دوست کے گھر کرکٹ کھیلتے دوپہر کا کھانا بھی کھاتے،وہ موجیں اب کہاں، کہاں وہ والدین؟ کبھی کھڑکی کا شیشہ ٹوٹ جاتا تو ڈانٹ بھی بہت پڑتی

دوست کے گھر کرکٹ کھیلتے دوپہر کا کھانا بھی کھاتے،وہ موجیں اب کہاں، کہاں وہ ...
دوست کے گھر کرکٹ کھیلتے دوپہر کا کھانا بھی کھاتے،وہ موجیں اب کہاں، کہاں وہ والدین؟ کبھی کھڑکی کا شیشہ ٹوٹ جاتا تو ڈانٹ بھی بہت پڑتی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:85
گھر میں کرکٹ؛
کرکٹ کا شوق چھوٹی عمر سے ہی تھا۔ ماڈل ٹاؤن میں اس دور میں کرکٹ گراؤنڈ صرف ایک ہی تھا۔ کلب چوک پر۔ ہم چھوٹے تھے لہٰذا ہماری کرکٹ گھروں کے لانوں میں ہو تی۔ سب سے پہلے یہ خرم کے گھر 116 بی میں چھٹی والے دن کھیلی جاتی تھی۔ اس کے6 کنال کے گھر کا لان بہت وسیع تھا۔ آدھے گھر میں خرم اپنے والدین کے ساتھ رہتا  تھاجبکہ آدھے میں اس کے چچا شیخ بخشی اپنے بال بچوں کے ساتھ آباد تھے۔ کئی بار ایسا ہوتا کہ کھیل شروع ہونے کے بیس پچیس منٹ بعد ہی بخشی صاحب کے بیٹے سوہنا۔ موہنا اورنجم(جو عمر میں ہم سے بہت چھوٹے تھے) کا موڈ کسی بات سے بگڑ جاتا اور وہ کہتے ”بال اب ہمارے لان میں آیا تو واپس نہیں کریں گے۔ خرم کے والد اور بڑے بھائی ان کو سمجھانے کی کوشش کرتے جس میں اکثر ناکامی ہی ہوتی تھی یوں کھیل بھی ختم ہو جاتا۔ اس لڑائی کے دوران بابر کی ہنسی ماحول کی سنجیدگی کو کشت زعفران بنا دیتی تھی۔ بابر کی ہنسی کا یہ ٹریڈ مارک آ ج بھی پرانا ہی ہے۔ چھٹی کا دن بیکار جاتا اور بوریت علیٰحدہ ہوتی تھی۔ اس بک بک سے تنگ آ کر اب یہی کام عظیم کے گھر(93بی) میں ہونے لگا تھا۔ یہیں سے ہم نے کر کٹ کے سارے شعبوں  بیٹنگ، باؤلنگ اور فیلڈنگ میں بڑی مہارت حاصل کر لی۔ ایسی کرکٹ شاید ہی ماڈل ٹاؤن کے کسی اور گھر میں ہوئی ہو۔ یہاں دائیں ہاتھ سے کھیلنے والے صرف آف سائیڈ پر ہی کھیل سکتے تھا جبکہ بائیں ہاتھ والے صرف آن سائیڈ پر۔چھٹی والے دن پندرہ بیس لڑکے عظیم کے گھر صبح 10بجے جمع ہو جاتے اور پھر شام تک خوب ہلہ گلہ رہتا۔ کبھی عظیم کے تایا زاد بھائی اور بہنوئی خلیل الرحمان عرف حاجی بھی آ جاتا اور خوب رنگ جمتا۔ وہ بڑے بھائیوں کی طرح تھا۔مجھے موٹر سائیکل چلانا بھی انہوں نے ہی سکھایا۔میں موٹر بائیک چلاتا اور وہ پیچھے بیٹھے اپنی  بوتل ختم کرتے۔ ایک بار میں نے موٹر بائیک کو روکتے ہوئے صرف پیر والی بریک استعمال کی تو میری گردن پر ایسی چپیڑ پڑی کہ باقی عمر میں بائیک کی دونوں بریکس اکٹھی لگانا نہیں بھولا۔(موٹر بائیک چلانے والا اگر دونوں بریکس(اگلی اور پچھلی) اکھٹی لگائے گا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا موٹر بائیک کبھی بھی آؤٹ آف کنٹرول ہو۔ ہمارے ملک میں تو 95 فی صد موٹر بائیک چلانے والوں کو درست انداز میں بریک لگانا آ تا ہی نہیں۔ بائیک حادثات کی بڑی وجہ بریک کا درست استعمال نہ ہے۔)یہ اس دور کے والدین کی اپنے بچوں اور ان کے دوستوں سے محبت کی انتہا کی ایک جھلک تھی۔یہی نہیں عظیم کے چچا صوفی ارشد صاحب بھی ہمارے ساتھ کھیلتے۔ انہو ں نے گورنمنٹ کالج کے لئے بہت اچھی کرکٹ کھیلی تھی۔ وہ ہر بار سنچری بناتے تھے۔ ہم عظیم کے گھر کرکٹ ہی نہیں کھیلتے تھے بلکہ دوپہر کا کھانا بھی کھاتے۔اب کون ہو گا جو ہر چھٹی والے دن 20 لڑکوں کو کھانا کھلائے۔ وہ موجیں اب کہاں، کہاں وہ والدین؟ کبھی کھڑکی کا شیشہ ٹوٹ جاتا تو ڈانٹ بھی بہت پڑتی۔ لیکن اگلی چھٹی والے دن پھر کھیلتے۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں تو یہ کرکٹ روز ہوتی تھی۔ یہاں کھیلنے کی وجہ سے ہم سبھی شاندار فیلڈر تھے اور تیز باؤلنگ بہت اچھی کھیلتے تھے۔ اس کے علاوہ بلال موٹرز(112 بی) والوں سے بھی بڑا لگتا  پھگتا(کانٹے کا) میچ ان کے گھر کی گراؤنڈ میں ہوتا یا عظیم کے گھر۔ (جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -