2020ء ………… اور خواتین
پاکستان میں ہر شعبہ زندگی میں خواتین کی جدوجد نمایاں رہی
2020ء کرکٹ کی گیم ٹونٹی ٹونٹی کی طرح حیران کن اور عجیب طرح کا اختتامیہ دے کر رخصت ہو گیا، دیگر طبقات کی طرح یہ سال دُنیا بھر کی خواتین کے لئے بھی تلخ و شیریں یادیں چھوڑ گیا اس سال دُنیا بھر میں خواتین مختلف کاموں میں بہت نمایاں رہیں اور گزشتہ برسوں کی نسبت اُن کا خصوصی کردار زیادہ سراہا گیا، خاص طور پر سیاست اور صحت کے میدان میں انہوں نے بڑی کامیابیاں حاصل کیں،اپنے فرائض کی انجام دہی میں بہت نیک نامی کمائی، پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی خواتین اہم مقامات پر فائز ہوئیں اور جو پہلے ہی بڑے عہدوں پر تھیں اُن کی کارکردگی بھی منفرد حیثیت کی حامل رہی، دُنیا بھر میں کورونا کی تباہ کاریوں سے نمٹنے میں بھی خواتین نے خاص کردار ادا کیا۔ پاکستان میں اگرچہ اللہ پاک کی رحمت سے کورونا کے اثرات کم رہے، پھر بھی اس ترقی پذیر کم وسائل والے ملک کے لئے یہ بھی بہت بڑی تباہی تھی جس سے نمٹنے کے لئے خواتین ہیلتھ ورکرز کا کردار قابل ِ ستائش ہے،جنہوں نے دن رات مریضوں کی خدمت کی اور اپنی جانیں تک قربان کر دیں وہ اس جدوجہد میں مردوں سے پیچھے نہیں رہیں، بلکہ زیادہ کام کیا اور اب بھی کر رہی ہیں۔ پاکستان میں کورونا کی آخری شکار بھی پشاور کی لیڈی ڈاکٹر خولہ حسین تھیں جو31دسمبر کو کورونا کی وجہ سے وفات پا گئیں،اُن کے خاوند جو خود بھی ڈاکٹر تھے، اقرار حسین زیدی،4دسمبر کو اسی موذی مرض کے ہاتھوں انتقال کر گئے تھے، خواتین کی بڑی تعداد کے شکار ہونے کے باوجود خواتین ہیلتھ ورکرز نے ہمت نہیں ہاری اور اس میدان میں ڈٹی ہوئی ہیں۔
ملکی سیاست میں خواتین نے بڑھ چڑھ کر کردار ادا کیا، سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز اِس سال ایک منجھی ہوئی سیاست دان کی حیثیت سے اپنا مقام حاصل کرنے میں کامیاب رہیں،اُن کی تقریر نے منفرد انداز میں انہیں اپوزیشن کے مرد لیڈروں سے زیادہ مقبول بنا دیا۔ مریم نواز نے اپنے ساتھ خواتین کے سیاسی ورکروں کی ٹیم بنا کر ثابت کر دیا کہ پاکستان کی خواتین میں بھی رہنما بننے کی صفات بدرجہ اتم موجود ہیں اُن کی اس جدوجہد کا نتیجہ یہ نکلا کہ اپوزیشن کا کوئی اجلاس، حکمت عملی، جلسہ اور دیگر سرگرمیاں اُن کے بغیر مکمل نہیں ہوتیں۔ مریم نواز نے مسلم لیگ(ن) کو پہلی مرتبہ احتجاجی سیاست کرنے والی سیاسی جماعت بنا دیا۔ پاکستان کی سیاست میں دوسری بڑی انٹری آصفہ بھٹو زرداری کی رہی جنہوں نے اس سال پہلی مرتبہ ملتان میں جلسہ عام سے خطاب کر کے اپنی شہید والدہ اور والد کی سیاست میں پہلا قدم رکھا، اُن کی پہلی پرفارمنس کو سراہا گیا۔ وہ پاکستان اور خاص طور پر والدہ کے بعد سیاست میں آنے والی تیسری خاتون ہیں۔ اس سے قبل بھٹو خاندان ہی میں نصرت بھٹو مرحومہ کے بعد بے نظیر شہید نے پارٹی قیادت سنبھالی، اب وہ اپنی والدہ بے نظیر بھٹو کے بعد پارٹی کی بڑی قائد بننے کے لئے میدان میں اُتری ہیں، جبکہ بھٹو خاندان کی ہی فاطمہ بھٹو بھی اپنی والدہ غنویٰ بھٹو کے بعد سیاسی میدان میں سرگرم ہو گئی ہیں، وہ بے نظیر بھٹو شہید کے بھائی مرتضیٰ بھٹو شہید کی بیٹی ہیں اگرچہ ابھی وہ عوام میں نہیں آئیں، لیکن انہوں نے اپنی والدہ کی سیاسی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی شہید بھٹو کی کمان سنبھالی ہے۔
پاکستان میں گزشتہ سال خواتین اور بچوں کے ساتھ بداخلاقی اور قتل کے واقعات میں بہت اضافہ ہوا ہے، جن میں لاہور کے قریب سیالکوٹ موٹروے پر خاتون کے ساتھ کمسن بچوں کی موجودگی میں مسلح ڈکیتی کے بعد بداخلاقی کا واقعہ انتہائی دلخراش تھا جس نے ایوانِ اقتدار کو ہلا کر رکھ دیا۔ سال کے آخری مہینے میں بھی درندہ صفت نوجوانوں نے لاہور کے قریب ہی سندر میں کمسن بچی کے ساتھ بداخلاقی کی، ان واقعات کے بعد وفاقی حکومت نے فوری طور پر بڑا قدم اٹھایا، خواتین اور بچوں کے ساتھ بداخلاقی پر سخت ترین قانون بنانے کی منظوری دی۔ یہ قانون جس کے تحت درندہ صفت ملزم کو قید کے علاوہ مردانہ صفات سے محروم کرنے کی سزا بھی شامل ہے، وفاقی کابینہ نے منظور کر لی ہے۔ اب دیگر مراحل کے بعد جلد ہی یہ قانون رائج ہو جائے گا۔
عالمی منظر نامے پر خواتین نے گزشتہ سال اہم کامیابیاں حاصل کر کے ثابت کیا ہے وہ بھی معاشرے میں اہم مقام کی حق دار ہیں۔ دُنیا کی سپر پاور امریکی انتخابات میں کملا ہیرس نے جو ایک رنگدار خاتون ہیں نائب صدر کا اعزاز حاصل کر لیا ہے۔ کملا ہیرس امریکہ کی پہلی رنگدار اٹارنی جنرل تھیں، پھر سینیٹر منتخب ہوئیں اور اب نائب صدر کے اعلیٰ عہدے پر پہنچ گئیں۔ جرمن چانسلر انجیلا مرکل کو گزشتہ سال کی طاقتور ترین شخصیت تسلیم کیا گیا، انہوں نے یورپی یونین کو متحد رکھنے کے لئے بہت کام کیا، انہوں نے پریشان حال تارکین وطن کی بہت خدمت کی۔
امریکہ ہی کی سپیکر نینسی پلوسی بھی گزشتہ سال خبروں کی زینت بنی رہی ہیں انہوں نے کئی ممالک کے ساتھ امریکی تجارتی معاہدوں میں اہم کام انجام دیا۔ کورونا سے نمٹنے میں بھی اُن کی کاوشیں سراہی گئیں۔ تائیوان کی صدر ڈاکٹر سائی رنگ وین نے اقتصادیات کی ترقی کے لئے نمایاں خدمات انجام دے کر شہرت حاصل کی وہ دُنیا بھر میں جمہوریت پسند اور آزادی کی حامل رہنما کی حیثیت سے بھی پہچانی جاتی ہیں۔ گزشتہ سال دُنیا بھر میں سب سے زیادہ دُکھ تکلیف، نہ بھولنے والے غموں کا شکار مقبوضہ کشمیر کی خواتین رہیں جنہوں نے اپنے باپ بھائیوں، خاوندوں اور جوان بیٹوں کی درندہ صفت بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں شہادتوں کو برداشت کیا،لیکن ہمت نہ ہاری اور اب بھی وہ اپنے مردوں کے ساتھ جدوجہد آزادی میں برابر کی شریک ہیں۔ بھارتی فوجیوں نے اس جدوجہد سے ہٹانے اور سزا دینے کے لئے اُن کے ساتھ زیادتیاں بھی کیں، لیکن کوئی ظلم، جبر اُنہیں اس جدوجہد سے نہ روک سکا اور ان کا صبر کے ساتھ سفرِ آزادی جاری و ساری ہے۔