معاشرتی اقدار میں تبدیلی ، اسلامی تعلیمات کو بھی نظر انداز کر دیا گیا
جب کوئی بزرگ، زیادہ عمر والا یہ کہے کہ ان کے بچپن اور جوانی کا دور اچھا تھا، تب اخلاق اور تہذیب کا بہتر معیار تھا اور لوگ ایک دوسرے کی عزت اور احترام کرتے تھے جبکہ معاشرتی برائیاں بہت کم تھیں، جواب میں آج کے نوجوان مذاق اڑاتے ہیں کہ وہ دور جہالت تھا، حالانکہ آج کے دور کی تعلیم اس زمانے سے کہیں کم تر ہے اس کی مثال صرف دو مضامین سے دی جاسکتی ہے، ایک انگریزی اور دوسرا اردو ہے، تب ان کا معیار بہت بلند تھا، آج حالات یہ ہیں کہ انگلش میڈیم تعلیم ہونے کے باوجود سی،ایس،ایس کے امتحانات میں انگریزی میں فیل ہونے والے بھاری اکثریت میں ہیں اور پاس ہونے والوں کا تناسب 12سے 15فی صد نکلا ہے،یہ تو ایک مثال تھی ذکر معاشرتی برائیوں کا ہے، ایسے اقدامات جو ہمارے مسلمان معاشرے میں کجا کسی اور بھی مہذب معاشرے میں نہیں ہونا چاہئیں۔
اس سلسلے میں گزشتہ روز دو مختلف خبریں نظر سے گزریں، ان کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ معاشرہ کس حد تک پست ہوتا چلا جارہا ہے، ایک خبر عدالتی ہے جس کے مطابق ایک خاتون نسرین بی بی کو سزائے موت اور اس کے بیٹے انیس کو قتل کے الزام میں عمر قید کی سزا دی گئی ہے، ان ماں بیٹے کا جرم انتہائی دکھ والا قابل مذمت ہے کہ انہوں نے خود اپنے خون نسرین کی بیٹی اور انیس کی بہن کو زندہ جلا دیا اور وہ اللہ کو پیاری ہو گئی قصور اس کا یہ تھا کہ اس نے اپنا بالغانہ حق استعمال کیا اور ان مجرموں کی مرضی کے بغیر شادی کرلی، انہوں نے اسے گھربلایا صلح کی اور پھر پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی کہ یہ ان کی ’’غیرت‘‘ کا تقاضا تھا ، پولیس نے تفتیش کے بعد مقدمہ کا چالان عدالت میں پیش کیا جہاں سماعت کے بعد جرم ثابت ہونے پر نسرین کو قتل عمد اور اس کے بیٹے انیس کو قتل میں معاونت پر سزا دی گئی، یہ اکیلا واقعہ نہیں بلکہ ’’غیرت کے نام پر قتل‘‘ ایک سلسلہ ہے جو ہماری معاشرتی اقدار میں رچ بس گیا ہے، اس کے تحت بہت قتل ہوئے خاوند نے بیوی، والد نے بیٹی اور بھائی نے بہن کو ناجائیز تعلقات کے شبہ میں قتل کیا جبکہ پسند کی شادی کرنے والے جوڑے بھی اس انجام سے گزرے کہ پسند کی شادی بھی غیرت کو چیلنج قرار دی گئی ، اس سلسلے میں نمائندہ ایوان میں بھی شور اٹھا کہ پرانے انگریزی قوانین کے تحت’’ غیرت کے نام پر قتل‘‘ میں سزا نہیں ہوتی تھی، اس پر عدلیہ کے ریمارکس آئے کہ فیصلے تو رائج اور مروجہ قوانین کے تحت ہوئے اس صورت حال کے بعد ہی منتخب ایوانوں میں صدا گونجی اور معاملہ صوبے سے وفاق کو منتقل کیا گیا کہ اس مسئلہ پر غور و فکر کے بعد قانون سازی کی جائے، جو ابھی تک زیر التوا ہے، اس کے بعد بھی ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں اور سزا یافتہ بیٹے کا جرم بھی یہی غیرت کا معاملہ ہے حالانکہ مقتولہ نے شادی کی تھی۔
دوسری خبر اس سے افسوسناک اور توہمات کا لاعلاج مرض ہے کہ تھانہ سندر کے گاؤں رنگین پور کی تسلیم نے خود اور اپنی پانچ بچیوں کو زہریلی زرعی ادویات پلا کر اپنے سمیت سب کو ختم کرنے کی کوشش کی، دو بچیاں تو اللہ کو پیاری ہو چکی تھیں باقی تین زیر علاج اور ان کی حالت بھی خراب ہے، خود تسلیم بھی زیر علاج ہے یہ بہت بڑا المیہ، اسلامی تعلیمات سے انحراف اور معاشرتی ابتلا ہے کہ تسلیم کے شوہر ریاض اور اس کے درمیان بچیوں کی پیدائش پر جھگڑا ہوتا رہتا تھا، ریاض اور تسلیم کی ازدواجی زندگی میں یکے بعد دیگرے پانچ بچیاں پیدا ہوئیں تو ریاض بیوی کو طعنے دینے لگا اور ان کے درمیان جھگڑا ہونے لگا، گھر کا امن و سکون برباد ہو گیا، تنگ آکر تسلیم نے زہر پھانکا اور بچیوں کو بھی پلایا کہ روز روز کی بک بک جھک جھک سے موت ہی بہتر ہے لیکن اسے تو اب تک موت نہیں آئی اور وہ سخت حالت میں زیر علاج ہے لیکن اب تک دو بچیوں کا بوجھ کم ہو چکا ہوا ہے۔
ان دو چیزوں سے معاشرے کی ادنیٰ تصویر سامنے آتی ہے کہ آج ہم کہاں کھڑے ہیں،شادی کے لئے بالغ مرد اور بالغ عورت گھروالوں کی مرضی کے بغیر خود بھی نکاح کرسکتے ہیں کہ ملکی قانون اور اسلام بھی یہی درس دیتا ہے لیکن ہمارے معاشرے میں آج بھی یہ قابل گردن زدنی ہے ، یہ جرم کرنے اور ان کی حمائت کرنے والے کتنے لوگ ہیں یہ بھی سب پر عیاں ہے، یہ درست کہ بچوں کو بھی ماں کا احترام کرنا ہوتا ہے،اور والدین کی رضا مندی سے شادی ہونا چاہئے، چھپ کر شادی کرنے والوں کے اندر اتنا حوصلہ ہونا چاہئے کہ وہ پہلے اپنی بات والدین سے منواسکیں اور مہذبانہ طریقہ اختیار کرتے ہوئے رضا مندی سے شادی کرنا چاہئے، دوسرا اقدام انتہائی مجبوری کے عالم میں ہو پھر بھی کسی اور بزرگ کو بپتا سنا کر کوشش کرلینا چاہئے والدین کو بھی اپنے بچوں کی پسند کا احترام کرنا اور خاندانوں سے مل کر بات طے کرنا چاہئے کہ یہ برائی تو ختم ہو۔
دوسری طرف جو لوگ بیٹے کی آس اور امید میں مسلسل بچے پیدا کرتے اور احتیاط نہیں کرتے ان کو بھی حوصلہ رکھنا چاہئے بچوں کی پیدائش میں تو یوں تین یا تین سال سے زیادہ وقفہ ہونا چاہئے، اگر اوپر تلے بچیاں ہوتی ہیں تو پھر اسے اللہ کی رضا سمجھ کر صبر کرنا چاہئے، بیٹے کی آس میں مسلسل پیدائش سے بھی پیچیدگیاں پیدا ہو رہی ہیں، یہ کوئی واحد واقعہ نہیں ہے، نرینہ اولاد کا نہ ہونا اور بچیوں کی پیدائش کئی مسائل پیدا کر دیتی ہے، خاندان کے خاندان برداشت نہیں کرتے اول تو علیحدگی یا طلاق کی نوبت آتی ہے دوسری صورت یہ ہے کہ بعض سمجھدار اسے اللہ کی رضا جانتے ہیں اور صابر و شاکر اکثر دو بچیوں پر انحصار کرلیتے ہیں، ہر دو خبریں المناک واقعات پر مشتمل اور انتہائی افسوسناک ہیں، اس سے پتہ چلتا ہے کہ معاشرہ کتنا انحطاط پذیر ہے، ہمارے علماء کرام، دانشور حضرات اور سیانوں کو بھی چاہئے کہ وہ قوم کو سمجھائیں، اس سلسلے میں ہمارے پیش امام اور خطیب حضرات کا بہت بڑا حصہ ہے، سب کو مل کر ہی معاشرتی برائیوں کے خلاف احتجاج کرنے کی ضرورت ہے۔