ٹرین پر حملہ: سیاسی اور سماجی قوتوں کے لئے چیلنج

ٹرین پر حملہ: سیاسی اور سماجی قوتوں کے لئے چیلنج

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


راجن پور میں ریلوے ٹریک پر بم دھماکے سے پشاور سے کراچی جانے والی خوشحال خان خٹک ایکسپریس کے پانچ مسافر جاں بحق اور ساٹھ زخمی ہوگئے ہیں۔ زخمیوںمیں سے بعض کی حالت نازک ہے۔ دہشت گردوں نے مٹھن کوٹ اور کوٹ بہرام سٹیشن کے درمیان ریلوے ٹریک پر بم نصب کر رکھا تھا۔ جو نہی ریل یہاں پہنچی بم دھماکے سے پھٹ گیا ریلوے ٹریک کا پانچ فٹ سے زائد ٹکڑا اُڑ گیاوہاں تین فٹ گہر ا گڑھا پڑ گیا۔ دھماکے سے ٹرین کی پانچ بوگیاں الٹ کر تباہ ہو گئیں۔ انجن کے آئل ٹینک کو نقصان پہنچا۔ روہڑی اور سمہ سٹہ سے ریلیف ٹرینیں جائے حادثہ پر پہنچ گئیں۔ مسافروں کو بذریعہ بس کشمور ریلوے سٹیشن پر پہنچا دیا گیا، جہاں سے وہ بذریعہ ریل اپنی منزل کی جانب روانہ ہوگئے۔ صدر پاکستان،وزیر اعظم اور وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے اس واقعہ کی مذمت کی ہے۔ وزیر ریلوے نے جاں بحق ہونے والے مسافروں کے لواحقین کے لئے پانچ پانچ لاکھ اور زخمی ہونے والوں کے لئے ایک ایک لاکھ روپے کی امداد کا اعلان کیا ہے اور واقعہ کی مکمل انکوائری کرنے کا حکم دیا ہے۔
ریلوے بسوں کے سفر کے مقابلے میںایک آرام دہ اور محفوظ سفر کا ذریعہ ہے جسے بالخصوص خاندان کے ساتھ سفر کرنے والے لوگ ترجیح دیتے ہیں۔ ریلوے میں ضرورت سے زیادہ بھرتی کرکے اور انجنوں کی خریداری ، ورکشاپس میں مختلف اقسام کی خورد برد اور عملے کی ملی بھگت سے بلا ٹکٹ سفر کرنے والوںکی وجہ سے ریلوے اربوں روپے کے خسارے میں تھا۔ موجودہ حکومت کے دوران اس کے معاملات درست کرنے پر توجہ دی گئی ہے ، متحرک وزیر ریلوے کے جو ش و جذبہ کی بدولت پاکستان ریلوے کے حالات تیزی سے اصلاح کی طرف گامزن ہیں ۔ اس کے خسارے میں نمایاں کمی اور کارکردگی میں بہتری آئی ہے۔ ٹرینوں کے اوقات درست ہوئے ہیں ۔ ان کی آمدو رفت میں تاخیر کا سلسلہ ختم ہونے پر مسافروںکی طرف سے اطمینان کا اظہار کیا جارہا ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ پوری قوم اپنے تمام اداروں کی حفاظت اور نگرانی کے لئے بیدار اور چوکس ہوجائے۔ سیکورٹی اداروں یا حکومت کی اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ ملک کے ہر گوشے میں ہر اثاثے کی حفاظت کرسکے۔
 ریلوے بلا شبہ ہمارا ایسا ادارہ ہے جو ملک بھر میں نقل و حمل کے لئے بے مثل خدمات سرانجام دے سکتا ہے۔ ملک بھر میں بچھا ہوا ریلوے لائنز کا جال نہ صرف مال اور سامان کی سستی نقل و حمل کا ذریعہ ہے بلکہ مسافرگاڑیوںسے بہتر سفری سہولت عام آدمی کو کسی بھی دوسرے ذریعے سے میسر نہیں آسکتی۔ آج جس طرح پاکستان سٹیل ملز اور پی آئی اے جیسے اداروں کی تباہی مکمل کرنے کے لئے خفیہ ہاتھ کامیابی سے کام کررہے ہیںایسی تمام کوششوں کو ریلوے کی حد تک ناکام بنا دیا گیا ہے۔ اس سروس کو صحیح معنوں میں عوامی خدمت اور آسائش کی سروس بنایا جارہا ہے۔ لیکن دہشت گردوں کی طرف سے ریلوے کے خلاف اپنے مذموم مقاصد پورے کرنے کے لئے بلوچستان کے واقعہ کے بعد یہ دوسری کوشش ہے، جس کے بعد ریلوے ٹریک ، ٹرینوں اور ریلوے سٹیشنوں پر حفاظتی انتظامات مزید سخت کرنے کی ضرورت واضح ہوگئی ہے۔ جس طرح جنگ کے دنوں میں اپنے نظام مواصلات کی حفاظت کے لئے پوری قوم مستعد ہوکر قومی اثاثوں اور بالخصوص ریلوے ٹریک کی حفاظت کے لئے میدان میں نکلتی ہے آج بھی ہمارے اندر سے مسلسل وار کرنے والے دشمن کے ہراول دستے( دہشت گردوں) کے خلاف ہمیں اسی مستعدی اور فرض شناسی کا ثبوت دینے کی ضرورت ہے۔ ملک کے تمام علاقوں میں ریلوے ٹریک کے ساتھ موجود آبادیوں میں رضاکار فورسز قائم کی جانی چاہئیں ، جن کو منظم کرنے اور ضروری تربیت دینے کا کام مقامی انتظامیہ اور پولیس سرانجام دے سکتی ہے۔ یہ رضاکار اپنے طور پر ریلوے ٹریک اور دوسرے قومی اثاثوں کی حفاظت کریں۔ اگر قوم پر طاری کی گئی موجودہ دہشت گردی کی جنگ میں افراد قوم نے اپنا فرض نہ پہچانا اور دہشت گردی کے اس بڑھتے ہوئے طوفان کوروکنے کے لئے ہمارے نوجوان آگے بڑھ کر سینہ سپر نہ ہوئے تو پھر کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ دشمن کس حد تک کامیاب اور ہم کس حد تک ناکام اور بدحال ہوتے چلے جائیں۔

ریلوے حکام کی طرف سے ادارے سے کرپشن دور کرنے ، میرٹ کا کلچر لانے اور ہر سطح پر کارکردگی بہتر بنانے کے لئے بہت کچھ کیا جارہا ہے۔ اس حادثہ کے موقع پر بھی ریلوے حکام کی طرف سے کسی طرح کی غفلت کا ثبوت نہیں دیا گیا ، لیکن ریلوے ٹریک کے اس قدر وسیع نظام کی حفاظت اور مسافروں کے جان و مال کی سلامتی کے لئے اکیلا ریلوے کا ادارہ سب کچھ نہیں کرسکتا۔ اس سلسلے میں سیکورٹی ایجنسیوں کے ساتھ ساتھ رضاکاروں کو بھی میدان میں اترنا ہوگا۔ اس سلسلے میں سیاسی اور مذہبی جماعتیں بھی اگر اپنے رضا کاروں کی فورس تیار کرسکیں تو وہ ریلوے ٹریکس کے علاوہ ملک میں ہر جگہ شہروں اور دیہات میں گلی کوچوں اور بازاروں میں مشکوک لوگوں پر کڑی نگاہ رکھ کر دہشت گردوں کو کچلنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اس کے لئے متعلقہ ایجنسیوں کی طرف سے اپنے کام میں مستعدی پیدا کرنے کے علاوہ پورے ملک میں رضاکاروں کو حفاظت اور نگرانی کی تربیت بھی دینا ہوگی۔ تعجب ہے کہ ابھی تک قومی قیادت یا دوسری جماعتوں کی طرف سے اس کام پر دھیان نہیں دیا جارہا۔ !
کراچی میں میڈیا اور علماءپر حملے
کراچی میں علماءاور میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد پر حملوں میں ایکسپریس نیوز کے تین ارکان، جمعیت علماءاسلام (س)سندھ کے جنرل سیکرٹری مفتی عثمان یارخان سمیت دس افراد کو ہلاک کردیا گیا ہے۔ مفتی عثمان کے ڈرائیور اور ایک طالبِ علم بھی زخمی حالت میں ہسپتال لے جاتے ہوئے جاں بحق ہوگئے۔ جبکہ ایک اور زخمی کی حالت تشویشناک ہے۔ ان کے علاوہ بھی موٹر سائیکل سواروں کی فائرنگ سے مًختلف افراد ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔ گزشتہ چند روز میں کراچی میں ٹارگٹ کلرز کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے، کسی کو کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ کون کسے کیوں ہلاک کررہا ہے۔ اس سب کھیل میں حکومت خاموش تماشائی کی حیثیت اختیار کئے ہوئے ہے۔ علما ءاور سیاسی کارکنوں اور مافیا کے لوگوں کے ایک دوسرے پر حملوں کے علاوہ اب میڈیا کے لوگوں پر بھی حملے شروع ہوگئے ہیں ۔ اس صورتحال کی حکام اورلیڈروں کی طرف سے مذمت کی جارہی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ صوبائی حکومت کی طرف سے دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن میں مصروف بہت سے پولیس افسروں کے تبادلوں کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے جس کے خلاف ڈی جی رینجرز نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ بعض اطراف سے یہ کہا جارہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت بعض سکیموں کے لئے قبضے چھڑانے یا قبضے کرنے کے لئے ان علاقوں میں اپنی مرضی کے مطابق چلنے والے پولیس افسروں کو لانا چاہتی ہے، لیکن اس سے جرائم پیشہ افراد کے خلاف شروع کی گئی مہم کو سب سے زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے۔ جس کے نتیجہ میں اس وقت ٹارگٹ کلرز شہر میں دندناتے پھر رہے ہیں۔
میڈیا صحیح حقائق عوام تک پہنچانے کے فرائض اداکرتا ہے۔ اس کے لوگوں نے عوامی جذبات اور احساسات کی ترجمانی کرتے ہوئے حکومتوں اور مختلف گروہوں اور جماعتوں پر تنقید بھی کرنا ہوتی ہے۔ اکثر اوقات بعض شخصیات ،جو خود کو قانون اور آئین سے بالا سمجھتی ہیں، میڈیا کی تنقید اور اپنے معاملات بے نقاب ہونے سے مشتعل ہوجاتی ہیں۔ میڈیا والوں کو خطرناک انجام کی دھمکیوں سے ان کے فرائض سے باز رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ وہ اپنے فرائض کی انجام دہی سے باز نہیں رہتے تو انہیں موت کی نیند سلا دیا جاتا ہے۔کچھ لوگ موت کی نیند ضرور سو جاتے ہیں لیکن میڈیا بحیثیت مجموعی جاگتا رہتا ہے۔ حقائق سامنے آتے رہیں او ر قومی معاملات پر ہر کوئی ہر طرح کا نقطہ نظر سامنے لاتارہے تو اس سے اصلاح کی راہیں کھلتی ہیں، معاملات میں بہتری آتی ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے سیکھ کر اپنی رائے کو بہتر بناتے ہیں، اذہان میں پختگی اور جذبات میں ٹھہراﺅ آتا ہے ۔ آزاد میڈیا کے بغیر جمہوریت پروان نہیں چڑھ سکتی، عوام کے دلوں کی دھڑکنیں میڈیا کے ذریعے ہی محسوس کی جاسکتی ہیں ، میڈیا غریب ، پسے ہوئے ، مظلوم اور کمزور عوام کی آواز کو بلند کرتا ہے۔ میڈیا کو کچلنے کی کوشش عوامی اور قومی ضمیر کو کچلنے کی کوشش سمجھی جاتی ہے۔ کسی بھی مہذب اور جمہوری معاشرے کا آزاد میڈیا کے بغیر تصور نہیں کیا جاسکتا۔ میڈیا کو دبانے کی کوشش انسانی ضمیر کو دبانے اور معاشرے پر جبر مسلط کرنے کی کوشش سمجھی جاتی ہے۔ میڈیا کے خلاف کوئی بھی کارروائی افراد پر نہیں پورے معاشرے کو کچلنے کا معاملہ بن جاتا ہے۔ اسی لئے میڈیا کی آزادی اور خبردینے والوں کے بلا روک ٹوک عوامی معاملات میں خبریں حاصل کرنے اور عوام تک پہنچانے کے کام کو بلا رکاوٹ کرنے کی سہولت پورے معاشرے کے تمام باشعور اور ہوشمند لوگوں کا مسئلہ بن جاتا ہے۔کراچی کے میڈیا کارکنوں کا قتل قوم کے ضمیر کی آواز دبانے کی کوشش ہے۔ ان کے قاتلوں تک قانون نافذ کرنے والے اداروں کا آہنی ہاتھ فوری طور پرپہنچنا چاہئیے۔

داﺅدی بوہری جماعت کے روحانی پیشوا سیدنا برہان الدین ایک سو دو سال عمر پاکر ممبئی میں انتقال کرگئے، سیف الدین داﺅدی ان کے جانشین مقرر ہوئے ہیں۔سیدنا برہان الدین عربی کے سکالر تھے اور جدید سائنسی تعلیم میں یقین رکھتے تھے، ان کی خدمات میں یاد گار کام سود سے پاک تجارت اور کاروبار ہے۔ بوہری جماعت والوں کی بھاری اکثریت تجارت پیشہ ہے۔برہان الدین احمد نے 1953ءمیں اپنے والد سیدنا طاہر سیف الدین کی وفات کے بعد یہ مسند سنبھالی تھی اس وقت ان کی اپنی عمر53سال تھی،اپنے دور میں مرحوم نے جہاں سود سے پاک معیشت کی طرف اقدامات کئے وہاں انہوں نے اپنی جماعت میں اجتماعی شادیوں کے رجحان کی حوصلہ افزائی کی تاکہ اخراجات سے بچا جاسکے،بوہری جماعت کے روحانی پیشوا نے تعلیم خصوصاً جدیدسائنسی علوم کے حصول کے لئے بھی اپنے پیروکاروں کو آمادہ کیا اور بوہری جماعت کا دعویٰ ہے کہ ان کے ماننے والوں میں شرح خواندگی سو فی صد ہے۔

سیدنا برہان الدین کی وفات کے فوری بعد ان کی جماعت سے تعلق رکھنے والے حضرات نے اپنے کاروبار بند کردئیے ،تین روز سوگ کا اعلان کیا،جماعت خانوں میں تعزیت کے لئے جمع ہوئے اور مساجد میں قرآن خوانی کااہتمام کیا،پاکستان کے صدر ،سابق صدر،وزیراعظم،سابق وزیراعظم اور تمام راہنماﺅں نے تعزیت کااظہار کیا ہے۔

مزید :

اداریہ -