عثمان مرزا تشدد کیس، متاثرہ جوڑا ایک بار پھراپنے بیان سے مکر گیا 

عثمان مرزا تشدد کیس، متاثرہ جوڑا ایک بار پھراپنے بیان سے مکر گیا 
عثمان مرزا تشدد کیس، متاثرہ جوڑا ایک بار پھراپنے بیان سے مکر گیا 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن )اسلام آباد کے علاقے ای الیون میں لڑکے اور لڑکی کو ہراساں کرنے کے معروف عثمان مرزا تشدد کیس میں متاثرہ لڑکی اور لڑکے نے ایک بار پھر عدالت میں اس واقعے کے متعلق کچھ بھی ماننے سے انکار کردیا۔اس سے قبل متاثرہ لڑکے اور لڑکی نے ملزمان کو پہچاننے سے انکار کردیا تھا جس کے بعد حکومت نے اس کیس کی پیروی کرنے کا اعلان کیا تھا۔
 اسلام آباد میں متاثرہ لڑکا اور لڑکی ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی کی عدالت میں پیش ہوئے۔مثاثرہ لڑکے اسد کے بیان پر پراسکیوٹر رانا حسن عباس نے جرح کی جس پر لڑکے نے کہا کہ میری تعلیم ایف ایس سی اور کوئی کام نہیں کرتا، جب واقعہ ہوا میں پراپرٹی کا کام کرتا تھا، کیس شروع ہونے کے بعد وہ کام چھوڑ دیا،میرے مالی معاملات بہت خراب ہیں اور والدین خرچہ چلا رہے ہیں، اس مقدمہ کے اندراج کے بعد تھانہ گولڑہ میں چارسے پانچ مرتبہ گیا تھا،میں نے بیان ریکارڈ نہیں کرایا بلکہ صرف سادہ پیپر پر پولیس انسپکٹر نے دستخط لیے تھے۔
پراسیکیوٹر رانا حسن نے کہا کہ آپ نے بیان حلفی میں کہا ویڈیو میں نظر آنے والے ملزمان وہ نہیں، کیا آپ کو واقعہ یاد ہے؟ جس پر لڑکے کہا کہ جی بالکل، مجھے وہ واقعہ یاد ہے۔پراسکیوٹر نے متاثرہ لڑکی پر جرح کے دوران اس کا کہناتھا کہ میں نے بیان دے دیا ہے، بار بار کیوں پریشرائز کیا جا رہا ہے۔ میں کہہ چکی ہوں کہ کسی کو نہیں جانتی۔پراسیکیوٹر نے سوال کیا کہ کیا آپ نے عدالت میں بیان دینے کے لیے عمر بلال مروت سے ایک لاکھ روپے لیا تھا؟متاثرہ لڑکی نے جواب دیا کہ نہیں، میں نے کوئی پیسہ کسی سے نہیں لیا، پہلےبھی بتا چکی ہوں کہ پولیس نےمجھ سےسفید کاغذ پر دستخط کروائے اور انگوٹھا لگوایا،میرا نکاح اسد رضا کے ساتھ ہوا، مجھے تاریخ یاد نہیں کب نکاح ہوا، ویڈیو وائرل ہونے کے بعد میرا اور اسد رضا کا نکاح ہوا تھا، ویڈیو وائرل ہونے سے قبل اسد رضا اور میرا رشتہ ہو چکا تھا، میرے گھر میں اسد رضا کا رشتہ آیا تھا لیکن مجھے تاریخ یاد نہیں کب آیا تھا۔
وکیل کے سوال پر لڑکی نے کہا کہ واقعہ کے روز میں اسد رضا کے ساتھ اپارٹمنٹ میں رات گزارنے نہیں آئی تھی۔ملزم شیر افضل کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ متاثرہ جوڑے کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے۔وکیل نے لڑکی سے جرح کرتے ہوئے کہا کہ ایف آئی اے کا عملہ کہتا ہے کہ ویڈیو میں آواز اور موجودگی آپ کی ہے۔متاثرہ لڑکی نے کہا کہ دنیا میں سات چہروں کے لوگ ایک طرح کے ہوتے ہیں۔ اس پر وکیل نے کہا کہ سات چہرے تو ایک جیسے ہوتے ہیں لیکن آواز کیسے آپ کی ہے؟وکیل نے پوچھا کہ پولیس نے کس جگہ آپ کے دستخط اورانگوٹھے لیے؟متاثرہ لڑکی نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم پولیس نے دستخط اور انگوٹھے کب لیے۔

ملزم شیر افضل کے وکیل نے پوچھا کہ جس اسسٹنٹ کمشنر نے آپ کا بیان ریکارڈ کیا وہ مرد تھا یا عورت؟ اس پر جواب میں متاثرہ لڑکی نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ وہ مرد تھا یا عورت؟مجھ سے کیسے سوالات کیے جارہے ہیں؟ میرے خاندان کے حوالے سے سوال کیوں کیے جارہے؟وکیل نے کہا کہ ہم جاننا چاہ رہے ہیں کہ آپ کو پیسوں کی ضرورت تھی یا نہیں تھی؟متاثرہ لڑکی پر وکیل ملزم شیر افضل نے جرح مکمل کرلی جس کے بعد متاثرہ لڑکا عدالت میں جرح کے لیے پیش ہوگیا۔متاثرہ لڑکے نے کہا کہ مجھے نہیں یاد کہ میں کب اپنی بیوی سے پہلی بار ملا تھا،یاد نہیں کب کاغذ پر دستخط اور انگوٹھا لگایا تھا لیکن ایک بار پولیس سٹیشن میں دستخط اور انگوٹھا لگایا تھا۔لڑکے نے کہا کہ جس دن ویڈیو بنی اس وقت میں اسلام آباد میں کام پر تھا۔ میں فری لانسر ریئل سٹیٹ ایجنٹ کا کام کرتا تھا۔