کاؤنٹر اٹیک
دوسری جنگ عظیم میں جرمن اور جاپان دو بڑی طاقتیں تھیں۔ جاپان مشرق بعید میں پیش قدمی کر رہا تھا۔ سنگاپور پر بمباری کے بعد کلکتہ اور دہلی پر جاپان کے ہوائی حملے کا خطرہ تھا۔ حکومتِ وقت نے دہلی کے میدانوں میں ڈبلیو شیپ کی خندقیں کھدوائیں اور تالاب بنا کر پانی سے بھرے گئے تاکہ بمباری سے لگنے والی آگ پر قابو پایا جا سکے۔ اے آر پی ایک فورس بنائی گئی،جس کا مقصد آگ بجھانا تھا۔ دہلی میں دکانوں کے ساتھ برآمدے تھے۔ ان میں دیواریں کھڑی کی گئیں تاکہ دکانیں اور ان کے پیچھے آبادی بمباری سے محفوظ رہے۔
جون1965ء میں مَیں رات دو بجے ہانگ کانگ سے دہلی پہنچا۔ دن کے دو بجے میری دہلی سے لاہور کی فلائٹ تھی اور نائٹ سٹے کے لئے امپریل ہوٹل پہنچا دیا گیا۔ اس ہوٹل میں بیگم رعنا اور لیاقت علی خان کی شادی ہوئی تھی۔ پرانی انار کلی میں دارالعلوم الاسلامیہ ہے۔ اس کے مہتمم قاری سراج احمد نے نکاح پڑھایا تھا۔ ہوٹل پہنچ کر مَیں نے سوچا کہ یہاں سونے کی بجائے جامع مسجد جاتا ہوں، وہاں کچھ آرام کرنے کے بعد فجر ہو جائے گی۔ نماز فجر سے فارغ ہو کر مَیں جامع مسجد کے اطراف بازاروں میں گھومنے پھرنے نکل گیا۔ 1945ء میں مَیں نے جن دکانوں کے برآمدوں میں دیواریں کھڑی دیکھی تھیں وہاں1965ء میں بھی دیواریں نظر آئیں۔ مَیں نے آتے جاتے لوگوں سے پوچھا کہ یہ دیواریں کیوں کھڑی ہیں؟ جواب ملا: ’’پاکستان کی طرف سے ہوائی حملے کا خطرہ ہے اس جواب پر مَیں حیران تھا اور سوچ میں پڑ گیا کہ کیا مَیں حالتِ جنگ سے دو چار ہوں۔ کہیں یہ نہ ہو کہ بمباری شروع ہو جائے اور فلائٹ کینسل ہو جائے۔
دن کے12بجے مَیں ایئر پورٹ پہنچ گیا۔ دو بجے پی آئی اے کی فلائٹ چلی۔ ایک گھنٹہ بعد مَیں لاہور میں موجود تھا۔ ایئر پورٹ پر جو بندہ سب سے پہلے میرے سامنے آیا، مَیں نے اُس سے پوچھا کہ کیا جنگ شروع ہونے والی ہے؟ جس سے مَیں نے جنگ کی بات کی وہ حیران ہو کر میرا مُنہ تک رہا تھا۔ بہرحال یہاں دیواریں کیا، آثار بھی نہ ملے۔
اس کے بعد وقت گزرتا گیا۔اگست میں کراچی میں میری شادی ہوئی۔6ستمبر کو ہم دونوں بابل فلم دیکھنے میٹنی شو پر ایک سینما گئے، ابھی سیٹ سنبھالی تھی کہ سکرین پر تحریر آئی’’لاہور پر بھارت نے حملہ کر دیا ہے، لہٰذا بھارتی فلم کا شو منسوخ کیا جاتا ہے‘‘۔ دو مہینے پہلے دہلی میں جو جنگی تیاریاں دیکھی تھیں آج عقدہ کھل گیا۔ واپس گھر پہنچے۔ ریڈیو لگایا اس پر لاہور پر حملے کی خبر بار بار نشر ہو رہی تھی۔ پھر بتایا گیا کہ صدر محمد ایوب خان قوم سے خطاب کریں گے۔ ان کا خطاب شروع ہوا۔افواجِ پاکستان سے مخاطب ہو کر کہا کہ ’’ لا الہ الا اللہ کا ورد کرتے ہوئے دشمن پر ٹوٹ پڑو اور اس کو بتا دو کہ اُس نے کس قوم کو للکارا ہے‘‘۔ سترہ دن بھارت کی خوب ٹھکائی ہوئی، پھر بڑی طاقتوں نے مل کر سیز فائر کرا دی۔اس طرح جنگ ستمبر اختتام کو پہنچی۔
دسمبر1965ء میں ہم دونوں ہانگ کانگ کے لئے روانہ ہوئے۔ بھارت کے اوپر سے پرواز ممکن نہ تھی۔ کراچی سے براستہ کولمبو ڈھاکہ پہنچے۔ وہاں سے کینٹن اور پھر ہانگ کانگ پہنچے۔ وہاں اس وقت کرسمس ایو تھی۔ بڑا ہنگامہ تھا، پھر نیو ایئر ایو آئی اور1966ء کا سورج طلوع ہوا۔ ایک ہفتہ کے بعد ہی ہم1965ء سے 1966ء میں چلے گئے۔
1966ء میں ہانگ کانگ میں ایشین ہاکی فیڈریشن کا اجلاس تھا۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل محمد موسیٰ فیڈریشن کے صدر کی حیثیت سے اجلاس کی صدارت کے لئے ہانگ کانگ تشریف لائے۔ پاکستانی بڑے خوش تھے کہ فاتح فوج کا سربراہ آیا ہے۔ جنگ کے صحیح حالات یہ سنائیں گے۔ پاکستان ایسوسی ایشن نے جنرل محمد موسیٰ کو چائے کی دعوت پر مدعو کیا۔ وہ دعوت پر تشریف لائے، شرکاء ان کو اپنے درمیان پا کر بڑا فخر محسوس کر رہے تھے۔ جنرل صاحب سے استدعا کی گئی کہ وہ جنگِ ستمبر پر روشنی ڈالیں۔
جنرل محمد موسیٰ نے بیان کیا کہ بغیر کسی اعلانِ جنگ کے رات کے اندھیرے میں بھارت نے لاہور پر حملہ کیا۔ مواصلاتی نظام وہ کاٹ چکے تھے۔ واہگہ سیکٹر کی طرف دشمن پیش قدمی کر رہا تھا۔ صبح سویرے ہمارے علم میں حملہ کی بات آئی، فوراً آرمی کو موو کیا، مختلف سمت اور علاقوں سے پاک فوج کی کمپنیاں آگے بڑھنے لگیں، جو کمپنی شالیمار کی طرف سے بی آر بی نہر کی طرف بڑھ رہی تھی اس کے کمپنی کمانڈر نے دیکھا کہ دشمن کا ٹینک بی آر بی نہر عبور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ کمانڈر(میجر) نے اپنی جیپ سڑک سے ہٹ کر کچے میں اتاری اور اپنی توپ سے اُس بڑھتے ہوئے دشمن کے ٹینک کو نشانہ بنایا۔ ٹینک الٹ کر گرا اور اتنے میں دوسرا ٹینک سامنے آیا اور وہ بھی نشانہ بنا۔ دشمن کے دو ٹینک تباہ ہونے سے پیچھے آنے والی دشمن کی نفری کو اندازہ ہوا کہ ہماری وافر نفری نہر کے دوسرے کنارے پر موجود ہے۔اس طرح دشمن نے اپنی پیش قدمی روکی۔ دراصل جب ہمیں حملے کا علم ہو گیا تو اول ہمیں خود کو ڈیفنس کرنے کے لئے شالیمار سے بھی بہت پیچھے منظم ہونا چاہئے تھا۔ پہلے ہم خود کو محفوظ پوزیشن میں لے کر حملہ روکنے کی پوزیشن اختیار کرتے، اس کے بعد ہم حملہ آور ہوتے، مگر اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ ہم نے خود کو ڈیفنس کرنے کی بجائے دشمن کے ٹینکوں کے سامنے کھڑے ہو کر دشمن پر کاؤنٹر اٹیک کیا۔ایسے کاؤنٹر اٹیک کی عسکری تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس پر حاضرین نے نعرۂ تکبیر بلند کیا۔ تالیاں بجائیں اور بڑے فخر کا مظاہرہ کیا۔ اس جرأت مندانہ اقدام سے دشمن کا حوصلہ پست ہو گیا۔ آگے بڑھنے والی ہماری کمپنیاں اپنی پوزیشن بی آر بی نہر کے کنارے سنبھال چکی تھیں۔ ہماری توپوں نے گولوں کی بارش کر دی۔دشمن پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گیا۔ دشمن نے حملہ کرتے وقت کہا تھا کہ شام کی چائے ہم جم خانہ میں پئیں گے۔ الحمد للہ سترہ دن تک وہ اپنا سر پیٹتا رہا اور اللہ کریم نے اُس کو پسپائی کا مُنہ دیکھنے پر مجبور کر دیا۔ جنرل صاحب نے فرمایا کہ میری اور میرے افسروں کی ساری زندگی فوج میں گزری ہے۔ کاؤنٹر اٹیک کا ایسا واقعہ نہ کسی جنگ میں دیکھنے کا موقع ملا،نہ کسی کتاب میں پڑھنے کا موقع ملا۔یہ اللہ کا کرم تھا کہ ہم سر چڑھے دشمن کو زمین پر دے مارنے میں کامیاب ہو گئے۔ نہر کے اِسی کنارے سے تھوڑا آگے برکی میں میجر عزیز بھٹی دشمن سے نبرد آزما تھے۔ اُن کی بے مثال جرأت کی آپ نے داستان سُن لی۔ مجھے اپنے شہیدوں اور غازیوں پر فخر ہے۔ مَیں انہیں سلام پیش کرتا ہوں، ساتھ میں لاہور کے شہریوں کو بھی سلام کرتا ہوں، جنہوں نے ہمیں اتنا حوصلہ دیا کہ ہم اتنے بڑے دشمن سے ٹکرا گئے اور اس کے خوابوں کو پاش پاش کر دیا۔ دشمن کے منصوبے خاک میں مل گئے۔
7ستمبر کو ہوائی فوج بھی ہمارے شانہ بشانہ ہو گئی،سیالکوٹ سیکٹر میں ٹینکوں کی جنگ دنیا کی سب سے بڑی جنگ تھی۔ہر لحاظ سے الحمد للہ ہم نے کامیابی حاصل کی۔ سترہ روز کے بعد دشمن سیز فائر پر مجبور ہو گیا۔ اللہ اکبر
1965ء کی جنگ کے حوالے سے جنرل موسیٰ صاحب کا ذکر ہوا۔1980ء میں جنرل موسیٰ صاحب مجھے حج کے موقع پر مسجد نبوی ؐ کے باہر ونڈو شاپنگ کرتے نظر آئے۔ مَیں نے آگے بڑھ کر کہا: جنرل صاحب السلام علیکم، وہ خاموش رہے۔ مَیں نے دوبارہ کہا: جنرل صاحب السلام علیکم، وہ فرمانے لگے آپ کس سے مخاطب ہیں۔ مَیں نے کہا:آپ سے۔ پوچھا: مَیں کون ہوں۔ مَیں نے کہا:جنرل محمد موسیٰ۔ فرمایا وہ کون ہے۔ مَیں نے کہا:آپ، فرمانے لگے، مَیں جنرل نہیں صرف محمد موسیٰ ہوں۔ آپ مجھے کس طرح جانتے ہیں۔ مَیں نے پہلی ملاقاتوں کا حوالہ دیا۔اب مجھ سے پوچھا کہ آپ کہاں ہوتے ہیں۔ مَیں نے بتایا کہ لاہور میں۔ فرمانے لگے، مَیں اب کوئٹہ ہوتا ہوں۔ کبھی میرے پاس وہاں تشریف لائیں۔ یہاں اپنی دُعاؤں میں مجھے بھی یاد رکھیں۔