سینیٹ قائمہ کمیٹی اجلاس، اے این ایف سے متعلقہ 17اداروں کو طلب کرنے کا فیصلہ
اسلام آباد (آئی این پی) ایوان بالاء کی قائمہ کمیٹی برائے انسداد منشیات کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر سردار محمد شفیق ترین کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں رکن قومی اسمبلی رانا ثنا اللہ کے بنیادی حقوق کے مسئلے، سینیٹر سیمی ایزدی کی جانب سے سینیٹ اجلاس میں پوچھے گئے سوال برائے پاکستان افغانستان سرحد کے قریب منشیات کی سمگلنگ کے کنڑول کے حوالے سے اٹھائے گئے اقدامات کے علاوہ انسداد منشیات فورس میں تقرریوں کی پراگرس اور فنڈز کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ سینیٹر رانا مقبول احمد نے کہا کہ رکن قومی اسمبلی رانا ثنا اللہ خان کی گرفتاری اور ان پر الزامات کے حوالے سے معاملات سب کے سامنے ہیں جو طریقہ کار و دیگر معاملات ہیں ان میں کافی خامیاں ہیں۔ جب ایک تفتیشی ایجنسی پر اعتراضات اٹھائے گئے تھے تو مزید تفتیش دوسری ایجنسی سے ہونی چاہیے تھی۔ انہوں نے کہا کہ ایجنسی نے ان کا بیان تک ریکارڈ نہیں کیا۔ سینیٹر لیفنٹینٹ جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا کہ جب کسی کے پاس اختیار ہوتا ہے تو اختیارا ت کا استعمال ملک و قوم کے مفاد میں کرنا چاہیے۔ کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہونی چاہیے۔کسی اہم سیاسی رہنما پر بے بنیاد الزامات نہیں لگانے چاہیں۔سینیٹر محمد جاوید عباسی نے کہا کہ پارلیمان قانون سازی کر تی ہے اور اس کے تحت ادارے اپنے ایس او پیز بناتے ہیں۔رانا ثنا اللہ کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ انتہائی افسوسناک ہے۔ معاملے کی آزادانہ تحقیقات لازمی ہیں۔۔ سینیٹر محمد جاوید عباسی نے تجویز دی کہ ایک خصوصی سب کمیٹی بنائی جائے جو کہ اس معاملے کی مکمل نگرانی کرے۔انہوں نے کہاکہ متعلقہ وزیر نے بھی اپنے بیان میں کہا تھا کہ وہ ویڈیو منظر عام پر لائیں گے لیکن وہ آج تک منظر عام نہیں ہو سکی جس سے ثابت ہو کہ رانا ثنا اللہ خان سے منشیات برآمد ہوئیں۔سینیٹر نعمان وزیر خٹک نے کہا کہ اس طرح کے معاملے میں کافی شواہد ہوتے ہیں اس پر وضاحت ضروری ہے۔ ملک میں منشیات کی بھر مار ہے۔ نہ پولیس و دیگر ایجنسیاں اس پر موثر انداز میں کچھ کر رہی ہیں۔سیکرٹری انسداد منشیات نے کہا کہ یہ مسئلہ عدالت میں زیر سماعت ہے اس لئے اس پر کچھ تبصرہ کرنا قبل از وقت ہے۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر سردار محمد شفیق ترین نے کہا کہ اس قائمہ کمیٹی نے قانونی پہلوؤں کو موثر اجاگر کیا ہے جو قابل غور ہیں۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر سیمی ایزدی کے معاملے کا بھی تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ سینیٹر سیمی ایزدی نے کہا کہ ملک کی سرحدوں سے منشیات کی سمگلنگ کو کنڑول کرنا متعلقہ اداروں کو فرض ہے۔ اے این ایف کے پاس فنڈز اور عملے کی کمی ہے۔ بھرتی کے عمل کو جلد مکمل کیا جائے اور فرانزک لیب کی تعداد میں بہتری لائی جائے۔سیکرٹری انسداد منشیات کنڑول نے کمیٹی کو بتایا کہ منشیات کے کنڑول کے حوالے سے 2019 میں ایک پالیسی بنائی گئی تھی جس کے چار پہلو ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک کونسل جس کی صدارت وزیراعظم خود کرتے ہیں وہ بھی ان معاملات کا جائزہ لیتی ہے۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر بھی کمیٹیاں قائم کی گئی ہیں۔ بد قسمتی کی بات ہے کہ ایران کی کل آبادی 6 کروڑ ہے اور ان کے پاس اے این ایف کی تعداد30 ہزار ہے جو پاکستان سے دس گنا زائد ہے۔پاکستان نے اس ادارے کیلئے 10 ہزار اسامیوں کا کہا گیا تھا اور وزیراعظم پاکستان کی منظوری کے باوجود بھی بڑی مشکل سے 416 بھرتیوں کیلئے وزارت خزانہ سے منظوری ملی ہے۔ بھرتیوں کا عمل رواں مالی سال مکمل ہو جائے گا۔ ادارے کے پاس فنڈز اور سٹاف کی کمی ہے۔انہوں نے کہاکہ اس ادارے کے ساتھ دیگر 17 ادارے منسلک ہیں اگر مل کر ایسا لائحہ عمل اختیار کیا جائے تو اس میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ ۔
اے این ایف