انجن میں الارم رفتہ رفتہ بلند ہوتا جاتا ہے، پراسرار لیکن مئوثر پیڈل یا زرد بٹن کو ”ڈیڈ مین سوئچ“ کہتے ہیں، نیند میں جھومتے ڈرائیور کوخبردار کیا جاتا ہے

مصنف:محمدسعیدجاوید
قسط:44
اگر خدا نخواستہ دونوں ہی کسی وجہ سے بے بس ہو جائیں، مثلاً کوئی زہریلا کھانا کھانے سے، یا کیبن میں کوئی گیس بھرنے سے، تو ایسے واقعات سے نبٹنے کے لیے بھی انجن میں بہت مؤثرحفاظتی اقدامات کیے جاتے ہیں، جو صدیوں کے تجربات کا نچوڑ ہوتے ہیں۔ گئے وقتوں کے انجنوں میں ڈرائیور کو ہر وقت چوکنا رکھنے کے لیے اس کے پیروں کے پاس ایک پیڈل لگا ہوا ہوتا تھا جس کو اسے ہروقت پیر سے دبائے رکھنا پڑتا تھا جوں ہی نیند کے جھونکے یا بیہوشی کے عالم میں چلے جانے سے اس کے پیرکا دباؤ پیڈل پرکم ہوتا تھا تو ایک خودکار طریقے سے انجن کو بریکیں لگ جاتی تھیں اور گاڑی رک جاتی تھی۔
بات کچھ آگے بڑھی تو زمانہ جدید کے انجنوں میں بنیادی طور پر ڈرائیور کو چوکس رکھنے کی خاطر تصور تو وہ ہی رکھا گیا مگراس کا طریقہ کارتھوڑا تبدیل کر دیا گیا ہے۔اب پیڈل پر پیر رکھ کرمسلسل دبائے رکھنے کی ضرورت نہیں رہی تاہم اس پیڈل کوایک منٹ میں کم ازکم ایک دفعہ ضروردبانا پڑتا تھا، اگر ڈرائیور ایسا نہیں کرتا تو سارے انجن میں بلند آواز میں الارم بجنا شروع ہو جاتا ہے جس کا گلا گھونٹنے کے لیے یہ پیڈل دبانا بہت ضروری تھا۔ پھربھی اگرڈرائیور الارم کو نظر انداز کردے توایک خودکارنظام کے تحت بوگیوں کے نیچے لگی ہوئی ٹریکشن موٹریں کام کرنا چھوڑ دیتی ہیں اورگاڑی کوبریکیں لگ جاتی ہیں۔
پھریہی حفاظتی نظام ایک بڑے سے زرد بٹن میں سمٹ آیا جو سامنے پینل پر لگا ہوا ہوتا ہے،اور جس کو ہر ایک منٹ بعد دبانا لازمی ہوتا ہے، اور اگر ایسا نہ کیا جائے تو پھروہی شیطانی چکر چل پڑتا ہے، یعنی انجن میں الارم بجنا شروع ہو جاتا ہے جورفتہ رفتہ بلند ہوتا جاتا ہے۔اس پراسرار لیکن مئوثر پیڈل یا زرد بٹن کو ”ڈیڈ مین سوئچ“ کہتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں نیند میں جھومتے ڈرائیور کو مردہ شخص سے تشبیہ دے کر اسے خبردار کیا جاتا ہے۔ اور پھراب، جب کہ کمپیوٹر نیانجن کا سارا نظم نسق خود سنبھال لیا ہے، تو وہی سب کچھ نئے انداز سے ہونے لگا ہے۔ اس کے بھی 2 طریقے ہیں پہلا یہ کہ اگر ڈرائیور گاڑی کی رفتار کو مسلسل ایک منٹ تک کم یا زیادہ کیے بغیرایک ہی جگہ قائم رکھے، یا اس دوران وہ کسی اور کل پرزے سے چھیڑ چھاڑ نہ کرے، تو کمپیوٹر کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں کہ ڈرائیور کہیں سو تو نہیں گیا، وہ اونچی آواز میں ایک بزر بجانا شروع کردیتا ہے۔ڈرائیور فوراً سامنے پینل پر لگے ہوئے زرد بٹن کو دبا کر اور قسم کھا کر کمپیوٹر کو اپنے چوکنا ہونے کا یقین دلا دیتا ہے، ورنہ خودکار بریکیں لگنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگتی ہے۔ یہ کمپیوٹر کی ایک انتہائی شانداراورشاطرانہ چال ہوتی ہے،جس میں وہ گاڑی کی رفتار کو توڑے بغیر ڈرائیور کو ہوشیار رکھتا ہے۔
دورجدید کے کچھ نئے انجنوں میں ایک اور ہی ڈرامہ کیا گیا ہے کہ ہر 80 یا 90 سیکنڈ کے بعد کیبن میں خود بخود ہلکا سا الارم بجنا شروع ہو جاتا ہے، جس کا ٹینٹوا دبانے کے لیے ضروری ہے کہ اسی زرد بٹن کودبایا جائے، اگر یہ نہیں کیا جاتا تو کیبن میں بلند آوازمیں سائرن بجنا شروع ہوجاتا ہے۔اور ساتھ ہی گاڑی کی رفتار بھی ٹوٹنے لگتی ہے۔ کمپیوٹر بھی دل میں کہتا ہوگا کہ ”بچْو، تمہارا جو جی چاہے کرلو، یہ بٹن تو بہرحال تمہیں دبانا ہی پڑے گا“۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔