اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 80
ایک مسلمان بنیا حضرت بختیارؒ کاکی کے پڑوس میں رہتا تھا۔ آپ اس سے اکثر قرض لے لیا کرتے اور جب کہیں سے کوئی ایسا نذرانہ مل جاتا جس کو حلال سمجھ کر آپ قبول کرلیتے تو اس کا قرضہ ادا کردیتے۔
ایک دن بیٹھے بیٹھے آپ کو خیال آیا کہ قرض کسی سے بھی نہیں لینا چاہیے اور کوئی بھی نذر قبول نہ کرنا چاہیے۔ یہ بری بات ہے۔ اس کے بعد واقعی آپ نے ایسا ہی کیا ۔اس کے بعد اللہ کے حکم سے روزانہ آپ کی جائے نماز کے کونے کے نیچے سے ایک اتنی بڑی روٹی نکلتی جو پورے خاندان کا پیٹ بھرنے کے لیے کافی ہوجاتی، کچھ دنوں کے بعد بنیے نے سوچا کہ شاید خواجہ صاحب مجھ سے نالاں ہوگئے ہیں جو قرض لینے نہیں آتے۔ چنانچہ اس نے اپنی بیوی کو آپ کے گھر حال معلوم کرنے کے لیے بھیجا۔ تب یہ بات معلوم ہوئی اور اسی روز سے لوگوں نے آپ کو بختیار کاکی ؒ کہنا شروع کردیا کیونکہ کاک کے معنی روغنی روٹی کے ہیں۔ یہ لفظ کاکی کی دوسری وجہ تسمیہ ہے۔
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 79 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
***
حضرت مولانا دینؒ بھیروی کے ہاں ایک جنّ قرآن پاک پڑھنے آیاکرتا تھا۔ ایک بار وہ جن آیا تو جاتے ہوئے دو روپے ریزگاری کی شکل میں بطور ہدیہ دے گیا۔ آپ نے وہ ریزگاری سنبھال کر رکھ لی۔
دوسرے روز ایک بوڑھی عورت روتی ہوئی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ سے کہنے لگی کہ ’’حضرت! میں تو لٹ گئی۔‘‘
آپ کے استفسار پر اس نے عرض کیا کہ مَیں نے محنت و مشقت کرکے بمشکل دو روپے جمع کیے تھے۔ وہ مَیں نے ایک مٹی کے پیالے میں رکھے ہوئے تھے۔ مگر وہ رقم آج غائب ہے۔ مَیں حیران ہوں کہ تالہ ٹوٹے بغیر وہ رقم جو ریزگاری کی شکل میں تھی غائب کیسے ہوگئی؟‘‘
بوڑھی عورت کی اس بات پر آپ سمجھ گئے کہ یہ کام اس شاگرد جن کے سوا اور کسی کا نہیں ہوسکا وہی اس بوڑھی عورت کے دو روپے چرا کر بطور ہدیہ دے گیا ہے۔
اس پر آپ نے اس عورت سے فرمایا ’’تم جاؤ مائی! اللہ رحم کرے گا۔ تمہاری رقم تجھے واپس اسی پیالہ میں رکھی مل جائے گی۔‘‘ وہ عورت چلی گئی۔ اس کے بعد جب وہ جنّ آیا تو آپ نے اس سے فرمایا ’’تو اچھا شاگر دہے ، تجھ جیسے چور جن پر تعلیم دین کا کیا اثر ہوسکتاہے؟ تو نے مجھے جو ہدیہ دیا ہے وہ بھی چوری کے مال کا۔ بھلا میں نے تم سے کب کسی ہدیے کا مطالبہ کیا تھا۔ جا رقم لے جا اور جہاں سے تو اسے اٹھا کر لایا ہے وہیں رکھ آ اور آئندہ میرے پاس پڑھنے بھی نہ آنا۔‘‘ چنانچہ اس پر جن نے وہ رقم لی اوربڑھیا کے پیالے میں جارکھی۔ دوسرے روز بوڑھی عورت آپ کے پاس آئی اور دعائیں دیتی ہوئی بولی کہ حضرت آپ کی زبان بڑی برکت والی ہے۔ وہ رقم مجھے پیالے میں پڑی مل گئی ہے۔
اس عورت کے بعد وہ جن حاضر ہوا اور اپنی غلطی کی معافی مانگتے ہوئے عہد کیا کہ آئندہ وہ اس قسم کا کام کبھی نہیں کرے گا۔ جن کی توبہ اور معافی پر آپ نے اسے دوبارہ پڑھانا شروع کردیا۔
(آج سے ستر اسی سال پہلے دو روپے بڑی حیثیت رکھتے تھے۔)
***
حضرت احمد بن حنبلؒ دریا کے کنارے وضو فرمارہے تھے اور وہیں ایک شخص بلندی پر بیٹھا ہوا وضو کررہا تھا لیکن آپ کو دیکھ کر تعظیماً نیچے آگیا۔
اس نے کہا ’’کہ خداوندتعالیٰ نے محض اس تعظیم کی وجہ سے جو مَیں نے امام احمد بن حنبلؒ کے وضو کرتے وقت کی تھی، مغفرت فرمادی۔‘‘
کچھ بچے گیند کھیل رہے تھے۔ گیند اتفاق سے امام ابو حنیفہؒ کی مجلس میں آپ ہی کے سامنے آگری اور بچوں میں سے خوف کے مارے کسی میں ہمت نہ ہوئی کہ آپ کے سامنے سے گیند اٹھالے لیکن ایک لڑکے نے بھاگ کر جب آپ کے سامنے سے گیند اٹھائی، تو آپ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا ’’یہ لڑکا حرامی ہے کیونکہ اس میں حیا کا مادہ نہیں ہے۔‘‘ اور جب لڑکے کے بارے میں پتہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ واقعی حرامی ہے۔
***
حضرت شفیق بلخیؒ فرماتے ہیں کہ مکہ معظمہ کی راہ میں مجھے ایک معذور شخص ملا جو گھٹنوں کے بل زمین پر چلتا تھا۔ مَیں نے اس سے پوچھا’’کہاں سے آرہے ہو؟‘‘
ا س نے جواب دیا ’’سمر قند سے‘‘
مَیں نے کہا ’’کتنی مدت تم کو راہ میں گذری؟‘‘
اس نے جواب دیا ’’کچھ اوپر دس برس‘‘
اس پر مَیں نے حیران نظروں سے اس کی جانب دیکھا۔ پھر اس نے مجھ سے کہا ’’اے شفیق! میرا سفر دور درازکا ہے مگر میرا شوق اس سفر کی منزل کو قریب کررہا ہے ضعف ضرور ہے لیکن میرا مالک مجھے اٹھائے لیے جارہا ہے۔ اے شفیق اس میں کوئی تعجب نہیں کہ بندہ ضعیف کو اس کا مولا مہربان لے جاوے۔‘‘(جاری ہے )