اوشو
زندگی ایک غیر محفوظ کھیل ہے، کل کا کوئی وجود نہیں آج میں جیو، تعقل کو رد کرکے دھیان کی طرف بڑھو، یہ اقوال ہیں معروف روحانی اْستاد اور گرو بھگوان شری رجنیش المعروف اوشو کے، پنجاب کی دھرتی عالمگیر تصوف میں ایک امتیازی مقام رکھتی ہے حضرت مسعود الدین گنج شکر المعروف بابا فرید، حضرت بابا بلھے شاہ،حضرت مادھو لعل شاہ حسین،حضرت سلطان باھو، سائیں وارث شاہ، حضرت میاں محمد بخش سائیں اور حضرت بابا غلام فرید سائیں جنہوں نے عالمگیر تصوف میں پوری دنیا میں ایک نمایاں مقام حاصل کیا۔
اوشو 31دسمبر 1931 میں بریلی کے ایک گاؤں کچواڈا میں پیدا ہوئے جیسا کہ ہر بچہ اپنے والدین سے ایک مخصوص مذہب لیتا ہے اسی طرح اوشو نے بھی تاراپنتھی جین گھرانے میں آنکھ کھولی اوشو ابتدا ہی سے برہمچاریہ( تعلیمی دور) کے شائق تھے وہ برہمچاریہ سے براہ راست سنیاسیت تک پہنچنا چاہ رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ گرہستہ اور واناپرستہ کو بائی پاس کرکے سنیاس میں رہے اوشو نے ساگر یونیورسٹی سے فلسفہ میں ماسٹر کیا اور پھر بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسر جبل پور یونیورسٹی سے منسلک ہو گئے اوشو بنیادی طور پر سنیاس کے پرچارک تھے، مگر یہ وہ سنیاس نہیں تھا جو عموماً ہندو میتھالوجی میں صدیوں سے چلا آ رہا تھا اوشو جس سنیاس کا پرچار کرتے تھے اسے وہ اپنی اصطلاح نؤ سنیاس سے تعبیر کرتے تھے نؤ سنیاس دراصل ہمارے صوفیا کے نزدیک عالمگیر تصوف کی اصطلاح سے تعبیر کیا جاتا رہا ہے اوشو ہمارے صوفیا کی طرح مطلق تعقل پسندی کے سخت ناقد اور میڈیٹیشن یعنی مراقبہ کے انتہائی پرچارک تھے اوشو اپنے دو امتیازی تجرباتی اقدار کی بدولت مشہور ہوئے جنسی آزادی اور اور امیروں کا گرو، جنسی آزادی ایک غیر مکمل اور ولگر اصطلاح ہے درحقیقت اْردو زبان جوکہ اپنے اصل کے لحاظ سے زبان نہیں بلکہ مختلف زبانوں کا مرکب ہے میں ابتداہی سے ایکوریٹ اصطلاحات کا فقدان رہا ہے ہمیں مجبوراً عربی، فارسی یا پھر انگریزی زبان کے کسی مادہ سے استفادہ کرنا پڑتا ہے جنسی آزادی سے بہتر عربی کی اصطلاح تباشیرِ مطلق ہے اوشو کہتے تھے کہ انسان جب تک اپنے اندر کی واسنا( ہوس) کو دبانے کی بجائے مکمل طور پر سیراب نہیں کر لیتا تب تک وہ حقیقی روحانی سکون نہیں پا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اوشو کی سب سے پہلی نگارش "سمبھوگ سے سمادھی کی اْور" منظر عام پر آئی ۔
اوشو امیروں کے گرو تھے، کیونکہ اوشو کہا کرتے کہ غریب آدمی مجھے نہیں سمجھ سکتا انسان جب تک امارت کے سبب تمام مادی ضروریات پوری نہیں کر لیتا وہ دل جمعی کے ساتھ روحانیت کی طرف نہیں آ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر اور بالخصوص یورپ کے زیادہ تر امیر آپ کے روحانی شاگرد تھے اوشو ایک جلیل القدر صوفی تھے وہ اپنے ابتدائی ہندی ڈسکورسز میں بابا فرید اور بلھے شاہ کے کلام پر گھٹنوں بیان کرتے، اوشو کو دنیا میں بہت کم لوگوں نے سمجھا ہے اوشو چاہتے تھے کہ انسان ہر لحاظ سے امیر ہو جائے اس لئے وہ ایک نئی اصطلاح نیو مین کا استعمال کرتے آپ کے نزدیک وہ نیا انسان ہر لحاظ سے امیر اور ہر روحانی آلائش سے منزہ ہو گا اوشو کسی مخصوص عقیدہ یا نظریہ کے پرچارک نہیں تھے وہ نظریہ کی بجائے میتھڈ کے قائل تھے اور اپنی ذات سے وابستہ لوگوں کو میتھڈز کی تعلیم دیتے اوشو نے میڈیٹیشن کے 112 میٹھڈز بتائے ہیں جن کے ذریعے ایک انسان روحانی بالیدگی اور دھیان کی روشنی حاصل کر سکتا ہے اوشو انتہائی جینئس تھے آپ نے انسانی شعور کو روشن کرنے والے تمام ذہین لوگوں پر بات کی اور ہر مشکل سے مشکل سوال کا جواب دیا اوشو کہا کرتے کہ میں سوال کو بھسم کرتا ہوں، جبکہ لوگ اسے جواب سمجھ لیتے ہیں اوشو اکثر کہا کرتے کہ زندگی کوئی مسئلہ نہیں جسے حل کیا جائے بلکہ زندگی ایک راز جسے بسر کیا جائے اوشو ماضی اور مستقبل پر یقین نہیں رکھتے تھے بلکہ آپ کے نزدیک اصطلاح یقین کبھی سننے کو نہیں ملی اوشو کے نزدیک یقین دراصل انسانی شعور کی نقاہت پر مبنی ہوتا ہے اوشو نے دنیا کے تمام مذاہب اور ان کے بانیوں پر کھل کر بات کی گوتم بدھ کے متعلق آپ فرماتے ہیں کہ بدھا نے انسانی شعور کو بچپنہ سے نکال کر شباب عطا کیا اوشو مروجہ ازدواجی اقدار کے شدید ناقد تھے، کیونکہ آپ سمجھتے تھے کہ انسان کی حتمی قدر آزادی ہے اور کوئی بھی انسان کسی بھی قیمت پر آزادی کو قربان نہیں کر سکتا، جبکہ فطرت کا تقاضا بھی یہی ہے۔ اوشو کا وصف یہ ہے کہ آپ نظریات یا عقائد کی بجائے میتھڈز پر بات کرتے اور میتھڈز ہی دیتے اوشو نے زندگی کے ہر شعبہ پر انتہائی مضبوط استدلال سے بات کی اوشو کی حکمت انسانی فطرت کو بے ساختہ اپیل کرتی ہے اوشو انسانی معاشروں میں مذہب،وطن، نسل اور رنگ کی تفریق کو غیر فطری اور غیر ضروری تصور کرتے تھے جیسا کہ ہمارے اکثر وجودی صوفیاکا نظریہ ہے۔ اوشو صوفیا کی طرح ہمیشہ محبت کا درس دیتے امن کا سبق سکھاتے، مگر اوشو ہر اس قدر کے شدید ناقد تھے جو انسان کی فطری آزادی میں حائل ہو گویا اوشو کے نزدیک آزادی پر کسی طور بھی کمپرومائزنگ نہیں ہو سکتی ہم پورے اطمینان کے ساتھ یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ اوشو انسانی شعور کو تروتازہ کرنے والے آخری انسان تھے آپ نے انسانی شعور میں جس قدر چمکدار اور تازہ اضافہ کیا ہے آئندہ متعدد صدیاں آپ کے شعور سے مستفید ہوں گی۔ اوشو کو سمجھنا ایک سطحی ذہن کے حامل کے لئے یقیناً مشکل ہے، مگر جو بیدار مغز ہیں۔
ان کے لئے اوشو کی ڈسکورسز ایک دماغی ٹانک کا درجہ رکھتی ہیں اوشو نے ہمیشہ دلیل اور منطق سے بات کی آپ کا لہجہ انتہائی دھیما اور پرلطف ہوتا تھا سمجھنے والا آپ کے الفاظ تک گن سکتا تھا دنیا کی مختلف زبانوں میں اوشو کی ڈسکورسز کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ دنیا کے ہر ذہین انسان کے لئے اوشو تعارف کے محتاج نہیں بہت ہی لویش اور شفاف زندگی گزارنے والے اوشو 19 جنوری 1990ء کو اپنے آشرم پونے میں شریر تیاگ گئے آپ کے مزار کے کتبے پر ایک انتہائی پرمغز اور پر اسرار تحریر لکھی ہوئی ہے ۔