رؤف طاہر کی یادیں اور باتیں
20دسمبر 2020ء کی ایک حسین صبح تھی۔ لاہور کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ نمایاں احباب ”اخوت“ والے ڈاکٹر امجد ثاقب کی دعوت پر اخوت کالج یونیورسٹی قصور کے نہایت کشادہ اور ہرے بھرے لان میں جمع تھے۔ سروں پر دھوپ کی چھتری تنی ہوئی تھی۔ میرے دائیں طرف ”ایکسپریس“ کے کالم نگار اعجاز حفیظ خان بیٹھے ہوئے تھے اور بائیں طرف روزنامہ پاکستان کے میگزین ایڈیٹر محمد نصیر الحق ہاشمی اور ان کے ایک دوست رانا فاروق دلدار براجمان تھے۔ ان سے اگلی نشست پر ہم سب کے دوست رؤف طاہر متمکن تھے۔ مجھ تک ان کی آواز پہنچ رہی تھی۔ وہ حسبِ عادت، ہنستے مسکراتے فقرے اپنے اردگرد بیٹھے ہوئے دوستوں کی طرف اچھال رہے تھے، جوابی جملے پر خوب قہقہے لگاتے اور پھر کوئی نیا ہنستا مسکراتا فقرہ اچھال دیتے۔
میں چونکہ کچھ فاصلے پر تھا اس لئے ان کے تابڑ توڑ حملوں سے محفوظ تھا۔ تقریب ختم ہوئی تو برنچ کے لئے لوگ اٹھے۔ یہ کوئی اچھا دن تھا۔ رؤف طاہر اپنی نشست سے اٹھتے ہی میری طرف بڑھے۔ بولے: ”یار! آپ جلد از جلد اپنی ساری شاعری جمع کریں۔ مسودہ مجھے دیں، میں آپ کی شاعری کی ساری کتابیں مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ کے تحت چھاپنا چاہتا ہوں“۔ میں نے فوراً ہامی بھر لی لیکن دل ہی دل میں پشیمان ہوا کہ مدعی سست، گواہ چست والا معاملہ ہے۔ کیونکہ یہی بات رؤف طاہر صاحب مجھے پہلے بھی کئی بار کہہ چکے تھے۔ قصہ یہ ہے کہ میں تخلیقِ شعر اور ترتیبِ کتاب کو دو الگ الگ کام سمجھتا ہوں۔ میں ہر وقت حالتِ شعر میں رہتا ہوں۔ شعر کہوں تو کتاب کی طرف سے دھیان ہٹ جاتا ہے۔ کتاب کی ترتیب کے بارے میں سوچنے لگوں تو تخلیقِ شعر کی آگ ٹھنڈی پڑ جاتی ہے۔
4جنوری 2021ء کی صبح فیس بک کھولی تو پہلی خبر ہی دل دکھانے اور رلانے والی تھی۔ رؤف طاہر کو پنجہء اجل کھینچ لے گیا تھا۔ یہ کیسی موت ہے کہ نہ بیماری کی کوئی خبر آئی نہ ہسپتال جانے کی۔کسی نے صحت یابی کی دعا کی درخواست کی نہ سرکاری علاج کا مطالبہ کیا۔ رؤف طاہر نے اپنی زندگی کے نقش و نگار خود بنائے تھے۔ انہیں کبھی کسی نے کسی کے سامنے دستِ سوال دراز کرتے نہیں دیکھا۔ ہر چیز اپنی محنت سے حاصل کی۔ صحافت میں محنت کی اور نام کمایا۔ درس و تدریس سے وابستہ ہوئے تو گھر چلایا۔ موت کے کمزور ترین لمحوں میں بھی وہ کسی کے محتاج نہیں ہوئے۔سیدھے اپنے خالق کے حضور پیش ہو گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
رؤف طاہر کا نام پہلی بار میں نے ان خبروں میں دیکھا جو پرویز مشرف دور میں جدے سے آیا کرتی تھیں اور روزنامہ پاکستان میں چھپا کرتی تھیں۔ یہ خبریں جدے کے سرور پیلس کے مقیم میاں محمد نوازشریف سے متعلق ہوتی تھیں۔ ان دنوں میاں محمد نوازشریف کی خبریں، اخبارات میں کم ہی چھپتی تھیں۔ گویا غیر اعلانیہ پابندی تھی۔ لیکن رؤف طاہر کو خبربنانے کا ڈھنگ آتا تھا اس لئے وہ میاں صاحب کے چاہنے والوں کے لئے، ان کی مصروفیات کی خبریں، یوں بنا کر بھیجتے تھے کہ یہاں ہاتھوں ہاتھ لی جاتی تھیں۔ بظاہر یہ ایک معمولی کام لگتا ہے لیکن سچ یہ ہے کہ ان خبروں نے میاں محمد نوازشریف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کو میڈیا میں زندہ رکھا، انہی خبروں کے ذریعے سے ان کی پاکستان آمد کا راستہ ہموار ہوا۔
رؤف طاہر کو چونکہ شعر و ادب سے بھی شغف تھا اس لئے وہ جدے جانے والے شاعروں ادیبوں کی میزبانی کرتے۔ ان سے مکالمہ کرتے۔ ان کے کچھ مکالمے روزنامہ ”پاکستان“ میں چھپے تو رؤف طاہر کو جاننے اور ملنے کا اشتیاق بڑھا۔ آخر کار وہ پاکستان آ گئے۔ اب مجھے نہیں یاد کہ ان سے پہلی ملاقات کہاں اور کب ہوئی؟ لیکن ہم پہلی ہی ملاقات میں یوں ملے کہ برسوں کے فاصلے طے ہو گئے۔ وہ میری شاعرانہ کارگزاریوں اور صحافتی معرکہ آرائیوں سے آشنا تھے۔ میں عمر میں ان سے بہت چھوٹا تھا لیکن انہوں نے ہمیشہ صاحب کے لاحقے کے ساتھ بات کی۔ وہ دوسروں کو احترام دینا بھی جانتے تھے اور اپنا احترام کرانا بھی۔ ایسے ہی آدمی کو مرنجاں مرنج کہا جاتا ہے۔
2013ء کے انتخابات سے پہلے میں نے میاں محمد نوازشریف کے حوالے سے ایک نظم لکھی جس میں پیشین گوئی کی گئی تھی کہ آئندہ وزیراعظم میاں محمد نوازشریف ہوں گے۔ یہ نظم روزنامہ ”پاکستان“ میں چھپی۔ ان دنوں رؤف طاہر، میاں محمد نوازشریف کے دستِ راست تھے۔ جس روز یہ نظم اخبار میں چھپی، اس روز صبح سویرے (چھ اور سات بجے کے درمیان) رؤف طاہر کی کال آئی۔ کہنے لگے: ”ناصر صاحب! میں اس وقت جاتی عمرہ میں ہوں۔ میاں نوازشریف نے آپ کی نظم پڑھی ہے۔ آپ میرے موبائل نمبر پر اپنے گھر کا پوسٹل ایڈریس ایس ایم ایس کر دیجئے“۔ میں نے حکم کی تعمیل کر دی۔ دو تین دن کے بعد میرے نام، میاں محمد نوازشریف کا ایک خط آیا جس میں انہوں نے میری نظم کی تعریف کی تھی اور کہا تھا کہ آپ نے مجھ سے جو توقعات وابستہ کی ہیں، اللہ مجھے وہ پورا کرنے کی توفیق دے۔
2014ء میں نیشنل بک فاؤنڈیشن کے ایم ڈی ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے مجھے بک ایمبیسڈر مقرر کیا تو لاہور پریس کلب کی لٹریری سوسائٹی نے میرے اعزاز میں ایک تقریب کا اہتمام کیا۔ اس موقع پر میں نے لاہور پریس کلب میں ایک کتاب میلے کا اہتمام بھی کر رکھا تھا۔ ڈاکٹر انعام الحق جاوید ایم ڈی نیشنل بک فاؤنڈیشن اس تقریب اور میلے میں شرکت کے لئے اسلام آباد سے بطور خاص تشریف لائے تھے۔ یہاں رؤف طاہر صاحب نے کتاب دوستی کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے میری شاعرانہ صلاحیتوں کا بھرپور اعتراف کیا۔ وہ چونکہ خود بھی بے پناہ اوصاف کے مالک تھے، اس لئے اپنے سے بعد میں آنے والوں کی صلاحیتوں اور اوصاف کو بھی جانتے، مانتے اور پہچانتے تھے۔ انہوں نے مجھے الطاف حسین حالی، اکبر الہٰ آبادی، ظفرعلی خان شورش کاشمیری اور حبیب جالب کی روایت کا شاعر قرار دیا۔
کچھ عرصے کے بعد وہ ریلوے کے ڈی جی پی آر مقرر ہوئے تو انہوں نے ریلوے کی انتظامیہ کو آئیڈیا دیا کہ ریل گاڑیوں، ائر کنڈیشنڈ بوگیوں میں این بی ایف کی کتابیں رکھوائی جائیں۔ آئیڈیا تو اچھا تھا۔ ریلوے انتظامیہ کو ہم نے کچھ کتابیں تحفتاً دیں لیکن یہ خیال پروان نہیں چڑھ سکا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ رؤف طاہر کتاب دوستی کے معاملے میں بہت آگے تھے اور چاہتے تھے کہ کتاب دوستی عام ہو۔ اچھی کتاب ملتی تو بہت خوش ہوتے۔ میرے دوست سید محمد عظمت اپنی کتاب ”باؤ جی کلثوم“ لے کر میرے ساتھ ان کے پاس گئے تو ان کی خوشی دیدنی تھی۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ اس کتاب کی رونمائی ہوئی تو وہ بھی اظہارِ خیال کریں گے۔ اس باغ و بہار شخص کی یادیں دوستوں کے دلوں کو ہمیشہ تر و تازہ رکھیں گی۔ فی الحال اتنا ہی کافی ہے باقی باتیں، پھر کبھی موقع ملا تو لکھوں گا۔