’’قصور کے ایک بوسیدہ گھر سے بریانی کے ڈبے برآمد جس پر زینب کے ۔ ۔ ۔‘‘ تحقیقات میں اب تک کی سب سے بڑی پیش رفت، اہم ترین خبرآگئی

’’قصور کے ایک بوسیدہ گھر سے بریانی کے ڈبے برآمد جس پر زینب کے ۔ ۔ ۔‘‘ ...
’’قصور کے ایک بوسیدہ گھر سے بریانی کے ڈبے برآمد جس پر زینب کے ۔ ۔ ۔‘‘ تحقیقات میں اب تک کی سب سے بڑی پیش رفت، اہم ترین خبرآگئی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

قصور (ویب ڈیسک) قصور میں اغواءکے بعد درندگی کا نشانہ بننے اور بہیمانہ طریقے سے قتل کر دی جانیوالی سات سالہ زینب امین کو قتل کرنیوالے ملزم کے متعلق تفتیشی ٹیموں کو اہم شواہد مل گئے ہیں ، قصور کے ایک بوسیدہ مکان سے بریانی کے ڈبے بھی ملے ہیں جن پر زینب کی انگلیوں کے نشانات ہیں ۔ 

تفصیلات کےمطابق دو روز قبل پولیس نے لاہور میں بھٹہ چوک کے علاقہ سے عمر فاروق ولد محمد اشرف نامی جس ملزم کو گرفتار کیا تھا اس ملزم نے گرفتاری کے فوری بعد جرم کا اعتراف کر لیا تھا جس کی اطلاع پنجاب حکومت کی اعلیٰ ترین قیادت کو دی گئی تاہم پنجاب حکومت کی طرف سے ملزمان کی پوری چین پکڑنے اور دیگر معلومات کے مکمل حصول تک اس خبر کو جاری کرنے سے روک دیا گیا تھا جس کے بعد پولیس نے اس کچڑاکنڈی جہاں سے زینب کی نعش ملی تھی سے چند سو گز کے فاصلہ پر ایک بوسیدہ مکان سے لاہور سے گرفتار ملزم کی نشاندہی پر بابا رانجھا نامی شخص کو گرفتار کیا ہے ۔

روزنامہ خبریں کے مطابق  بابا رانجھا کا یہ بوسیدہ مکان دو کمروں پر مشتمل ہے اور بتایا یہ گیا ہے کہ بابا رانجھا اپنے مکان کا ایک کمرہ مشکوک لوگوں کو کرائے پر دیا کرتا تھا، اسی طرح آصف نامی ایک ملزم کو بھی پولیس نے حراست میں لیا ہے جن کے ڈی این اے کیے گئے ہیں جس کی رپورٹ کل متوقع ہے۔

پولیس کی تفتیشی ٹیموں کا خیال ہے کہ ملزم عمر فاروق نے زینب کو اغواءکرنے کے بعد اسی مکان کے اندر رکھا اور وہیں اس کے ساتھ زیادتی کرنے کے علاوہ اسے ہلاک کیا گیا ،پولیس نے مذکورہ کمرے سے ملنے والے کھانے کے برتن اور کھانے کی باقی ماندہ بچی ہوئی چیزیں بھی قبضہ میں لی ہیں۔ بریانی کے ڈبوں پر زینب کے ہاتھوں کے نشان ملے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملزمان نے زیادتی سے پہلے مقتولہ کو کھانا بھی کھلایا تھا جس کے متعلق ایک ذمے دار افسر کا خیال ہے کہ اس سے پولیس کی تفتیش میں بہت پیش رفت ہوئی ہے۔

رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا کہ  پولیس نے اس کے علاوہ بھی آٹھ ملزمان کو حراست میں لے رکھا ہے ، جن سے متعلق پولیس کے پاس ٹھوس ثبوت ہیں اور یہ گرفتار افراد بھی مختلف واقعات میں ملوث بتائے جارہے ہیں تاہم مذکورہ آفیسر کے مطابق زینب قتل کیس میں عمر فاروق آصف اور بابا رانجھا نامی شخص ایک دوسرے کے متعلق آگاہ چلے آرہے ہیں اور پولیس دیگر ملزمان کے علاوہ ان تینوں ملزمان سے تفتیش کے عمل کو زیادہ اہمیت دے رہی ہے۔

قصور میں ڈی این اے ٹیسٹ کرنے کے لیے ڈی پی او آفس کے علاوہ ایک موبائل ٹیم بھی کام کررہی ہے، یہ ٹیم ایسے افراد کے ڈی این اے لے رہی ہے جو قصور میں موجود نہیں ہیں  تفتیشی عمل میں شامل ایک اور آفیسر کے مطابق پولیس کے علاوہ دیگر ادارے اور ایجنسیاں اس کام میں جوائنٹ انویسٹی گیشن کر رہی ہیں،پولیس اور دیگر ادارے آئندہ چوبیس گھنٹوں میں اس پوزیشن میں ہوں گے کہ وہ ملزمان کے ساتھ ساتھ حاصل ہونیوالے تمام ثبوت میڈیا کے سامنے پیش کر سکیں گے ۔

انہی ذرائع کے مطابق گرفتار کیے گئے ملزم عمر فاروق کا تعلق لاہور کینٹ سے ہے جو 1993ءمیں پیدا ہوا اور اسکے والد کا نام محمد اشرف ہے زینب کا پوسٹمارٹم کرنیوالی ٹیم کے علاوہ تفتیشی ٹیم کے ایک آفیسر کا بھی یہ خیال ہے کہ زینب اغواءکے بعد تین روز تک زندہ رہی اور اسکے ساتھ ایک سے زیادہ ملزمان زیادتی کرتے رہے۔