تحریک انصاف کی جیت؟
عمران خان کی سیاست ایک بار پھر ’’ڈو اینڈڈائی‘‘ جیسی کیفیت کا شکار ہو چکی ہے۔وہ پاناماکیس سے سکائی ہائی امیدیں باندھ بیٹھے ہیں۔ امید، نا امیدی کی یہ حالت پاکستان تحریک انصاف کے ورکروں میں بھی سرایت کر چکی ہے۔ کارکن سمجھتے ہیں کہ کیس جیتنے کی صورت میں رائے عامہ یکسر بدل جائے گی ، اور اگر نتیجہ الٹ نکلا تو تیسری قوت کا خواب دیکھنے والے کروڑوں نوجوان دوبارہ اقتدار کے پیچھے بھاگتے موروثی وحشیوں کی انیوں کا شکار ہو جائیں گے؟ قطع نظر پاناما کیس، اگر آج انتخابات کا بگل بج جائے تو تحریک انصاف بڑی کمزور پوزیشن پر کھڑی نظر آ رہی ہے ، بالخصوص عمران خان کا تنظیمی معاملات سے لاتعلقی اختیار کرناعرصے سے محسوس ہو رہا ہے۔ عمران خان کا کردار فقط نئے آنے والوں کی شمولیت پر جذباتی تقریر تک محدود ہو چکا ہے، جبکہ شہروں، قصبوں ، دیہات میں موجود پرانے تنظیمی عہدیداروں کو خدا کے آسرے پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ کارکن نئے ہوں یا پرانے، توجہ کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ خاص طور پرایسے کارکن جو اس بار منعقد ہونے والے عام انتخابات میں مرنے مارنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ بات تو حقیقت ٹھہرے گی کہ سونامی کا باعث بننے والے یہ کارکن ابھی تک پوری توانائیوں سے میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں اور تحریک مخالف پروپیگنڈے پر ایک منٹ کیلئے بھی کان دھرنے پر تیار نہیں۔ تحریک انصاف کے کارکنوں کی امیدیں کچھ بے جا بھی نہیں۔ ان کے مطابق سونامی کی کراؤڈ پلنگ جیسی قوت بدستور قائم ودائم ہے اور وہ کھڑکی توڑ رش کا مرحلہ پھلانگ کر گلی کوچوں میں اپنی ہوا بنا چکی ہے۔ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ زرد چہروں، دھنسی آنکھوں اور مہنگائی کے تھپیڑے کھا کھا کر قریب المرگ لوگوں کے پاس عمران خان کے سوا کوئی آپشن نہیں بچا۔ اسی طرح وسائل کی تلاش میں مارے مارے پھرتے کمزور جسامتوں، الجھے بالوں اور ڈھلکتی پتلونوں والے نوجوانوں کو بھی عمران خان کی صورت میں اپنے خوابوں کی تعبیر مل سکتی ہے۔
تحریک انصاف کے کارکن برملا کہتے ہیں کہ نئی نسل کے لئے وسائل تو ایک طرف، پرانے سیاسی گرگے سکولوں، قبرستانوں اور چھپڑوں تک کو الاٹ کروا چکے ہیں۔ اب اچھی تعلیم اور نسبتاً بہتر گرومنگ کے حامل نوجوانوں کے لئے نہ تو سرکار کے پاس روزگار ہے اور نہ ہی کاروباری مواقع۔ سرکار تو روزگار اسے دیتی ہے جو پورے خاندان کو غلامی کا طوق پہناتے ہوئے اپنے علاقے کی سیاسی شخصیت کے سامنے سرنگوں کرے، جبکہ کاروبار کے لئے مانگ تانگ کر اکٹھا کیا گیا دو تین لاکھ روپیہ نوسر باز سیل مینوں اور کذاب مارکیٹ کی جیبوں میں چلا جاتا ہے۔ اب ان حالات میں پاکستان کے یہ رومانوی، افسانوی اور کنگال نوجوان عمران خان کے پیچھے نہیں بھاگیں گے تو اور کیا کریں گے؟ اب ہر نوجوان’’تندوری ذہانت‘‘ کا حامل تو ہو نہیں سکتا کہ جو بیس تیس لاکھ روپے والا انعام سمیٹ لے۔ سڑکوں پر امنگیں ذبح کرواتے پاکستانی نوجوان کسی ایسے لیڈر کو نہیں مانتے جس نے ان کے خواب تک ریزہ ریزہ کر دیئے، نہ ہی انہیں کسی ایسے ’’متوقع‘‘ حاکم کی پرواہ ہے جو جمہوریت کو مضبوط کرتے کرتے انہیں قبل از وقت بڑھاپے کی سرحدوں پر پٹخ چکا ہو۔
اب پاکستان تحریک انصاف کو کارکنوں کی نظر سے ہٹ کر دیکھتے ہیں۔سب سے پہلے عمران خان کی جانب چلتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان اپنا دشمن آپ ہوگا کہ کوئی چھینی ہتھوڑا چلانے والا یا گاجر مولی اگانے والا بھی کسی پٹھان کی دشمنی افورڈ کر سکتا ہے؟عمران خان سب سے بڑا ظلم یہ ڈھا رہا ہے پارٹی کے تنظیمی معاملات میں جہاں طاقت ،اتھارٹی اور گرج چمک دکھانی چاہئے تھی وہاں’’جمہوری روایات‘‘ جیسے کتابی فقروں میں الجھ گیا ۔ بابا اس حرکت کی ضرورت ہی کیا ہے، جسے ا بھی یہ کچا پکا سماج سمجھنے کا اہل ہی نہیں۔ ووٹنگ، اظہار رائے، پارٹی الیکشن۔۔۔یہ کس گورکھ دھندے میں پڑ گئی تھی پی ٹی آئی۔ عام انتخابات سر پر تھے۔ میدان سجنے کو تیار اور مخالفین پراپیگنڈے کی مشینوں کا زنگ اتارنے میں مشغول تھے، جبکہ دوسری طرف عمران خان اپنے اچھے بھلے، سمجھدار، معتبر امیدواروں کو ’’ جمہوری شعور‘‘ ازبر کروانے میں مصروف رہے۔ بہتر ہوتا اگر عمران خان وقتی طور پر اس ’’مطلقہ شعور‘‘ کو لات مارتے اور پارٹی کے بڑے فیصلوں کا بیڑہ اٹھا لیتے۔ سب سے پہلے ان مرکزی عہدیداروں سے بازپرس کی جاتی جو ملک کے طول و عرض میں پھیلے ’’رائی کے دانے‘‘ جیسے جماعتی اختلافات کو حل کرنے میں ناکام ثابت ہو رہے تھے۔ یہ مرکزی عہدے دار اس قدر غیر سنجیدہ تھے کہ اپنے مخلص اور سادہ کارکنوں کو اکٹھے بٹھا کر صلح صفائی بھی نہیں کروا سکے۔ دوسری توجہ عمران خان کو ان بوجھ نما پرانے ساتھیوں پر کرنی چاہئے تھی جو عمران خان کو منکوحہ سمجھتے ہوئے کسی غیر کو پاس پھٹکنے ہی نہیں دیتے تھے۔ تیسرا وار ان ضلعی، سٹی عہدیداروں پر ہونا چاہئے تھا جو یونین کونسل سطح کے اختلافات کی گٹھڑی اٹھائے مرکزی لیڈروں کی تاک میں گھروں کے سامنے لمبی تان کر سو جاتے تھے۔ انہی کارکنوں نے قائدین کو گروپ بندیوں میں دھکیلا، جبکہ چوتھا ہدف اس میڈیا ٹیم کو ہونا چاہیے تھاجو گھر بیٹھے خود ہی تصور کرچکی تھی کہ یہ پاکستان بھر کے صحافیوں کی آسمانی ذمہ داری ہے کہ عمران خان کے حق میں لکھتے ہی چلے جائیں۔ اب اتنے نقائص کے ہوتے ہوئے پی ٹی آئی کس طرح میدان میں پوری قوتوں سے اتر پائے گی؟
یہ وقت ہے عمران خان کو اپنی اتھارٹی دکھانے کا۔ جس شہر میں جس نے اچھا کام کیا، وہ عمران خان کی نظروں سے اوجھل نہیں اور یہ بھی ضروری نہیں کہ نئے آنے والے محنتی، دیانت دار اور وفادار نہیں۔ ایک حد سے بڑھتی ہوئی یہ نئے، پرانے کی بحث پاکستان تحریک انصاف کو بڑی شدید زک پہنچا رہی ہے۔ آخر کب تک عمران خان غلطیوں سے صرف سبق ہی سیکھتے رہیں گے۔پارٹی انتخابات صرف ضد کی بناء پر منعقد کئے گئے۔ بہتر ہوتا اگر عمران خان ہر ضلعے کے مخالف دھڑوں کو لاہور میں اکٹھا کرتے اور باہمی رنجشوں کو ختم کرواتے ۔ یہ کام ابھی بھی ہو سکتا ہے۔ جلسوں کے لئے بڑا وقت پڑا ہے۔ انتخابات جب بھی ہوئے، تحریک انصاف کی ہوا آخری چالیس دنوں میں ہی نئی اٹھان پکڑے گی۔ اس وقت تک کئی لوگ آئیں اور کئی جائیں گے، لیکن تمام اعشاریے نشاندہی کر رہے ہیں کہ تحریک انصاف بڑے مقابل کے طور پر سامنے آچکی ہے۔ فرض کرتے ہیں پاناما کیس کا فیصلہ حکومت کے خلاف آجاتا ہے۔ یہ بھی فرض کرتے ہیں کہ عام انتخابات کا اعلان ہو جاتا ہے۔ دونوں صورتوں میں کیا عمران خان دستیاب مواقع سے فائدہ اٹھا سکیں گے؟ اگر پی ٹی آئی کے موجودہ طرزفکر کو دیکھیں تو یہ حقیقت بھی نہیں جھٹلائی جا سکتی کہ آج بھی گوجرانوالہ ڈویژن میں مسلم لیگ (ن) بدستور مضبوط نظر آرہی ہے۔ تحریک انصاف شائد ہی کوئی سیٹ جیتنے کی پوزیشن میں ہو۔ تگڑے اور نیک نام امیدوار ہر جگہ موجود ہیں۔ بات ان تک رسائی کی ہے۔ عمران خان رسائی کی خاطر شاہ محمود قریشی، چودھری سرور، علیم خان اور دیگر احباب کی رائے پر تکیہ کر رہے ہیں۔ یہ احباب اپنی گروپ بندیوں کو ترجیح دیتے ہوئے کمزور امیدواروں کو بھی ٹارزن کے روپ میں پیش کر رہے ہیں، اگر یہی چلن برقرار رہا تو خدشہ ہے پی ٹی آئی مناسب امیدواروں سے محروم رہ جائے گی۔ پاناما کے بطن سے جنم لینے والا موقع پھر ضائع ہو جائے گا۔ شائد عمران خان بھٹو کا یہ فارمولہ بھلا بیٹھے کہ نئی پارٹی کو امیدوار ڈھونڈنے پڑتے ہیں،خودبخود نہیں آ جاتے۔