تنقید، مگر کب؟
ادیب حضرات کے نزدیک تو تنقید بہت مشکل تر کام ہے اور ادب کے دائرہ میں جو حضرات یہ کام کرتے اور نقاد کہلاتے ہیں وہ خود بہت صاحبِ علم ہوتے اور خود کو بھی تنقید کے لئے تیار رکھتے ہیں،لیکن ہمارے یہاں یہ سب سے آسان کام ہے، خصوصاً سیاسی میدان میں تو ہر کوئی خود کو ماہر تصور کرتا اور جو مُنہ میں آئے کہہ دیتا ہے، تاہم اکثر حضرات بہت سیانے بھی ہوتے ہیں،وہ ایسا کرتے اور دوسروں کے ہر کام میں کیڑے نکالتے ہیں،لیکن موقع دیکھ لیتے کہ خود ان کی گرفت نہ ہو، اِس کے باوجود بعض حضرات خود کو زیادہ دلیر یا باعلم جان کر تنقید کر گزرتے اور نام لئے بغیر استعاری انداز سے ایسا کرتے ہیں،کچھ ایسا ہی ہمارے مُلک میں گزشتہ دِنوں ہوتا رہا اور اب یکایک تمام بندھن ٹوٹتے نظر آئے اور نکتہ چینی کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ محترم سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار صاحب جب کرسئ عدالت پر تھے تو بہت سے حضرات جزبز ہوتے اور تنقید کرتے تھے تاہم یہ تنقید ان کی محفلوں تک تھی،یا پھر سوشل میڈیا پر استعاری انداز میں کچھ کہا جاتا تھا، اب وہ ریٹائر ہوئے ہیں تو معترض حضرات نے ایک دن بھی انتظار نہیں کیا اور شروع ہو گئے، ہم حیران ہیں کہ ان حضرات نے اُس وقت حوصلہ مندی کا مظاہرہ کیوں نہ کیا، جب چیف جسٹس یہ سب کر رہے تھے،اُس وقت اِن حضرات کو بھی خوف ہو گا کہ سو و موٹو ان پر بھی نہ آ گرے۔
بہرحال چیف جسٹس اپنا عہد پورا کر کے بروقت ریٹائر ہو گئے کہ عدلیہ کی یہ روائت بہت پختہ ہے یہاں باقاعدہ سنیارٹی لسٹ تیار ہوتی اور اِس کے مطابق ریٹائرمنٹ ہوتی رہتی ہے۔
جسٹس میاں ثاقب نثار کا دور بڑا ہنگامہ خیز تھا،انہوں نے عوامی حقوق کے حوالے سے بہت کام کیا، سچ جانئے تو ہسپتالوں کے دورے اور سخت رویہ بہت لوگوں کو کھلتا تھا،لیکن مجموعی طور پر صورتِ حال اُن کے حق میں تھی اور چیف تیرے جاں نثار بے شمار، بے شمار کے نعرے بھی لگتے تھے،میاں ثاقب نثار نے تیزی سے سوو موٹو کارروائیاں کیں، بہت سے حکام کو طلب بھی کیا جو ایک خاص طبقے کو بُرا لگتا تھا، لیکن مجموعی طور پر ان کو عوامی سطح پر پذیرائی ملتی تھی، ہم بھی یہ سمجھتے ہیں کہ جج خود نہیں بولتے ان کے فیصلے بولتے ہیں،لیکن معاشرے کی جو صورتِ حال اب ہے اس میں محترم جج صاحب کا رویہ مجموعی طور پر درست ہی جانا اور پسند کیا گیا، ان کی عدالت میں جب بڑے لوگ(سیاست دان+ افسر) پیش ہو کر اپنی کوتاہیوں کو تسلیم کرتے اور معذرت کرتے تھے تو عوام الناس کے لئے طمانیت کا باعث ہوتی تھی۔
ہمیں اِس ساری کارروائی کے حوالے سے نہ تو کوئی بہت بڑا اعتراض پہلے تھا اور نہ اب ہے،لیکن اپنے تجربے کے مطابق ہم جانتے تھے کہ ہم من حیث القوم جس مقام پر جا چکے وہاں محترم چیف صاحب کوئی بڑا فائدہ نہ پہنچا سکیں گے،کیونکہ سوال نظام اور مشینری کا ہے۔
وہ احکام دیتے اور بڑے باخبر بھی تھے،لیکن عمل درآمد والے جو چکر دینے کے ماہر ہیں یہاں بھی کام دکھا دیتے تھے اور عدالتی احکام کے حوالے سے ایسا کام کرتے کہ پیش ہو کر شاباش لے لیتے تھے اور پھر پرنالہ وہیں رکھتے جہاں سے ہٹانے کے لئے کہا جاتا تھا۔
محترم جج صاحب نے ہسپتالوں کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے اپنا بڑا وقت خرچ کیا،لیکن وہاں کوئی تبدیلی نہ آ سکی کہ تبدیلی تو حکام کے ذریعے ممکن ہے،جو ٹس سے مس ہونا نہیں جانتے، آج بھی ہسپتالوں کی حالت جوں کی توں ہے، نہ ادویات ملتی ہیں اور نہ ہی جدید آلات جراحی مکمل طور پر موجود ہیں،جو مشینری خراب ہے وہ خراب ہی چلی آ رہی ہے۔
یہ حقیقت اپنی جگہ پر کہ عام شہریوں نے بہت سی امیدیں وابستہ کر لی تھیں کہ ’’نکی جئی جان، دُکھ لکھ تے کروڑ وے‘‘ والا مسئلہ ہے، جب کوئی ریلیف ملتی تھی تو شہریوں کے سینے میں ٹھنڈک پڑتی تھی۔
سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اپنا عہد پورا کر کے تشریف لے گئے، ان کے جانشین مسٹر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے حلف اُٹھا لیا اور کام بھی شروع کر دیا ہے۔ دُنیا میں سبھی کس و ناکس کے مزاج یکساں نہیں ہوتے، ہر ایک کا اپنا مزاج اور اپنا طریقہ کار ہے، چنانچہ مسٹر جسٹس آصف سعید کھوسہ کا طریق بھی اپنا ہو گا، تاہم ایک بات یاد رہے اور ہمیں یقین بھی ہے کہ کسی گناہ گار کو تو ریلیف نہیں ملے گا۔
البتہ سوو موٹو اور جوڈیشنل ایکٹو ازم نظر نہیں آئے گا کہ چیف جسٹس نے پہلے ہی کہہ دیا کہ اس اختیار کا کم سے کم استعمال ہو گا۔یہ خوش آئند بات ہے کہ چیف جسٹس، مسٹر جسٹس آصف سعید کھوسہ کو بھی مقدمات کی بھرمار اور فیصلوں میں تاخیر کا احساس شدت سے ہے اور انہوں نے اظہار بھی کیا ہے، توقع کرنا چاہئے کہ نئے چیف جسٹس اپنے بیان کے مطابق عدالتی نظام کو بہتر بنانے میں کامیاب ہوں گے، مقدمات کی بھرمار ختم ہو گی اور سب کو انصاف ملنا شروع ہو گا۔
معاشرے میں جو عدم استحکام اور بے چینی ہے اس میں ایک بڑی وجہ انصاف میں تاخیر اور زبردستوں کا زیر دستوں پر ظلم بھی ہے۔ یہ اصل کام تو ریاست کا ہے اور عوامی بنیادی حقوق کا تحفظ بھی ریاست ہی کی ذمہ داری ہے اور ریاست کی حکمران حکومت پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ عوامی حقوق کا پورا پورا خیال رکھے، دشنام طرازی ترک کر کے کام شروع کرے اور عوام کو ریلیف دیا جائے۔اِس سلسلے میں ہمیں نئے چیف جسٹس سے بھی بہت توقعات ہیں۔