کرکے گزار دی۔ اس نے چارلس فرڈی نینڈ یونیورسٹی، پراگ(Clarles Ferdinand University) کو اپنی زندگی کے 28 قیمتی سال دیئے۔1901ءمیں جب وہ ریٹائر ہوا تو وہ ویانا یونیورسٹی میں پڑھا رہا تھا۔ اب وہ آسٹرین پارلیمنٹ کے بالائی ایوان(Upper Chamber) سے وابستہ ہوگیا۔1913ءمیں اس نے ویانا کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہا اور میونخ کے نزدیک واٹر سٹیٹن(Vater stetten) میں اپنے بیٹے کے گھر منتقل ہوگیا۔1916ءمیں اپنے انتقال تک وہ مطالعے میں سرگرمی سے مصروف رہا۔
 نکتہ رس فلسفی ہونے کے باوجود ایک سرگرم اور عملی طبیعیات دان کے طور پر وہ ہمیشہ ”تھیوری“ کا زبردست نقاد رہا۔ نیوٹن کی زمان و مکان کی تھیوری(Time & Space Theory) پر اس کی تنقید نے آئن سٹائن کو بھی متاثر کیا مگر بعد میں آئن سٹائن نے محسوس کیا کہ ماخ کی تنقید کی بنیادیں کمزور تھیں۔ تجرباتی طبیعیات دان کے طور پر اس نے نقطہ نظر اختیار کیا کہ ”تھیوری“ کو ہمیشہ ”عبوری“ زاویہ سے دیکھنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت(Theory of Relativity) کا بھی زبردست نقاد تھا اور بعینہ یہی وجہ ہے کہ وہ فلسفے میں”مابعد الطبیعیات“ کے مطالعے کو قبول کرنے سے ہمیشہ انکاری رہا۔
ماخ کی ”منطقی اثباتیت“ نے کئی مارکسٹ فلاسفہ کو متوجہ کیا۔ ان میں سے ایک الیگنڈر بوگڈانوف (Alexandar Bogdanov:1873-1926) ہے، مگر 1908ءمیں لینن نے اپنے فلسفیانہ کام میں ماخ ازم کے کمزور پہلوﺅں کی طرف توجہ دلائی۔
 اور یہ دراصل جرمن فلسفی اور طبیعیات دان مارٹنز شلک(Moritz Schlick: April 14,1884-june22,1936) تھا، جو حلقہ ویانا اور منطقی اثباتیت کا حقیقی معنوں میں بانی اور رہبر و رہنما ہے۔ وہ برلن میں ایک امیر و کبیر فیملی میں پیدا ہوا۔ اس نے فزکس کا ابتدائی مطالعہ ہئیڈل برگ(Heidel berg) میں کیا۔ بعد میں اسے برلن یونیورسٹی میں میکس پلانک(Max Planck) جیسے سائنسدان سے طبیعیات پڑھنے کا موقع ملا جس کی نگرانی میں اس نے اپنا اہم مقالہ”غیر ہم جنس واسطے میں روشنی کا انعکاس (On the Reflection of Light in non- Homogeneous Medium) مکمل کیا۔1908ءمیں اس نے اپنی مختصر کتاب ”دانائی کی زندگی“(Wisdom of Life) میں یہ خیال پیش کیا کہ خوشی کا حصول ہی بہترین اخلاقی جستجو ہے۔1915ءمیں اس کا وہ مقالہ شائع ہوا جس نے لوگوں کی توجہ کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ یہ مقالہ آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت سے متعلق تھا، ایک ایسا موضوع جوصرف 10سال پرانا تھا اور اس پر کوئی شخص گفتگو کرنے کی جرأت نہیں کر رہا تھا۔1922ءمیں وہ ویانا یونیورسٹی میں استقرائی سائنس (Inductive Science) کے فلسفے کا استاد بن گیا۔
جرمنی اور آسٹریا میں نازی پارٹی کے عروج کے ساتھ ہی ویانا حلقے کے بہت سے اراکین ملک چھوڑ گئے مگر شلک نے ویانا چھوڑنے سے انکار کر دیا۔1935ءمیں جب اس کی ہربرٹ فیگل سے ملاقات ہوئی تو اس نے اس سے جرمنی میں ہونے والے واقعات پر اپنے اندیشوں کا اظہار کیا۔1936ءمیں اس کو اس کے ایک سابق شاگرد جان نلبوک(johnn Nelbock) نے اس وقت پستول کی گولیوں کا نشانہ بنایا جب وہ لیکچر دینے کے لیے کلاس روم میں داخل ہونا چاہتا تھا۔ بعد میں اس نے عدالت میں یہ مؤقف اختیار کیا کہ شلک کا فلسفہ اس کی اخلاقیات پر اثر انداز ہوا تھا جس کی وجہ سے وہ ہم جنسی کا مرتکب ہوا۔ نلبوک کو10سال قید ہوئی مگر اسے2سال بعد ہی رہا کر دیا گیا اور اس نے نازی پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔
 شلک کے فلسفے کا سرسری مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اس نے 1926ءسے لے کر 1930ءتک کے چار سالوں میں اپنا ایک اہم کام”اخلاقیات کے مسائل“(Problems of Ethics) مکمل کیا۔1933ءمیں اس کا وہ کام سامنے آیا جس کا نام ”اثبات اور حقیقت پسندی“(Positivism & Realism) ہے۔ یہی وہ کتاب ہے جس میں اس نے اثباتیت کی حیرت انگیز اور روشن خیال تعریف کرتے ہوئے کہا کہ:
”ہر وہ خیال جو مابعد الطبیعیات(Metaphysice) کے امکان کو رد کرے، اثباتیت ہے۔“
مابعد الطبیعیات پر منطقی ایجابیوں کا بنیادی اعتراض یہ تھا کہ وہ ایسے جملوں میں اپنا ماضی الضمیر پیش کرتی ہے جو ”بامعنی“ جملوں کی شرط پر پورے نہیں اترتے اور یہ کہ مابعد الطبیعیات ایک ایسی مفروضہ حقیقت کا مطالعہ کرتی ہے جو روزمرہ کی ”پریکٹیکل“ دنیا سے ماورا ہے جبکہ تجربی حقیقت سے ماورا کسی ذات کے بارے میں کوئی بات جائز طور پر اخذ نہیں کی جا سکتی اٹھارہویں صدی میں ڈیوڈ ہیوم(Dvaid Hume:1711-1776) نے اپنی کتاب ”انسانی فہم کے بار میں تحقیق“(An Enquiry Concerning Human Understanding 1748) میں منطقی اثباتیت کی ابتدائی تشکیل کاری کرتے ہوئے لکھا تھا:
”اگر ہم کتاب خانوں سے گزریں تو ہمیں کیسی تباہی مچانا پڑے گی، کسی کتاب کو ہاتھ میں لے لیں، چاہے وہ الٰہیات سے تعلق رکھتی ہو یا مابعد الطبیعیات سے۔ اس کے متعلق استفسار کرنا پڑے گا کہ کیا یہ ہندسوں سے بحث کرتی ہے۔ اگر جواب نفی میں ہو تو پھر پوچھنا چاہیے کہ کیا یہ مشاہدات و تجربات سے تعلق رکھتی ہے۔ اگر اس کا جواب بھی نفی میں ہو تو پھر اسے نذر آتش کر دینا چاہیے کیونکہ اس میں سوائے دھوکے کے کچھ نہیں ہوتا۔“(جاری ہے )
نوٹ :یہ کتاب ” بک ہوم “ نے شائع کی ہے ، جملہ حقوق محفوظ ہیں (ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں )۔

مزید :

ادب وثقافت -