پاکستان کا امریکہ،ایران کشید گی کم کرنے کیلئے مصالحتی کردار قابل قدر: واشنگٹن ذرائع
واشنگٹن(اظہر زمان،تجزیاتی رپورٹ) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ایران اور سعودی عرب کے بعد 15 تا 17 جنوری تک امریکہ کا مختصر مگر ہنگامہ پرور دورہ مکمل کر کے وطن واپس جا چکے ہیں۔ پہلے مرحلے میں انہوں نے نیویارک میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتینو گوئرس اور جنرل اسمبلی کے صدر تیجانی محمد باند ے سے الگ الگ ملاقاتیں کیں جس دوران مسئلہ کشمیر اور مقبوضہ وادی کی تازہ ترین صورتحال پر غور کرنے کیلئے ایک مرتبہ پھر سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا۔ واشنگٹن میں انہوں نے اپنے امریکی ہم منصب مائیک پومپیو، وائٹ ہاؤس کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر رابرٹ اوبرائن، نائب وزیر دفاع جان روڈ کے علاوہ کیپٹل ہل میں پاکستان کا کس، کانگریس اور سینیٹ کے دیگر ارکان سے انتہائی مفید بات چیت کی۔ انہوں نے پاکستانی سفارتخانے میں پاکستانی کمیونٹی کے چیدہ چیدہ ارکان سے خطاب بھی کیا، پاکستانی اور بین الاقوامی میڈیا کو الگ الگ بریفنگ بھی دی۔ پاکستانی حکام کے مطابق خطے میں بدلتی صورتحال کے تنا ظر میں یہ دورہ ایک اہم سفارتی کامیابی قرار پایا اور اسے ذاتی حلقوں میں بہت پذیرائی ملی ہے۔ یہ سب درست ہو سکتا ہے اور یہ انڈی پینڈنٹ مبصراس میں واشنگٹن ذرائع کے حوالے سے یہ اضافہ کرنا چاہتا ہے کہ پاکستان امریکہ ایران کشیدگی کم کرنے کیلئے جو مصالحانہ کردار ادا کر رہا ہے اسے یہاں قدر کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے بجا طور پر کہا ہے کہ ایران اور امریکہ کے حوالے سے پاکستان ثالثی نہیں کر رہا کیونکہ ثالث ہونے کیلئے ضروری ہے کہ دونوں فریق اس کی باقاعدہ درخواست کریں تاہم اس کے بغیر ہی پاکستان جو کچھ کر رہا ہے اسے دونوں ملکوں نے پسند کیا ہے کیونکہ یہ بات طے شدہ ہے کہ تمام تر کشیدگی کے باوجود امریکہ اور ایران اپنی اپنی وجوہات کی بناء پر جنگی تصادم سے گریز کرنا چاہتے ہیں۔ وزیر خارجہ نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہو ئے بتایا کہ امریکی حکام سے تین موضوعات پر بات چیت ہوئی۔ پہلا موضوع پاک بھارت تعلقات اور مسئلہ کشمیر تھا دوسرا ایران اور مشرق وسطیٰ کی صورتحال اور تیسرا افغان امن عمل تھا۔ پہلے آخری موضوع کا جائزہ لیتے ہیں۔ وزیر خارجہ کا کہنا تھا افغانستان میں امن کے قیام کیلئے امریکہ نے پاکستان سے ثالثی اور مصالحت کیلئے جس کردار کی توقع کی تھی اس پر ہم پورا اترے ہیں اور ان کی پوری مدد کی ہے۔ پاکستان طالبان کے مذاکرات کی میز پر لایا، امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ امریکی توقعات پوری کرنے کے بعد اب وہ پاکستان کیساتھ تعلقات کو بحال کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات اور پاکستان کی معاشی بحالی میں مدد کرے۔ اس مطالبے میں پاکستانی موقف میں ایک واضح تبدیلی صاف نظر آ رہی ہے۔ پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت عوام کو باور کراتی رہی ہے کہ وہ امریکہ سے تجارتی و اقتصادی معاملات کو فروغ دینے کی خواہاں ہے اور امداد حاصل کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی لیکن اندرون خانہ امریکی حکام سے رابطوں کے دورا ن اس نے کبھی فوجی یا اقتصادی امداد کے حصول سے انکار نہیں کیا۔ امریکہ نے حال ہی میں پاکستانی فوج کیلئے بین الاقوامی عسکری تعلیم و تربیت پروگرام کے تحت بند کی گئی امداد کو بحال کیا ہے جس کا موجودہ دورے میں وزیر خارجہ نے اعتراف کیا اور اسے پاکستان کیلئے بہت اہم قرار دیا۔ قبل ازیں گزشتہ سال کے وسط میں امریکہ نے فوجی امداد کی سابقہ روکی ہوئی ایک قسط ادا کی تھی جسے پاکستان نے بہت خوش دلی سے قبول کرلیا تھا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اپنے اقتصادی معاملات میں بہتری لانے کیلئے پاکستان سفارتی طریقے سے امریکہ کی اقتصادی اور فوجی امداد کی بحالی کیلئے کوششوں میں مصروف ہے۔ وزیر خارجہ نے مو جو د ہ دورے میں بھی اس کا واضح مطالبہ کیا ہے۔ افغان امن عمل اور ایران کیساتھ امریکہ کی کشیدگی کم کرنے کیلئے پاکستان کا کردار بہت واضح اور مثبت ہے۔ ا س کے نتیجے میں ٹرمپ انتظامیہ کا رویہ یقیناً بہتر ہوا ہے۔ امید کی جا سکتی ہے آئندہ دنوں میں امریکہ پاکستان کیساتھ اقتصادی اور اتحادی تعاون کو مزید فروغ دینے کیساتھ اس کی اقتصادی اور فوجی امداد بھی بحال کر دے گا۔
تجزیہ اظہر زمان