آپ انہیں کیسے جانتے ہیں ؟

آپ انہیں کیسے جانتے ہیں ؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 ہمارے ہاں پڑھا لکھا ہونے کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ ایسا آدمی پیچیدہ سوالوں کا جواب نہائت آسانی سے دے لیتا ہے ، مگر کسی نے کوئی سیدھی سادی سی بات پوچھ لی تو یوں سمجھیں کہ بس مت ہی ماری گئی ۔ اب پڑھے لکھوں کو تو میں صرف رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے بیچ میں لے آیا ، ورنہ یہ اعترافی بیان تو بس اپنے بارے میں تھا ۔ وجہ یہ کہ آج تک جن بھی مسائل کا تجزیہ کیا ، ان میں امکانی موقف کو پر سہولت رکھنے خاطر پہلے تو ہمیشہ اپنی مرضی کا بنیادی ڈھانچہ بنایا اور اس پہ کھڑی کی دلائل کی عمارت ۔ آپ اس مکان کو ایل ڈی اے کی خونخوار نظر وں سے بھی دیکھیں تو رنگ روغن کی چپچپاہٹ سے پتا نہیں چلتا کہ اصل چکر تو نقشہ کی لکیروں میں دیا گیا ۔ بھولے بھالے برجستہ سوال خواہ کتنے ہی بے ضرر کیوں نہ ہوں ، ان کا جواب دینے میں چکر بازی کی یہ آسانی نہیں ہوتی ۔
آپ انہیں کیسے جانتے ہیں؟‘ اب کون کہے گا کہ یہ کوئی پیچیدہ سوال ہے ۔ دیکھئے نا ، روزمرہ ملاقات ، ٹیلی فون کال یا ای میل اور فیس بک کے رابطوں کی صورت میں کسی بھی تیسرے فریق کا ذکر آتے ہی یہ سوال سامنے آ کھڑا ہوتا ہے ۔ یہی کچھ تین روز پہلے میرے ساتھ ہوا جب ایک سابق شاگرد کا استفسار تھا کہ فلاں نام کی صاحبہ کو آپ کیسے جانتے ہیں ۔ میں نے تشویش کا سبب پوچھا تو معلوم ہوا کہ خاتون فیس بک پر استاد اور شاگرد کے میوچل فرینڈز میں شامل ہیں ۔ تعلیم ، پیشہ ورانہ وابستگی اور عمر بھی ملتی جلتی تھی ، ویسے بیس پچیس سال کے فرق سے کیا ہوتا ہے ۔ جواب سوچنے کے لئے پہلے تو خاندانی رشتوں کے گرد و نواح میں جھانکا ، آس پڑوس کے گھروں کو دیکھا بھالا ، پھر یاری دوستی کی کچی بستیوں پہ نظر ڈالی ۔ مگر ہر بار تصویر کی جگہ لکیریں سی اور تصویر جو آئی تو آواز بند ۔
 عام حالات میں مجھ جیسے کہنہ مشق رپورٹر کے ساتھ یہ ہونا تو نہیں چاہئیے تھا ۔ خیال آیا کہ ہو نہ ہو ، یہ سب سرکاری طور پہ بزرگی حاصل کر لینے پہ حافظہ کمزور پڑ جانے کا نتیجہ ہے یا یہ کہ گرد و پیش کے لوگوں میں میری دلچسپی اب پہلے سے کم رہ گئی ہے ۔ ذرا سا غور کرنے پر دلچسپی والی بات غیرحقیقی سی لگی کیونکہ آج تک دوست ، آشنا جب جب ملے یہ قوالی ضرور ہوئی کہ ’میری تمام زندگی بچھڑے ہوﺅں کی جستجو‘ ۔ اس کے برعکس اگر حافظہ کمزور پڑ گیا ہے تو پھر چہروں کا سیاق و سباق ہی نہیں ، اس مد میں وہ سب کچھ بھی ذہن سے محو ہو جانا چاہئیے تھا جسے ایک شاعر نے ’غم جہاں کا حساب‘ کہا اور دوسر ا گھبرا کر پکار اٹھا کہ ’کاش میں کچھ نہ جانتا ہوتا ‘ ۔ تو بھائی جی ، پھر مسئلہ کیا ہے ؟ مسئلہ یہ ہے ۔ خیر ، اسے وہی سمجھ سکتا ہے جو عام شہری نہ ہو ، میری طرح تھوڑا بہت مشہور آدمی ہو ۔
 یہ شرط سن کر آپ کا رد عمل مرحوم صحافی حبیب الرحمان ’جنگی‘ کی طرح ڈانٹ ڈپٹ کا ہو سکتا ہے کہ ریڈیو پہ آواز لگانے والے کب سے مشاہیر میں شمار ہونے لگے ۔ اسی طرح ٹی وی کے کسی ایسے ٹاک شو میں کبھی کبھار شریک ہونے کے کیا معنی جس میں تیسری کمرشل بریک گزر جانے پر بھی میزبان اسی کوشش میں ہو کہ ناظرین کو کہیں موضوع کا پتا نہ چل جائے ۔ پھر ، اگر میری مبینہ شہرت کی بنیاد نو عمری میں جیتے گئے در جن بھر انعامات ہوں تو یہ ایک وقتی سی بات ہوئی ۔ آج کسے یاد کہ جب انٹر کالجئیٹ مباحثوں کے مقبول مقرر اور بعد کے منفرد کالم نگار خالد حسن نے مرے کالج ، سیالکوٹ میں سائینس اور آرٹ والی ڈیبیٹ میں سر درد کے لئے لتا منگیشکر کے گیت کو اسپرو سے بہتر گولی قرار دیا تھا تو صاحب صدر فیض احمد فیض نے مقرر کے والد ڈاکٹر نور حسین کی طرف غور سے کیوں دیکھا ۔

 مشہور آدمی سے یہ مراد نہیں کہ انسان قائم مقام وزیر اعظم ، زمبیا میں سفیر یا پاکستان کرکٹ بورڈ کا سربراہ بننے کی اہلیت رکھتا ہو ۔ اس قسم کی مشہوری کا کیڑا تو اپنے دماغ سے اسٹوڈنٹس یونین کے الیکشن میں ایک آدھ ہیرا پھیری کرنے اور ایک آدھ ہیرا پھیری سہنے کے بعد ہمیشہ کے لئے نکل گیا تھا ۔ پھر بھی دن اور رات کے جھٹپٹوں کے درمیان ایک شفق کا علاقہ بھی ہوتا ہے ۔ جیسے تیس بتیس سال پہلے کے پی ٹی وی لاہور سے اپنی نوخیز کمپئیرنگ کی داد مری کی مال پہ ایک چار سالہ بچے کی زبان سے یہ سن کر ملی کہ امی ، وہ ۔ ۔ ۔ وہ ڈرامے والا آدمی جا رہا ہے ۔ اس پہ میرے زیر کمان دوستوں کی پلٹن نے خوب قہقہے لگائے تھے ، مگر بندے کو اطمینان تھا کہ واقفیت کا دائرہ آہستہ آہستہ وسیع تر ہو تا جا رہا ہے ۔ کیا پتا تھا کہ آنے والے دنوں میں انسانی تعلق کی اجنبی چڑھائیاں بھی شروع ہو جائیں گی ۔
 شعبہ ءتدریس میں آ جانے کے بعد ان طلبہ کو یاد رکھنا کبھی مشکل نہیں لگا تھا جن کی تخلیقی اٹھان منفرد نوعیت کی ہوتی ۔ دوسرے وہ ’چھانگے‘ جنہوں نے کلاس روم میں کار کردگی تو نہ دکھائی مگر عملی زندگی میں یوں سرپٹ گھوڑے دوڑائے کہ کئی بار منزل کو اوور ٹیک کرتے ہوئے آگے نکل گئے اور کبھی نہ سوچا کہ اوہو ، جانا تو دوسری طرف تھا ۔ یہ تو ہیں وہ لوگ جن کی پہچان آسانی سے ہو جاتی ہے ۔ لیکن دونوں گروہوں کے درمیان ایک مجمع ءعام بھی ہے جس نے پروفیسر صاحب کو ایک ایسی جگہ لا کھڑا کیا جہاں شہرت کا سورج عین سر پہ تو نہیں چمکتا ، لیکن ٹھٹھرتے ہوئے اکیلے پن میں ایک نیم گرم سی دھوپ دل و جاں کو حرارت ضرور بخشتی ہے ۔ ’بھئی تمہارا چہرا جانا پہچانا سا لگتا ہے‘ ۔ بس آپ نے یہ کہا اور سابق شاگرد یا ریڈیو ، ٹی وی ، اخبار کے نوجوان ساتھی نے اپنا تعارف خود ہی کرا دیا ۔
 جن لوگوں نے نیم شناسائی کی اس کامیاب تکنیک کو اوج کمال پہ پہنچایا ان میں انعامی ٹرافی تو شعر و ادب کے استاد اور مستند ایڈیٹر فیض احمد فیض کو ملے گی اور رنر اپ ہمارے گورڈن کالج کے نصراللہ ملک ہوں گے ۔ دونوں بزرگوں نے کبھی کسی کو پتا ہی نہیں چلنے دیا کہ وہ اسے جانتے ہیں یا نہیں ، اور اگر جانتے ہیں تو کس حد تک ۔ ’تمہارے نام پہ آئیں گے غمگسار چلے ‘ کہنے والے فیض صاحب کو مسکرانے کے لئے کبھی شعوری کوشش کرنی ہی نہ پڑی ۔ نصر اللہ ملک میں بھی نیم آشنا شکلوں کو جوڑے رکھنے کا عجیب ملکہ ہے ۔ اسی لئے تو 80 کی دہائی کے آغاز پر جب وہ کسی مفروضاتی بائیں بازو سے وابستگی کی بنا پہ بطور سزا ڈیرہ غازی خان میں متعین تھے ، ایک دن پنڈی میں انہوں نے پہچانے بغیر بھر پور ’ٹیوا‘ لگا کر مجھے خوش کر دیا ’ لگتا ہے حالیہ برسوں میں تم خاصے میچیور ہو گئے ہو‘ ۔
 انسانوں کے بارے میں یہ قیافہ شناسی ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ہوتی ۔ فوج میں عمومی علاقہ کا ایک تصور ہے ، جیسے ’جنرل ایریا آف گوجر خان©‘ ۔ اسی طرح آزمودہ کار اساتذہ پہلے تو کسی کا ایک عمومی زائچہ بناتے ہیں اور پھر اندازہ لگاتے ہیں کہ اگر اس نے میرزا ریاض سے اردو اور آفاق حسین قاضی سے سوکس پڑھی تو یہ میرزا صاحب کی ریٹائرمنٹ سے پہلے کا زمانہ ہے جب ہمارے دوست لیلائے افسری کی تڑپ میں بے حال نہیں ہوئے تھے ۔ اب بندہ رینج میں آ گیا تو تاریخی نیوز ریڈر شکیل احمد کی طرح ٹھیک ٹھیک نشانے لگانے کے لئے اس دور کے چند ایک معروف طالب علموں کے نام لے کر مزید پڑتال کر لی ۔ اس کے بعد داغا تپاک کا گولہ ۔ اگر چھوٹتے ہی کہہ دیتے ’اہا ، آپ مجھ سے پڑھتے رہے ہیں‘ تو میری طرح جواب ملتا کہ ’نہیں سر ، میں آپ کے چھوٹے ماموں کا بیٹا نومی ہوں ۔
 ویسے بسا اوقات یوں بھی ہوا کہ کسی معمولی سے اشارے نے پہیلی بجھوا دی اور ہدف کا یہ حال کہ گولہ اسے نہیں لگا بلکہ وہ خود جا کر گولہ کو جا لگا ہے ۔ اب اسے کیا کہئے کہ راولپنڈی کی سٹی صدر روڈ پہ خان ٹائر شاپ پہ کسی کے ساتھ پتا نہیں کیوں چائے پیتے پیتے دکان والے نے کہہ دیا کہ اس نے ایف ۔ جی ۔ سرسید کالج سے ایف ایس سی کی تھی ۔ تعلیمی سال بھی وہی بتایا جو میری زد میں تھا ۔ اب جو پوچھا ہے کہ آپ نے انگریزی کس سے پڑھی تو جواب ملا کہ وہ کوئی نئے نئے ایم اے کر کے آئے تھے ، تین ماہ کے بعد چلے گئے مگر تھے شاہی آدمی ۔ خدا کی قسم ، میں نے اس دن اپنا موکل ان دو جادوئی الفاظ ہی سے قابو کیا ۔ ۔ ۔ شاہی آدمی ۔ میرے منہ سے یکدم نکلا ’یار وہ میں تھا© ‘ ۔ دونوں اٹھ کر ایک دوسرے کو گلے لگاتے ہیں ۔ چائے کی پیالی رات کے کھانے میں بدل جاتی ہے ۔
 ایک کہانی اور ہے ، جب لاہور کی عسکری دس میں ہماری بہن کے پڑوسی نے بالکل سرسری ملاقات میں اپنے آبائی قصبہ کا نام لے لیا ۔ اب آگے سوال کرنے کا حق میرا تھا ، اس لئے کالج ، کلاس اور تعلیمی سیشن کا پوچھنے کے بعد صرف یہ تصدیق چاہی کہ کیا آپ فرسٹ ائر میں بنچوں کی درمیانی قطار میں دوسرے نمبر پر اور استاد کے ویو پوائنٹ سے انتہائی دائیں جانب بیٹھ کر سارا وقت ایک شریفانہ ہنسی ہنستے رہتے تھے ۔ کرنل صاحب نے میری یادداشت کی داد دی ۔ لیکن وہ جن کا ذکر شروع میں ہوا ، ان کا تعارفی حوالہ ابھی تک ذہنی کھدائی کے بعد بھی ہاتھ نہیں لگا ۔ رہ رہ کر بے وقت بچھڑ جانے والے یاروں کے یار دلدار پرویز بھٹی کا خیال آ رہا ہے جس نے پہلی بار ہی مجھ سے ہاتھ ملاتے ہوئے پوچھا تھا ’کیوں جی ، آپ مجھے جانتے ہیں‘ اور میں نہ جانتے ہوئے بھی نفی میں جواب نہیں دے سکا تھا ۔ ٭

مزید :

کالم -