سابق چیف جسٹس کا ورثہ

سابق چیف جسٹس کا ورثہ
سابق چیف جسٹس کا ورثہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

چیف جسٹس (اب سابق) ثاقب نثار صاحب اپنا دو سالہ بھرپور متحرک اور تاریخ ساز عہد پورا کرکے ریٹائر ہو گئے یہ دور کئی مثبت حوالوں سے یاد رکھا جائے گا اور ہاں سوال بھی بہت اٹھائے جائیں گے۔انہوں نے انصاف کی فراہمی، دیرینہ عوامی مسائل کے حل کے لئے اقدامات، صاف پانی کی فراہمی، ہسپتالوں میں صحت عامہ کی بہتر سہولیات، عوام دوست ایجنڈے، بے سہارا، غریب اور پسے ہوئے طبقات کی دادرسی اور طاقتور لوگوں کی جواب طلبی کر کے بہت کم وقت میں لوگوں کے دل میں جگہ بنائی اور وہ آج بھی مقبول عام ہیں۔غریب اور بے سہارا لوگوں نے جب بھی ان کے در پر دستک دی انہوں نے انصاف کی فراہمی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔

طاقتور لوگوں کو کٹہرے میں لا کر جوابدہ ٹھہرایا۔ اثرو رسوخ رکھنے والی طاقت ور، کاروباری شخصیات کو پہلی بار عدالتوں کے چکر لگانے پڑے اور بطور ملزم کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑا۔

بے نامی اکاؤنٹس کیس میں جے آئی ٹی بنا کر حقائق کا اس طرح کھوج لگوایا کہ بہت سے طاقتور لوگ اپنی ساکھ، اقتدار اور مال بچانے کے لئے بے چین ہوکر ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔تجاوزات کے خلاف ملک گیر مہم سے غیر قانونی تعمیرات کو گرا کر چوک، چوراہے، سڑکیں، راستے اور یہاں تک کہ ریلوے ٹریک تجاوزات سے صاف کروائے گئے۔
ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے کے معاملہ میں وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کی سپریم کورٹ میں جواب طلبی کر کے، علیمہ خان کی دوبئی میں جائیداد کے معاملے کی تحقیقات کروا کر خاص طور پر آئی جی اسلام آباد کے تبادلے اور ایک غریب خاندان کے ساتھ نا انصافی پر اعظم سواتی کے کردار کو نہ صرف بے نقاب کیا، بلکہ اعظم سواتی کو سبق سکھا کر حکومت کے وزراء اور طاقتور لوگوں پر واضح کردیا کہ قانون سے کوئی بالاتر نہیں ہے۔پاکستان میں پانی کی کمی اور آنے والے وقتوں میں پانی کے سنگین بحران کا نا صر ف ادراک کیا، بلکہ پانی کا کفایت شعارانہ استعمال، صنعتی اور گھریلو فاسد اور زہریلے مادوں سے بچاؤ کے اقدامات اور نئے ذخائر بنانے کے لئے عوام میں شعور اجاگر کیا۔

سپریم کورٹ کی نگرانی میں ڈیم فنڈ قائم کیا اور عطیات اکٹھا کرنے کے لئے اندرون اور بیرون ملک میں مہم چلائی۔ ہسپتالوں کی بہتری ، سکولوں میں یکساں نصاب رائج کرنے اور پرائیویٹ سکولوں میں فیسوں کی کمی اورحکومتی امور کی آئین اور قانون کے عین مطابق انجام دہی کے لئے اقدام اٹھائے تو سب کو امید ہوچلی تھی کہ وہ اپنے بنیادی کام یعنی ماتحت عدالتوں کی حالت زار پر توجہ دیں گے۔
عوام کا براہ راست اور آئے روز واسطہ انہی ماتحت عدالتوں سے پڑتا جہاں سے انصاف کے لئے بعض اوقات دہائیوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ تقریبا دو ملین کیس آج بھی شنوائی کے منتظر ہیں۔ جہاں آج بھی انصاف کے حصول کے لئے اتنے ماہ و سال چاہئیں کہ عمر خضر بھی کم پڑ جائے اور اتنے خزانے چاہئیں کہ قارون کے خزانوں سے بھی کام نہ چلے۔

گویا انصاف بکتا ہے۔جس طرح آج سپریم کورٹ اور ماتحت عدالتیں انصاف کی فراہمی میں دو مختلف دنیاؤں کا نظارہ پیش کرتی ہیں اسی طرح وکلاء کو بھی دو بڑے گروپس میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

ایک وہ جنہوں نے عدالت عالیہ کے معزول ججوں کی بحالی کے لئے وکلاء تحریک چلائی، فوجی آمر کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ڈٹ کر کھڑے ہوگئے، جن کی بے پناہ قربانیوں، صعوبتوں کو برداشت کرنے، اولوالعزمی اور استقامت سے ڈٹے رہنے کے باعث نا صر ف معزز جج صاحبان بحال ہوئے، بلکہ عدالت عالیہ کی ساکھ اور وقار کے ساتھ ساتھ عوام کی امید اور اعتماد بھی بحال ہوا۔
مگر دوسری طرف آج بھی وکلاء کا ایک چھوٹا سا ایسا گروہ موجود ہے جو معزز جج صاحبان کو بھری عدالتوں میں گالیاں دیتا ہے، معزز جج صاحبان پر جو تے اچھالتا ہے، پولیس، سیکیورٹی اہلکاروں اور صحافیوں کے داخلے پر عدالتوں میں پابندی لگاتا ہے۔

پولیس والوں، عدالتوں کو تضحیک اور تشدد کا نشانہ بناتا ہے۔ موٹروے، ہسپتالوں، پارکنگ، پارکوں، غرض کہیں بھی یہ گالم گلوچ، فساد اور دینگا مشتی سے باز نہیں آتے۔ اس چھوٹے سے گروہ نے عدالتوں کے ماحول اور وکلاء کے معزز پیشہ کی شبیہ کو بری طرح مجروح کیا ہے۔

سابق چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب کے دور میں کئی بار ان وکلاء کی جج صاحبان سے بدتمیزی، پولیس اور عام شہری پر تشدد اخبارات اور میڈیا کی زینت بنا ہے ،مگر بوجہ نا کوئی نوٹس لیا گیا ہے اور نہ ہی کوئی ایسا اقدام اٹھایا گیا ہے کہ جس سے بہتری ہو۔

کوئی بھی شخصیت کتنا ہی بااثر، طاقتور اور انقلابی کیوں نہ ہو اس کی ذات کا اثر بہت محدود مدت کے لئے ہوتا ہے تاوقتیکہ وہ شخصیت اپنے پیچھے ایک موثر اور متحرک نظام چھوڑ جائے جو اس کے مشن کو مشکلات کے باوجود آگے بڑھائے۔

جہاں جسٹس صاحب کے بہترین اقدامات کا تذکرہ ہوگا وہاں ماتحت عدالتوں کی بہتری اور وکلا گردی کے سدباب کے لئے ضروری اقدامات نہ اٹھانے کا سوال ضرور ہوگا۔

مزید :

رائے -کالم -