اپنے ایک مقالے ’ منٹو از سعادت حسن منٹو ‘ میں خود اس نے کہا تھا کہ عین ممکن ہے کہ سعادت حسن مر جائے اور منٹو زندہ رہ جائے۔کتنا بے وقوف شخص تھا جو سمجھتا تھا کہ شاید منٹو کو موت نہیں آ سکتی لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ اس کی 60 ویں برسی پر اکا دکا چینل اپنے قیمتی 24 گھنٹوں میں سے ڈیڑھ سے 2 منٹ تک اس کی یاد کر کے اپنا فرض پورا کر لیں گے۔میڈیا کی بے رخی دیکھ کر مجھ ناچیز کا دل بھی کڑھنے لگا لیکن پھر میں نے سوچا کہ منٹو جیسے شخص کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہونا چاہیئے تھا۔
کتنا خوش فہمی کا شکار شخص تھا جو اپنے کتبہ کی تحریر بھی خود لکھتا ہے کہ ’ سعادت حسن منٹو کی قبر ہے جو سمجھتا ہے کہ اس کا نام لوح جہاں میں حرف مکرر نہیں تھا ‘۔اردو ادب کا سب سے بڑا کہلوائے جانے والا افسانہ نگار سعادت حسن منٹو 11 مئی 1912 ءکو پیدا ہوا جبکہ اس دنیا سے بوجھ کم کر کے جہان فانی سے 18 جنوری 1955 ءکو کوچ کر گیا۔وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کی 60 ویں برسی پر دنیا اس کو مکمل طور پر بھلا چکی ہو گی۔اسے امید تو نہ تھی لیکن اس جیسے شخص کے ساتھ ہونا کچھ ایسا ہی چاہیئے تھا۔
ہمارے معاشرے پر تنقید کرنے والا وہ ہوتا کون ہے ؟ اسے یہ حق کس نے دیا کہ برملا کہے ’ میں اگر آپ میرے افسانوں کو برداشت نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب ہے کہ زمانہ ناقابل برداشت ہے ، میں تہذیب و تمدن کی چولی سے کیا اتاروں جو ہے ہی ننگی ، میں اسے کپڑے پہنانے کی کوشش نہیں کرتا کیونکہ یہ میرا کام نہیں درزیوں کا ہے‘ ۔
سعادت حسن منٹو کون ہوتا ہے جو کہ وہ دنیا میں رائج نظام کے خلاف لکھے کہ ’ میں ایسی دنیا پر ایسے مہذب ملک پر ، ایسے مہذب سماج پر ہزار لعنت بھیجتا ہوں جہاں یہ اصول مروج ہو کہ مرنے کے بعد ہر شخص کا کردار اور تشخص لانڈری میں بھیج دیا جائے جہاں سے وہ دھل دھلا کے آئے اور اسے رحمتہ اللہ علیہ کی کھونٹی پر ٹانگ دیا جائے‘ ۔
منٹو کو مر ہی جانا چاہیئے تھا کیونکہ اس کے افسانوی کردار محض کردار نہیں ہمارے معاشرتی کرداروں کا آئینہ ہے۔اسے تو رتی برابر حیاءنہیں آتی کہ معاشرے کو آئینہ دکھانے کے لیے کہیں ’ کھول دو ‘ کا بابا ہے تو کہیں ’ ٹھنڈا گوشت ‘ کا ایشر سیاں ہے ۔کہیں ’ ممد بھائی ‘ کی مونچھوں میں رچی بسی شرم اور غیرت ہے تو کہیں ’ننگی آوازیں ‘ سن کر پاگل پن کا شکار بھولو ہے۔کہیں یہ معاشرہ ’ نیا قانون ‘ کی امید لگائے بیٹھا منگو کوچوان ہے تو کہیں ’ بلاﺅز ‘ کو دیکھتے ہوئے عہد جوانی میں قدم رکھتا مومن ہے ۔
منٹو کی موت تو یقینی تھی کیونکہ اس معاشرے میں ’ کالی شلوار ‘ کی خواہش دل میں رکھے جسم فروش کی کہانی معاشرہ برباد کر رہی ہے ، وہیں خاوند کی محبت میں سرشار وہ خاتون ہے جس نے ’ سرکنڈوں کے پیچھے ‘ اسی کو قتل کر دیا۔کیا یہ معاشرہ برداشت کر سکتا ہے کہ یہاں ’ بو ‘ اور ’ دھواں ‘ جیسی فحش کہانیوں کو اردو ادب کا بہترین افسانہ قرار دیا جائے۔منٹو کو شرم آنی چاہیئے تھی کہ کم سے کم فرشتوں جیسی مقدس اور پاکیزہ مخلوق کو ’ گنجے فرشتے ‘ بنا کر معاشرے کی برائیوں کو منظر عام پر لانے کی کوشش تو نہ کرتا ۔
سعادت حسن منٹو کی موت کے بعد ممتاز مفتی نے کہا تھا کہ آج سعادت حسن کا انتقال ہو گیا اور منٹو زبان زد عام ہو گیا۔غلام عباس کا کہنا تھا کہ منٹو ایک باغی کی حیثیت سے اردو ادب میں ہمیشہ زندہ رہے گا ، کرشن چندر نے منٹو کی موت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک عجیب حادثہ ہوا ہے ۔ منٹو مر گیا ہے ۔ گو وہ ایک عرصہ سے مر رہا تھا۔۔۔جبکہ نریش کمار شاد کا کہنا تھا کہ خدا مسلمانوں کو خوش رکھے ہمارے پیاروں کا نشان ( قبر ) تو بنا دیتے ہیں۔
آج یہ سب زندہ ہوتے تو سعادت حسن کی موت کا سوگ منانے اور اپنے قلم کو سعادت حسن کی موت کے غم کی سیاہی میں ڈبونے والے آج ’ منٹو ‘ کی موت کا غم کبھی برداشت نہ کر پاتے ۔کیونکہ آج ہم نے اپنے چہروں کی کالک اور سیاہی کو چھپانے کے لیے میڈیا کو بھرپور استعمال کیا ہے اور اگر اسی میڈیا پر منٹو کی برسی کو نشر کر دیا جاتا تو شاید ہم پھر سے بے نقاب ہو جاتے ۔منٹو مر گیا تو کیا ہوا ،اچھاتو یہ ہوا کہ ہم اور ہمارا معاشرہ بے پردہ نہیں ہوا۔ الحمد اللہ