آئے بھی وہ، گئے بھی وہ
وفاقی کابینہ نے پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) کے چیئرمین نعیم بخاری کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا ہے۔ کابینہ کو یہ اقدام اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کی روشنی میں کرنا پڑا جس میں نعیم بخاری کو فرائض کی ادائیگی سے روکتے ہوئے حکم دیا گیا تھا کہ کابینہ اس تقرر پر سپریم کورٹ کے عطا الحق قاسمی کیس میں دیئے گئے فیصلے کی روشنی میں نظرثانی کرے جس میں چیئرمین کے لئے عمر کی زیادہ سے زیادہ حد 65سال مقرر کی گئی ہے جبکہ نعیم بخاری کی عمر اس وقت ستر برس سے بھی متجاوز ہے۔ فاضل عدالت کے روبرو ان کے وکیل نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ نعیم بخاری کا کیس عطا الحق قاسمی کے معاملے سے مختلف ہے انہوں نے تنخواہ اور مراعات وصول کیں جبکہ نعیم بخاری تنخواہ نہیں لے رہے اور انٹرٹینمنٹ وغیرہ کے اخراجات بھی ذاتی طور پر کر رہے ہیں جس پر فاضل عدالت نے ریمارکس دیئے کہ معاملہ تنخواہ یا مراعات کا نہیں، تقرر کا ہے۔ محکمہ اطلاعات نے جو سمری کابینہ کو بھیجی اس میں بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کو پیشِ نظر نہیں رکھا گیا کابینہ میں بھی کسی نے اس سمری کو اس انداز میں نہیں دیکھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے جس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے چیئرمین کا تقرر نہیں ہو سکتا۔
نعیم بخاری خود وکیل ہیں اور قانون کی پریکٹس کرتے ہیں وہ تحریک انصاف میں شامل ہیں اور اس کی طرف سے عدالتوں میں بطور وکیل پیش ہوتے رہے ہیں، اس لئے انہیں اچھی طرح معلوم ہوگا کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں چیئرمین پی ٹی وی کے عہدے پر تقرر کے لئے کیا شرائط رکھی ہیں اور عطا الحق قاسمی کا تقرر کن بنیادوں پر کالعدم قرار دیا تھا اس لئے اگر انہیں اس عہدے کی پیشکش ہوئی تھی یا کسی نے انہیں اس منصب کے شایان شان تصور کیا تھا تو زیادہ باوقار طریقہ یہ تھا کہ وہ انہیں بتا دیتے کہ ان کی عمر زیادہ ہے اس لئے ان کا تقرر سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی ہوگا لیکن انہوں نے بھی ایسا کوئی طرزِ عمل اختیار کرنا پسند نہیں کیا چنانچہ انہیں اس منصب پر بٹھا دیا گیا۔ عہدہ سنبھالنے کے اگلے ہی دن انہوں نے اعلان کیا کہ پی ٹی وی سرکاری ادارہ ہے اس لئے اس پر صرف سرکار کا نقطہء نظر ہی پروموٹ کیا جائے گا، انہوں نے جس انداز میں یہ اعلان کیا اس میں تحکم اور کسی حد تک نخوت کا پہلو بھی جھلکتا تھا کیونکہ پی ٹی وی لوگوں کے دیئے ہوئے ٹیکس کے پیسے سے چلتا ہے اور ہر شخص چاہے اس کے پاس ٹی وی ہو نہ ہو اگر اس کے گھر میں بجلی کا میٹر لگا ہوا ہے تو وہ سالانہ چار سو روپے ٹی وی لائسنس فیس ادا کرنے پر بھی مجبور ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ مساجد اور دینی مدارس کو بجلی کے جو بل بھیجے جاتے ہیں ان میں بھی یہ رقم شامل ہوتی ہے بل ملنے کے بعد مساجد و مدارس کی انتظامیہ بجلی کمپنیوں سے رابطہ کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ یہ مسجد کا بل ہے جہاں ٹیلی ویژن نہیں ہے اس لئے یہ رقم بل سے منہا کر دی جائے۔ اب جس ادارے کو آبادی کی اکثریت باقاعدگی سے فیس ادا کرتی ہے کیا اس کا اتنا بھی حق نہیں کہ اسے حالاتِ حاضرہ کے تجزیئے اور خبریں غیر جانبداری کے ساتھ پہنچائی جائیں اور حکومت کے مخالف نقطہء نظر بھی سامنے لایا جائے تحریک انصاف کادعویٰ تو یہ تھا کہ وہ پی ٹی وی کو بی بی سی کی طرح کا غیر جانبدار ادارہ بنائے گی لیکن نعیم بخاری کے دماغ میں نہ جانے کیا سودا سمایا ہوا تھا کہ انہوں نے ببانگِ دہل ایسی بات کہہ دی جو انہیں زیب نہیں دیتی تھی اور کچھ نہیں تو انہیں یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے تھی کہ ان کی نوکری ”کچی“ ہے، کوئی بھی شخص عدالت میں چلا گیا تو ان کا اس عہدے پر قائم رہنا ممکن نہیں رہے گا۔اور بالآخر ہوا بھی وہی۔
عہدہ سنبھالتے ہی انہوں نے پہلا کام یہ کیا کہ پی ٹی وی کے بہت سے اعلیٰ عہدیداروں کو ان کے مناصب سے ہٹا دیا۔ ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ ان کی علیحدگی قانونی تھی یا غیر قانونی، وہ اپنا مقدمہ عدالتوں میں خود اچھی طرح لڑ رہے ہیں سوال صرف یہ ہے کہ انہیں ایسی بھی کیا جلدی تھی کہ وہ پی ٹی وی کا قبلہ درست کرنے اور اس میں ایسی تبدیلیاں لانے کی بجائے جو اسے عوام میں مقبول بناتیں آغاز ہی میں ایسے اقدامات کرنے لگے جو انہیں متنازع بناتے چلے گئے۔
آج کل پی ٹی وی پر وزیراعظم کے انٹرویو کا پرومو چل رہا ہے۔ یہ انٹرویو نعیم بخاری نے بنفسِ نفیس کئے جو اس امر کا عملی اظہار ہے کہ وہ واقعی پی ٹی وی کو یک طرفہ پروپیگنڈے ہی کے لئے مختص کرنے کا ایجنڈا لے کر آئے تھے۔ وزیراعظم عمران خان سے حالیہ ہفتوں میں بہت سے چینلوں نے طویل انٹرویوز کئے ہیں جن میں انہوں نے بہت سی ایسی باتیں کیں جو ہر انٹرویو میں مشترک تھیں اور بار بار دہرائی گئیں ان میں ٹیپ کا بند یہ تھا کہ اپوزیشن والے سارے چور، ڈاکو اور لٹیرے ہیں میں انہیں کسی قیمت پر این آر او نہیں دوں گا، مجھے پہلے سے معلوم تھا یہ سارے چور میرے خلاف اکٹھے ہو جائیں گے جو اب پی ڈی ایم کی شکل میں ہو گئے ہیں یہ اپنی کرپشن چھپانا چاہتے ہیں ان کی سیاست ختم ہو گئی وغیرہ وغیرہ، اب نعیم بخاری نے وزیراعظم کے جو طویل انٹرویو ریکارڈ کئے ہیں وہ آن ائر ہوں گے تو پتہ چلے گا کہ ان میں کچھ نیا بھی ہے یا انہی خیالات کی تکرار ہے جن کا اظہار وہ روزانہ کرتے ہیں انٹرویو تو لوگ دیکھ لیں گے لیکن اب نعیم بخاری کبھی چیئرمین نہیں بن سکیں گے اور جو دعویٰ کر دیا تھا نہ اسے عملی جامہ پہنا سکیں گے۔حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں۔
حکومت کے لئے بھی اس معاملے میں عبرت کے بہت سے پہلو ہیں اطلاعات اور قانون کی بڑی بڑی وزارتیں ہیں ان کے لائق فائق وزیر ہیں انہیں چاہیے تھا کہ وہ اپنی حکومت کو بتاتے کہ نعیم بخاری کی پارٹی وابستگی اپنی جگہ، ان کی چیئرمین سے عقیدت و محبت بھی اچھی بات ہے،وہ حکومتی نظریات کے بھی والا و شیدا ہیں ان کی صلاحیتوں سے بھی کسی کو انکار نہیں لیکن ان کے تقرر کی راہ میں سپریم کورٹ کا فیصلہ حائل ہے اس لئے یہ نہیں ہونا چاہیے لیکن حکومت یہ کر گزری اور دوماہ سے بھی کم عرصے میں آئے بھی وہ، گئے بھی وہ اور ختم فسانہ ہو گیا، کیا یہ بہتر نہ تھا کہ کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے اس کے عواقب و نتائج پر غور کر لیا جاتا۔حکومت کے بہت سے دوسرے فیصلے بھی عدالتوں میں کالعدم ہو چکے، اگر کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے اچھی طرح سوچ بچار کر لی جائے تو حکومت کو ندامت کا سامنا نہ کرنا پڑے اس فیصلے نے حکومت اور نعیم بخاری دونوں کی قدر و منزلت میں کوئی اضافہ نہیں کیا۔