نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں
اس خبر کا وطن عزیز سے تو براہ راست کوئی تعلق نہیں کہ برطانیہ میں کورونا ویکسین دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے لگائی جا رہی ہے۔ اگرچہ امریکہ کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد کے حساب سے پہلے نمبر پر ہے اور شاید عددی طور پر سب سے زیادہ ویکسین بھی وہیں لگائی گئی ہے مگر آبادی کے تناسب کے لحاظ سے برطانیہ پہلے نمبر پر آ گیا ہے۔ اس کی آبادی چھ کروڑ ساٹھ لاکھ ہے جبکہ نصف کروڑ (تقریباٰ) کو ویکسین لگ چکی ہے۔ پروگرام کے مطابق فروری کے آخر تک ڈیڑھ کروڑ افراد کو ویکسین لگا دی جائے گی۔ اس کے لئے جو پروگرام ترتیب دیا گیا ہے اس میں سب سے پہلے 85 سال سے زائد عمر کے لوگوں کو ویکسین لگائی جا رہی ہے۔ اس کے بعد 80 سال کی عمر والوں کو پھر 75 سال والوں کو اور طبی عملے کو اس کے بعد 65 سال پھر 60 سال والے ان افراد کو جنہیں کینسر، امراض قلب، ذیابیطس یا کوئی اور بیماری ہو یا رہی ہو۔ پھر 50 سال اور اس سے کم لوگوں کو لگائی جائے گی۔ تیس اور اس سے کم عمر کے جوانوں کو محفوظ تصور کیا جا رہا ہے۔
دنیا میں اس وقت زیادہ تر چار قسم کی ویکسین استعمال ہو رہی ہیں۔ فائزر بائیو اینٹیک ویکسین امریکی کمپنی فائزر اور جرمن کمپنی بائیو اینٹیک نے مل کر بنائی ہے اس کی قیمت بیس ڈالر فی خوراک ہے یورپی یونین اس کی 50 لاکھ خوراکیں خرید چکی ہے۔ دوسری ویکسین آکسفورڈ ایسٹرازینیکا ہے جو برطانیہ کی یونیورسٹی آکسفورڈ اور دوا ساز کمپنی ایسٹرازینیکا نے مل کر بنائی ہے اس کی قیمت چار ڈالر فی خوراک ہے۔ تیسری سائنو فارم ویکسین ہے جو چین نے تیار کی ہے اس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکی اور جرمن کمپنیوں کے اشتراک سے جو فائزر بائیو اینٹیک ویکسین تیار کی ہے اس کی تیار کنندہ ٹیم میں دو ترک نژار مسلمان سائنسدان بھی شامل تھے۔ تیسری چین کی تیار کردہ ویکسین کی طلب زیادہ ہے۔
ہمارے ایک عزیز نے بحرین سے بتایا ہے کہ وہاں صرف ایک ہسپتال میں امریکی ویکسین لگائی جا رہی ہے باقی سب جگہ چینی ویکسین استعمال ہو رہی ہے۔ پاکستان نے بھی چینی ویکسین درآمد کرنے کا اعلان (صرف اعلان) کیا ہے۔ قیمت کے علاوہ ایک پہلو ویکسین کو سٹور کرنے کا بھی ہے امریکی ویکسین کو منفی 70 ڈگری سنٹی گریڈ پر رکھنا پڑتا ہے جبکہ برطانوی ویکسین کو عام فرج یا برف کے ساتھ بھی رکھا جا سکتا ہے۔ چنانچہ امریکی ویکسین کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لیجانے میں خاصے انتظامات بلکہ مہنگے انتظامات کرنا پڑتے ہیں۔ چوتھی ویکسین روس کی بنی ہوئی گمالیا (سپوتنک 5) ہے یہ بھی عام فرج میں رکھی جا سکتی ہے اور اس کی قیمت دس ڈالر فی خوراک ہے۔ ان چاروں میں سے فائزر بائیو اینٹیک کی کامیابی کا تناسب سب سے زیادہ 95 فیصدہے۔ گمالیا سپوتنک کا 92 فیصد اور آکسفورڈ ایسٹرازینیکا کا سب سے کم صرف 62.90 فیصد ہے۔ جبکہ چینی ویکسین کی تجرباتی کامیابی کا تناسب جاری نہیں کیا گیا۔ بھارت میں بھی تیزی سے ویکسین لگانے کا کام شروع کر دیا گیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ کے بعد کورونا سے سب سے زیادہ جانی نقصان بھارت میں ہوا ہے لیکن آبادی کے تناسب سے یہ نقصان برطانیہ، برازیل اور میکسیکو سے کم ہے۔ وطن عزیز پاکستان پر اللہ کا خاص کرم ہے کہ یہاں کورونا کا پھیلاؤ اور جانی نقصان دنیا کے بیشتر ممالک سے کم رہا۔ تاہم کورونا کی دوسری لہر پہلی کی نسبت زیادہ سنگین ہے۔ اب تک کورونا سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد گیارہ ہزار سے تجاوز کر رہی ہے۔ اس میں سے زیادہ تر دوسری لہر کی نذر ہوئے۔ اس کے باوجود سرکاری اور عوامی سطح تک سنجیدگی پہلی لہر کی نسبت کم ہے۔ اگر جلد ویکسین کا اہتمام نہ کیا گیا تو خدانخواستہ کورونا کی تیسری لہر بھی متوقع بتائی جاتی ہے جبکہ دوسری ابھی جوبن پر ہے۔ ان میں جانی نقصان کہیں زیادہ ہو سکتا ہے۔ سرکاری سطح پر کورونا ویکسین کی درآمد میں بھی اسی سستی اور عدم توجہی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے جیسا ایل این جی کی درآمد، گندم کی درآمد اور چینی کی درآمد میں تاخیر کی صورت میں کیا گیا اور جس کے نتیجے میں ملک کو اربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔
یہ تو چلو مالی نقصان تھا یا اس سے عوام کی زندگی مشکل بنا دی گئی، لیکن ویکسین کا تعلق تو انسانی بقا سے ہے۔ اگر یہ بھی تاخیری رویوں کی نذر ہو گئی تو عوام کی زندگیوں کے لئے خطرات بڑھ جائیں گے۔ آٹے، چینی، ایندھن، بجلی کی کمیابی یا گرانی بھی بری حکمرانی کی علامتیں ہیں اور ان پر عوام رو دھو کر گزارہ کرتے رہنے کی پرانی ڈگر پر چل لیتے ہیں لیکن اگر انہیں محض حکومتی کوتاہی کے نتیجے میں اپنے پیاروں کے جنازے اٹھانے پڑے یا کورونا کی اذیت ناکیوں سے گزرنا پڑا تو خالی وعدے اور دعوے انہیں علم بغاوت بلند کرنے سے نہیں روک سکیں گے۔ ہمارے ہاں ابھی ویکسین درآمد کرنے کے اعلانات ہی ہو رہے ہیں جبکہ دنیا کے بیشتر متاثرہ ممالک اپنی اپنی ضرورت کے مطابق بکنگ کرا چکے ہیں۔
درجنوں ملکوں میں درآمد کا نہ صرف آغاز ہو چکا ہے بلکہ لوگوں کو لگانا شروع بھی کر دی گئی ہے۔ یاد رہے کہ ویکسین علاج نہیں، جو بیماری آ جانے کے بعد کیا جائے۔ یہ حفاظتی اقدام ہے جو بیماری لگنے سے پہلے کیا جاتا ہے۔ جو علاج سے بہتر اور محفوظ ہے۔ دنیا بھر کے تجربات تو یہی بتاتے ہیں ہمارے حکمرانوں کا فلسفہ کچھ اور ہے تو ان کی مرضی۔ ماہرین تو یہ کہتے ہیں کہ آج بھی اگر ویکسین کی بکنگ کرائی جائے تو اس کے آتے آتے چھ ماہ سے زیادہ لگ جائیں گے۔
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں