ازلی دشمن کو پہچان لیں

ازلی دشمن کو پہچان لیں
ازلی دشمن کو پہچان لیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بھارت کی پاکستان کے خلاف تیاریاں اس بات کی گواہ ہیں کہ وہ پاکستان کے خلاف اپنے عزائم کھلے رکھتا ہے۔ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں پاکستان کے مشیر خارجہ کوہوٹل سے باہر نہ آنے دینا سفارتی آداب کی خلاف ورزی سے کہیں بڑھ کر حبس بے جا میں رکھنے کا مجرمانہ فعل تھا۔ اس فعل سے بھارت نے واضح طور پر اپنے اسی جارحانہ پیغام کو ایک مرتبہ پھر دہرایا ہے۔ دشمنی پر مبنی جو پیغام وہ تسلسل کے ساتھ پاکستان کو دے رہا ہے اور پاکستان خطے کے وسیع تر مفاد میں امن اور دوستی کی خواہشات کو مقدم رکھے ہوئے ہے۔ بھارت کے ساتھ خوشگوار تعلقات کا خواب دیکھنے والے مقتدر حلقے کی آنکھیں اب کھل جانی چاہئے اور انہیں اس تلخ حقیقت کا ادراک کرلینا چاہئے کہ پاکستان کی ترقی، استحکام،امن اور سب سے بڑھ کرپاکستان کے وجود کو بھارت کی جانب سے حقیقی و سنگین خطرات درپیش ہیں اور بھارت پاکستان کے خلاف اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کی خاطر کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔ پاکستان کے خلاف جارحانہ و دشمنانہ کردار کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ بھارت اب علاقائی بالادستی کے خواب سے آگے بڑھ کر دنیا کی بڑی طاقتوں میں شمولیت کے پروگرام پر عمل پیرا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے وہ نہ صرف اپنی جنگی اور ایٹمی صلاحیت کو مسلسل بڑھا رہا ہے بلکہ خطے کے تمام ممالک کو اپنی تابعداری میں لینے کی کوشش بھی کررہا ہے۔بڑی جنگی طاقتوں میں اپنا شمار کرانے کے لئے بھارت نے جوہری پروگرام کو وسیع کرکے امریکہ ، جاپان اور آسٹریلیا سے جوہری معاہدے کئے ہیں۔نئے نیوکلیئر ڈاکٹر ائن کے تحت اپنی تینوں افواج کو ایٹمی صلاحیت سے لیس کیا ہے۔ کسی بھی بحری فوج کے پاس ایٹمی قوت کی موجودگی اس حوالے سے زیادہ خطرناک سمجھی جاتی ہے ،کیونکہ اسے مارک کرکے نشانہ بنانا مشکل ہوتا ہے۔ سلامتی کونسل میں مستقل نشست،خطے پہ بالادستی و اجارہ داری اوربڑی طاقتوں میں شماربھارت کی ایسی خواہشات ہیں کہ جن کی تکمیل کی راہ میں وہ پاکستان کو رکاوٹ سمجھتا ہے۔ اس رکاوٹ کو ہٹانے یا ختم کرنے کے لئے بھارت پاکستان کے خلاف ایک باقاعدہ پروگرام پہ کاربند ہے۔

اس پروگرام میں پاکستان کو داخلی و خارجی سطح پر عدم استحکام کا شکار کرنا، پاکستان کو تنہا کرنا، تعمیر و ترقی کے دروازے بند کرنا، خطے کے ممالک کے ساتھ تعلقات میں بگاڑ اور بالخصوص دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو نظرانداز کرانے کے لئے الزامات کا لامتناہی سلسلہ جاری رکھنا شامل ہے۔ پاکستان کے خلاف اس بھارتی پروگرام کو اگر امریکی حمایت حاصل ہے تو یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد امریکہ نے اپنا مرکزی حریف چین کو قرار دیا اور اپنی پالیسی ترتیب دی جس میں بھارت کو چین کے مدمقابل لانا شامل تھا۔ اس پالیسی کے تحت امریکہ نے بھارت کے ساتھ بڑے دفاعی و جوہری معاہدے کئے۔ 2001ء میں صدر بش نے بھارت کے ساتھ میزائل ڈیفنس سسٹم معاہدہ کیا۔ 2005میں نیوکلیئر ڈیل اور اس کے علاوہ بے تحاشہ اسلحہ دینے کے معاہدے کئے۔ اب امریکہ اور بھارت نے ایک دوسرے کے بیسز استعمال کرنے اور لاجسٹک امداد کے معاہدے کئے ہیں۔ بھارت چین کے خلاف امریکہ سے تعاون پر مبنی پالیسی کی قیمت پاکستان مخالف پالیسی میں امریکی حمایت و مدد کی صورت میں مانگتا ہے۔ چنانچہ پاکستان کے خلاف بھارتی جارحانہ و دشمنانہ رویے پہ عالمی خاموشی باعث حیرت نہیں ہونی چاہئے۔
پاکستان کے خلاف بھارت کے عزائم حالیہ دور حکومت یا موجودہ عشرے میں جارحانہ نہیں ہوئے بلکہ قیام پاکستان کے بعد سے ہی بھارت پاکستان کی سلامتی کے خلاف سرگرم تھا۔ پاکستان پر جنگیں مسلط کیں۔ پہلے کشمیر پہ قبضہ کیا، پھر مشرقی پاکستان کو الگ کرنے میں اپنا گھناؤنا کردار ادا کیا۔ پاکستان کے پانیوں پر قبضے کی پالیسی اختیار کی۔ کشمیر میں ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے۔ آزادء کشمیر کے لئے جو تحریک اٹھی تو اسے دہشت گرد قرار دیا۔ نریندر مودی حکومت کے آنے کے بعد بھارتی کردار جارحانہ نہیں بلکہ بے نقاب ہوا۔ نریندر مودی نے بھارتی پالیسی کو واضح اور عیاں کیا۔ یہاں تک کہ پاکستان کو دولخت کرنے کا اقبال جرم بھی سینہ تان کر سابق مشرقی پاکستان میں کیا۔ پاکستان کو تقسیم در تقسیم کرنے کی دیرینہ بھارتی خواہش کو عملی جامہ پہناتے ہوئے مودی نے بلوچستان اور گلگت بلتستان کی آزادی کی بھی باتیں شروع کردیں۔ دہشت گردی کے نام سے پاکستان کے خلاف واویلا کرکے پہلے دباؤمیں رکھنے کی کوشش کی۔ جب پاک افواج نے دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن آپریشن ضرب عضب شروع کیا تو بھارت نے ایک جانب مشرقی سرحد پر بلااشتعال فائرنگ اور شیلنگ کا سلسلہ وقفے وقفے سے شروع کردیا تو دوسری جانب لائن آف کنٹرول پر بھی جارحیت شروع کردی۔ اسی پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ افغانستان کے ذریعے مغربی سرحد پر بھی پاک فوج کو مصروف کرنے کی کوشش کی۔ یہ پاک فوج کی پیشہ ورانہ مہارت اور اعلیٰ صلاحیتوں کا ہی مظہر ہے کہ بھارت کی جانب سے بیک وقت کھولے گئے کئی محاذوں پر افواج پاکستان نے دشمن کو دندان شکن جواب دیا۔ اجیت دوول ڈاکٹرائن کہ ’’پاکستان میں گھس کر اسے تباہ کرو‘‘ کو عملی طور پر پاک فوج نے اپنی مؤثر حکمتِ عملی سے توڑا ہے۔
مودی حکومت نے پاکستان کے خلاف دوسرا بڑا محاذ سفارتی سطح پر کھولا ، جس کا مقصد عالمی برادری میں پاکستان کو تنہا کرنا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے پاکستان کے تمام دوست جن میں چین، سعودی عرب، ایران، عرب امارات، افغانستان، وسطی ایشیائی ریاستیں وغیرہ شامل ہیں، ان تمام ممالک سے بھارت نے نہ صرف تجارت اور تعلقات کو فروغ دیا ہے بلکہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے خلاف چین میں جاکرا حتجاج کیا ہے۔ اسی طرح پاکستان کو توانائی کے بحران میں مبتلا رکھنے کے لئے پہلے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے میں سے نکل کراسے ناکام بنانے کی کوشش کی اور پھر ترکمانستان، افغانستان، پاکستان، انڈیاگیس منصوبے میں شامل ہوکر افغانستان سے پاکستان کے اندر دراندازی میں اضافہ کردیا۔ پاک افغان کشیدگی بڑھانے کے جہاں دیگر مقاصد ہیں وہاں ایک بڑا بھارتی مقصد یہ بھی ہے کہ ترکمانستان، افغانستان، پاکستان، انڈیا منصوبہ بھی کھٹائی میں پڑے۔ اگر کامیاب بھی ہو تو بھی پاکستان کی توانائی سپلائی لائن افغانستان میں بھارتی پیر کے نیچے رہے۔ اسی طرح بھارت نے سعودی عرب اور عرب امارات کے ساتھ کئی معاہدے کئے۔ بھارت نے بہار میں سرمایہ کاری اور ایران، افغانستان، بھارت کوریڈور بناکر وسطی ایشیائی ریاستوں تک رسائی کا وہ منصوبہ شروع کیا،جس میں پاکستان شامل نہیں ، حالانکہ وسطی ایشیائی ریاستوں کا سہل اور محفوظ راستہ پاکستان افغانستان سے گزرتا ہے۔ جس طرح پاک افغان تعلقات میں خرابی کے لئے بھارت افغانستان میں سرگرم ہے، اسی طرح پاک ایران تعلقات میں خرابی پیدا کرنے کا بھی کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر حسن روحانی پاکستان کے دورے پر پاک چین اقتصادی کوریڈور میں شامل ہونے کی خواہش لے کر آئے تھے۔ عین اسی وقت کلبھوشن کا معاملہ سامنے آیا اور ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ بھارت نے نہ صرف کلبھوشن کو اپنا جاسوس تسلیم کیا بلکہ فوری طور پر اس کی فیملی کے افراد بھی میڈیا پر لے آیا۔میڈیا کے ذریعے تاثر یہ دینا مقصود تھا کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے خلاف ایران اور بھارت ایک ہیں، حالانکہ بلوچستان کے معاملے پر پاکستان اور ایران ایک جبکہ بھارت اور اسرائیل مخالف صفحہ پر موجود ہیں، جبکہ گوادر اورسی پیک کا بنیادی تعلق بلوچستان سے ہے۔ جس طرح پاکستانی بلوچستان میں بھارت مداخلت کررہا ہے اور یہاں بغاوت کا بیج بونے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے ، اسی طرح ایرانی بلوچستان کے خلاف اسرائیل سرگرم ہے اور اس مقصد کے لئے بھارتی زمین استعمال کررہا ہے۔حال ہی میں اسرائیلی صدر نے بھارت کا طویل ترین دورہ بھی کیا ہے۔چنانچہ سی پیک میں شامل ہونے کی ایرانی خواہش کا نہ صرف چین نے خیر مقدم کیا بلکہ پاکستان نے بھی اسے خوش آئند قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ چند روز قبل سی پیک کی آفیشل ویب سائٹ کی افتتاحی تقریب میں چین اور ایران کے سفیروں نے خصوصی شرکت کی۔
سی پیک کو ناکام بنانے اور اس کی سکیورٹی مشکوک کرنے کے لئے دہشت گردانہ حملے جاری ہیں۔ چین سے گوادر کے لئے پہلے برآمد ی قافلے کی روانگی سے چار روز قبل پولیس ٹریننگ سکول کوئٹہ میں دہشت گردی کا اندوہناک سانحہ پیش آیا۔ برآمدی قافلے کے گوادر پہنچ جانے کے اگلے روز اور گوادر کی افتتاحی تقریب سے محض ایک روز قبل دربار شاہ نورانی میں خودکش حملہ ہوا۔ دہشت گردی کے دونوں واقعات میں بھارتی عنصر براہ راست ملوث پایا گیا ہے۔ اسی طرح پشاور، فاٹا، کراچی و ملک کے دیگر شہروں میں پیش آنے والے سانحات کا سرا افغانستان میں موجود کالعدم تنظیموں سے جاملتا ہے۔ جو بھارتی چھتر چھایا میں پاکستان کے خلاف دہشت گردی کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں پاک فوج کے جوانوں نے اسی عرصے میں آبی حدود کی خلاف ورزی کرنے والی سب میرین کا راستہ روکا اور پاک فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے ایک بھارتی ڈرون کو بھی مار گرایا۔
تیسرا قبیح عمل مقبوضہ وادی میں ریاستی طاقت کے حیوانی استعمال کی صورت میں بھارت سرانجام دے رہا ہے۔ مقبوضہ وادی میں برہان وانی کی المناک شہادت کے بعد کشمیری نوجوانوں کی جو تحریک آزادی کے نعرے کے ساتھ اٹھی اس کو کچلنے کے لئے بھارت ظلم و جبر کی تمام حدیں پار کرچکا ہے۔ وانی کی شہادت کے بعد بیسیوں نوجوان شہید، سینکڑوں نوجوان، بچے، خواتین پیلٹ گن کا نشانہ بن کر اپنی بینائی کھوچکے ہیں۔ نوجوان بچیاں، مستورات لاپتا ہیں۔ سینکڑوں نوجوان، طالب علم زیر حراست ہیں۔ بجائے اس ظلم پر شرمندگی محسوس کرنے کے بھارت مقبوضہ وادی میں آزادی کی اس تحریک کو بھی پاک بھارت مسئلہ بنا کر پیش کرنے میں مصروف عمل ہے۔
پیش کردہ حالات و واقعات اتنے پرانے نہیں ہیں کہ جو اس سے قبل کسی عالمی یا علاقائی فورم پر پاکستان کی جانب سے پیش نہ کئے گئے ہوں۔ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں بھارت کی جانب سے سفارتی آداب کی خلاف ورزی سے بڑھ کر مجرمانہ رویہ اپنانے کی وجہ یوں بھی سمجھ میں آتی ہے کہ بھارت’’الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے ‘‘ کے مصداق اپنے جرائم پر پردہ ڈال کے پاکستان کو ’’مجرم‘‘ثابت کرنے پر کمربستہ ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ پاکستانی مشیر خارجہ کو حبس بے جا میں رکھا نہ تو انہیں ترجمان سے ملنے دیا گیا اور نہ ہی گنے چنے موجود پاکستانی صحافیوں سے۔ حالانکہ ابھی نریندر مودی کو پاکستانی حکمرانوں کی میزبانی سے لطف اندوز ہوئے پورا ایک سال بھی مکمل نہیں ہواتھا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سب سے پہلے ہم خود یہ باور کریں کہ بھارت کی پاکستان دشمنی ایک حقیقت ہے۔ پاکستان کو بھارت کی جانب سے مستقل، طویل المدت اور سنجیدہ خطرے کا سامنا ہے۔ جس سے نمٹنے کے لئے عسکری ، سیاسی قوتوں کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی ، میڈیا کو بھی اپنا مستقل اور ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا ہوگا۔ پاکستان کو مربوط، جامع ،مستقل اور طویل المدت پالیسی اپنا نی ہوگی۔ سول ملٹری قیادت کو مشترکہ حکمت عملی اپنانی ہوگی۔ دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے عسکری قوت کو مضبوط سے مضبوط تر کرنا ہوگا۔ سول انتظامیہ و پولیس کے ذریعے اندرونی انتشاریوں سے سخت رویہ اپنا نا ہوگا۔ بھارتی میڈیا ایک بمبئی سانحہ کو لے کر دنیا میں پاکستان دشمنی کا ڈھول پیٹ رہا ہے جبکہ ہمارا آزاد میڈیا سمجھوتہ ایکسپریس، مالگاؤں کویاد کرنا تو درکنار اے پی ایس، سانحہ چارسدہ یونیورسٹی، کوئٹہ کچہری حملہ، پولیس لائن حملے ودیگر بیسیوں ایسے سانحات کو فراموش کرچکا ہے جن میں بھارت براہِ راست ملوث تھا۔ ہمارے میڈیا کو بھی سلامتی کے امور میں قدم بہ قدم ملک و قوم کی ترجمانی کرنی ہوگی۔ بیرونی ممالک میں موجود ہمارے سفارتخانوں کو بھی موثرانداز میں اپنا نقطہ نظر دنیا پر واضح کرنا ہوگا، اور دنیاکو یہ باور کرانا ہوگا کہ پاکستان میں جاری دہشت گردی کی سرپرستی بھارت کررہا ہے اور پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بیش بہا قربانی دے رہا ہے۔ عمومی طور پر بھارت کے حوالے سے ہماری پالیسی ردعمل یاسستی کا شکار رہتی ہے مگر اب اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ ردعمل سے نکل کر سفارتی و سیاسی محاذپر پیش قدمی کریں۔ بھارتی رعونت اور جارحیت کے خلاف ایک جامع، مربوط اور طویل المدت پالیسی ترتیب دیں جس پر صبر و تحمل سے عمل پیرا ہوکر بھارتی عزائم کو ناکام بنایا جائے۔(آمین)

۔

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -