زیادہ تر ریسٹورنٹ اور چائے خانے ایرانی باشندے چلاتے تھے

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:22
لکی سٹار ہوٹل میں بھی یہی کچھ کیا جاتا تھا۔ چونکہ یہ مرکزی شارع پر واقع تھا اس لیے اس کے سامنے کے دروازے کو بند کر دیا جاتا اور بغلی دروازے پر بھاری پردہ لگا دیا جاتا تھاجہاں سے نہ صرف روزہ خور مگر خوف خدارکھنے والے مسلمان اور غیر مسلم بڑے سکون سے اندر داخل ہو جاتے۔ہر کوئی ڈٹ کر کھانا کھاتا اور شرمندگی نام کی کوئی چیز ان کے چہروں پر نہیں ہوتی تھی ۔ان ہی اقدامات کو رمضان کے تقدس کے لیے کافی سمجھا جاتا تھا ۔اندر ایک دنیاآباد ہوتی تھی اور رمضان سے پہلے ہی کی طرح رونق میلہ لگا رہتا تھا۔
کراچی میں اس وقت زیادہ تر ریسٹورنٹ اور چائے خانے ایرانی باشندے چلاتے تھے ۔ یہ سرخ و سپید ،لمبے تڑنگے اوربھاری بھر کم لوگ مرکزی دروازے کے پاس ہی بنے ہوئے کاو¿نٹر پر بیٹھے رہتے تھے۔ جیسے ہی کوئی شخص چائے یا کھانے سے فارغ ہو کر واپسی کے لیے دروازے کی طرف بڑھتا تو پیچھے سے ویٹر بلند آواز میں اس کے بل کی رقم پکارتا تھا ۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا تھا کہ بیک وقت کئی لوگ کاو¿نٹر پر جا پہنچتے تو بیرا بِل کے ساتھ اس کا شناختی نشان بھی بیان کرتا جاتا تھا ، جیسے کہ نیلی ٹوپی والے بھائی سے آٹھ آنے یا لمبے بھائی سے ایک روپیہ ۔یہی انداز تھا تب بل چکانے کا ۔ حیرت اس بات کی تھی کہ بیروں کو ہر کسی کے بل کی رقم زبانی یاد ہوتی تھی ۔ ”کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑابارہ آنے “والا لطیفہ بھی غالباً اسی دور میں گھڑا گیا ہوگا ۔
لکی سٹار ہوٹل کا تو بڑا ذکر ہو چکا۔ اب دیکھتے ہیں کہ اس کے آس پاس ایسا کیاتھا جس کی وجہ سے یہ کراچی اور خصوصاً صدر والوں کے سرپر سوار رہتا تھا ۔ بڑی وجہ تو یہی تھی کہ اس کے قریب سے کئی سڑکیں گزرتی تھیں جن میں سے اکثر صدر بازار کی طرف سے آتی تھیں یا اس طرف کو جاتی تھیں۔ان میں سے کچھ تو یہاں آکر اپنا سفرموقوف کردیتی تھیں اور چند ایک یہاں سے گزر کر آگے نکل جاتیں یا دائیں بائیں ہو کر مختلف سمتوں پر اپنا سفر جاری رکھتیں ۔
لکی سٹار ہوٹل کے سامنے مرکزی دروازے کی طرف منہ کرکے کھڑے ہو جائیں تو دائیں طرف دور سے ایک ٹوٹی پھوٹی، بل کھاتی، لہراتی اسی طرف کو آتی ہوئی ایک سڑک نظر آئے گی۔ یہ وہ سڑک ہے جو جٹ لائنز ، اے بی سینیا لائنز اورفاﺅلر لائنز کو چھو کر آتی ہے۔پہلے اس کا کوئی نام نہیں ہوتا تھا، اب سنا ہے اسے بھی مشرف بہ اسلام کر کے اس کا نام ” اقبال شہید روڈ “رکھ دیا گیا ہے ۔ اس سڑک کا ذکر میں خاص طور پر اس لیے بھی کر رہا ہوں کہ یہ گھر سے میرے اسکول کا راستہ بھی تھا۔اباجان کی یونٹ فاﺅلر لائنز میں تھی جس کا ایک سرا ڈرگ روڈ اور دوسرا اسی روڈ پر نکلتا تھا ۔ یہ راستہ ہمیں سکول کے لیے اور بعد ازاں کالج اور صدر وغیرہ جانے کے لیے مختصر پڑتا تھا، اس لیے زیادہ سفر اسی پر کیا کرتے تھے۔لکی سٹار کے سامنے آکریہ سڑک تھوڑا سا دائیں طرف کو مڑ کر سیدھی ہو جاتی تھی اور اس کا نام ”انورائیٹی روڈ“ ( سرور شہید روڈ ) ہو جاتا تھا ۔یہ 2 ٹکے کی سڑک جس کو لکی سٹار تک پہنچنے سے پہلے کوئی جانتا بھی نہ تھا، یکایک بہت محترم اور اہم ہو جاتی تھی ۔ آپ کو جلد ہی اس کا اندازہ ہو جائے گا،کیونکہ اس میں سے دائیں اور بائیں طرف کو کراچی کی بہت مشہور سڑکیں اور گلیاں نکلتیں جو ساری کی ساری مرکزی صدر بازار کی طرف چلی جاتی تھیں ۔ مختصراً ان کا بھی ذکر ہو جائے تو اچھا ہے ۔ ایسے ہی یہ ناممکن تھا کہ صدر کی طرف سے کوئی سڑک آئے اور ” انورائٹی روڈ“سے ہم آغوش نہ ہو ، ورنہ کم از کم اس کو چھو کر تو لازمی گزرتی تھی۔ اسی طرح مخالف سمت سے آنے والی یا یہاں سے شروع ہو کر صدر کی طرف جانے والی تقریباً تمام ہی بڑی سڑکیں راستے میں آنےوالی ایک اور اہم شاہراہ ”کلارک سٹریٹ“ (شاہراہ¿ عراق ) کو عبور کرتی ہوئی آگے” فرئیر روڈ“ ( شاہراہ لیاقت) پر جا نکلتی تھیں یہ کراچی کی عظیم اور مرکزی سڑک ”بندر روڈ“ ( ایم اے جناح روڈ ) کے بعد اس علاقے کی دوسری مرکزی اور مصروف ترین سڑک تھی جو تقریباً بندر روڈ کے متوازی ہی چلتی تھی ۔اسی فرئیر روڈ پر ا یمپریس مارکیٹ بھی تھی۔ ( جاری ہے )
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )