پاکستان مسلم لیگ(ن) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف کی صاحبزادی پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف کی حکومت کا اگر جائزہ لیا جائے تو بلا مبالغہ یہ بات ببانگ ِدہل کہی جا سکتی ہے جس طرح میاں محمد نواز شریف نے پاکستان بھر کے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کارہائے نمایاں انجام دیئے تھے، مریم نوازشریف نے بھی شب روز عوام کی خدمت کیلئے جو رہنما اصول متعارف کروائے، وہ حقیقی معنوں میں سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہیں۔عوامی فلاح و بہبود کے ان انقلابی پروگراموں میں ایک دو، یا درجن دو درجن نہیں سیکڑوں ایسے اقدامات ہیں جو انہوں نے سر انجام دیئے اور" ریاست ہو گی ماں کے جیسی" کو حقیقت بنا دیا۔مریم نوازشریف نے جو انتخابی وعدے کئے، وہ تو پورے کر دیئے لیکن جو وعدے نہیں بھی کئے، وہ بھی پورے کر رہی ہیں۔
مریم نوازشریف نے اقتدار سنبھالتے ہی کلینک آن ویلز کا آغاز‘ صاف ستھرا پنجاب پروگرام‘ رمضان المبارک میں عوام کو مفت راشن کی فراہمی‘ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کا ماڈل میکنزم، پنجاب ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پروگرام‘ پنجاب روڈ انفراسٹرکچر کی حالت ِزار کو بہتر بنانے کے لئے ہدایات، صحت کی معیاری سہولتوں کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے پنجاب دستک پروگرام کا آغاز‘ اپنا گھر اپنی چھت پروگرام‘ 5 سے 20 کلو واٹ تک کے سولر سسٹم کی فراہمی، سرسبز پنجاب خوشحال کاشتکار‘ سرگودھا کارڈیالوجی ہسپتال کا قیام‘ 200 یونٹ بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے لیے مفت سولر پینلز کی فراہمی کا منصوبہ‘ ایئر ایمبولنس کا نفاذ، ہونہار سکالرشپ، مریم کی دستک ایپلیکیشن کے ذریعے گھر کی دہلیزپر درجنوں خدمات کی فراہمی سمیت گلیوں کی تعمیر و مرمت‘ لاہور کے مختلف علاقوں سمیت دیگر شہروں میں میں فری وائی فائی سروس کی فراہمی‘ وزیر اعلیٰ ہیلپ لائن‘ کسان کارڈ کا اجرا‘ الیکٹرک بسوں کی فراہمی، طلبہ کو ای بائیکس کی فراہمی‘ انٹر یونیورسٹی پنک گیمز‘ وزیر اعلیٰ انٹرن شپ پروگرام‘ بے روزگار نوجوانوں کے لیے تین کروڑ روپے تک کاروبار کے لئے قرضہ سکیم، موٹروے ایمبولنس کا آغاز‘ اور لیپ ٹاپ سکیم کے علاوہ ڈائیلسز اور کینسر کے مریضوں کے مفت علاج کیلئے ہسپتال کا سنگ ِبنیاد رکھ دیا گیا ہے۔ ضلعی اور تحصیل ہسپتالوں کی بہتری کے لئے اربوں روپے کے فنڈز بھی جاری کیے گئے ہیں۔پنجاب بھر میں 150 'مریم نواز ہیلتھ کلینکس' کا افتتاح کیا جا چکا ہے۔ المختصر یہ کہ صحت کے ساتھ ساتھ دوسرے شعبوں میں بھی بڑی پیش رفت ہوئی۔ صوبے میں پانچ ایکسپریس ویز کی تعمیرکا آغاز تکمیل کے مراحل میں ہے جن سے ایک درجن سے زائد اضلاع کی اڑھائی کروڑ آبادی مستفید ہو گی۔ محکمہ پولیس میں ریفارمز لائی گئیں، جیلوں کو اپ گریڈ کیا گیا۔ سکولوں اور تعلیمی اداروں کی بہتری کے بھی ہنگامی بنیادوں پر کام شروع کیا جا چکا ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف نے مہنگائی پر قابو پانے کے لئے بھی سخت ترین انتظامات کئے۔آٹے کے 20 کلو تھیلے کی قیمت تین ہزار سے کم کر کے 1700روپے ہو چکی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ روٹی اور نان کی سستے داموں فراہمی کو یقینی بنایا گیا ہے۔ عام آدمی کی لائف لائن روٹی ہی ہوتی ہے کہ کھانا کھا کر ہی وہ زندہ رہتا ہے۔ سستے آٹے اور سستی روٹی سے عام آدمی کو بہت زیادہ ریلیف ملا ہے۔ اس کے ساتھ دیگر اشیائے صرف کی قیمتیں بھی معتدل ہو چکی ہیں۔
وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے '' مریم کی دستک" کے نام سے جو ایپ لانچ کی گئی ہے، اس کے ذریعے حکومت 330 سروسز عوام کو ان کے گھر کی دہلیز پر فراہم کر رہی ہے۔لاہور میں پائلٹ پراجیکٹ کے بعد ”دستک ایپ“ کا دائرہ کار بتدریج دیگر شہروں میں بھی شروع کر دیا گیا ہے۔کینسر اور دیگر مہلک امراض میں مبتلا افراد کو 2 ماہ کی ادویات ان کے گھر پہنچ رہی ہیں۔ادویات کی فراہمی کیلئے ایک خودکار طریقہ متعارف کرایا گیا ہے، کلینک آن ویل اور فیلڈ ہسپتال کے ذریعے دیہات اور شہروں کے مضافاتی علاقوں میں لوگوں کے گھروں تک بہترین علاج، ٹیسٹ اور مفت ادویات کی سہولتیں پہنچ رہی ہیں۔وزیراعلیٰ مریم نوازشریف کا کہنا ہے کہ مجھے فیلڈ میں جانے سے لوگوں کے حقیقی مسائل کا ادراک ہو رہا ہے۔بہاولپور کے گاؤں میں آرتھرائٹس میں مبتلا 80سالہ خاتون کو مل کر کلینک آن ویل کے ساتھ لیفٹر لگوانے کا فیصلہ کیا گیا۔فیلڈ ہسپتالوں سے روزانہ 30 سے 35 ہزار مریض مفت ادویات اور علاج کی سہولت حاصل کر رہے ہیں۔
وزیر اعلیٰ مریم نے نوازشریف کینسر ہسپتال، کارڈیالوجی انسٹی ٹیوٹ سرگودھا،کلینک آن ویل، فیلڈہسپتال، چلڈرن ہارٹ سرجری کارڈ اور میڈیسن ہوم ڈلیوری پراجیکٹس کے آغاز کو بہت زیادہ سراہا گیا ہے۔ کینسر ہسپتال میں علاج کیلئے چین کا طریقہ علاج ”نو کیمو تھراپی،نو سرجری“ متعارف کرایا جائے گا۔ پنجاب ائیر ایمبولینس سروس کا باقاعدہ آغاز کرنے والا پاکستان کا پہلا صوبہ بن گیا ہے۔کلینک آن ویل اور فیلڈ ہسپتال سے اب تک تقریباً 68لاکھ سے زائد مریض مستفید ہونے کا ریکارڈ اپنی مثال آپ ہے۔ پنجاب بھر کے دیہی اور بنیادی مراکز صحت کی ری ویمپنگ کا میگا پراجیکٹس تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں جو جلد مکمل ہو جائے گا۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے روایتی بی ایچ یو کو”مریم ہیلتھ کلینک“میں بدل دیا ہے۔ پنجاب بھر میں 2800 سے زائد ہسپتالوں کی ری ویمپنگ کا تاریخی ریکارڈقائم کیا گیا ہے۔ پنجاب بھر کے دور دراز کے دیہی علاقو ں میں فیلڈ ہسپتال کی بے مثال سروس جاری ہے۔ فیلڈ ہسپتال سے اب تک ساڑھے 9لاکھ مریض مستفید، 60ہزار ایکسرے،ایک لاکھ35ہزار سے زیادہ لیب ٹیسٹ، فیلڈ ہسپتالوں میں الٹراساؤنڈ، فرسٹ ایڈ اور ماں بچے کی صحت کی سہولت بھی دی جارہی ہے۔ شہروں کے گنجان آباد علاقوں کے لئے کلینک آن ویل سے 67 لاکھ مریض مستفید ہو چکے ہیں۔ کلینک آن ویل سروسز میں ڈاکٹر، ایل ایچ وی، ویکسی نیشن، سٹاف اور الٹرا ساؤنڈ کی سہولت دی جا رہی ہے۔ کینسر کے مریضوں کے علاج کیلئے لاہور میں پاکستان کا پہلا پبلک سیکٹر محمد نوازشریف کینسر ہسپتال تیزی سے تکمیل کے مراحل طے کر رہا ہے۔ سرگودھا ڈویژن میں امراضِ قلب کا پہلا محمد نوازشریف انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی بھی تکمیل کے قریب ہے۔ ضلعی ہسپتال میں سپیشلسٹ ڈاکٹرز کی کمی پوری کرنے کے ٹارگٹ کو پورا کیا جا رہا ہے اور سپیشل پیکیج کی تجویز پر اتفاق کیا گیا ہے۔ پنجاب کے ضلعی ہسپتالوں میں کیتھ لیب، کارڈیالوجی سنٹر مرحلہ وار بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ دل کے مریض بچوں کے لئے چیف منسٹر ہارٹ سرجری پروگرام کے تحت مفت، علاج اور آپریشن کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
وزیر اعلیٰ مریم نوازشریف کا کہنا ہے عوام کی صحت اوّلین ترجیح ہے، اس کیلئے وسائل کی کمی نہیں ہونے دیں گے۔عوام کو سرکاری ہسپتالوں میں پرائیویٹ کلینک سے بہتر ماحول دینا چاہتے ہیں۔ ہر ہسپتال میں بہتری لانا چاہتے ہیں، ہر مریض کو مفت علاج کی سہولت اور ادویات ملنی چاہئیں۔ وزیر اعلیٰ مریم نوازشریف کا کہنا ہے عوام کو سرکاری ہسپتالوں میں پرائیویٹ کلینک سے بہتر ماحول دینا چاہتے ہیں۔
مریم نوازشریف کو چاہیے کہ وہ پنجاب کے اداروں کی بہتری کے ساتھ ساتھ پنجاب کے نوجوانوں کو سدھارنے کی طرف بھی اپنی خصوصی توجہ مرکوز کریں کیونکہ پاکستان خواندگی میں جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک سے بہت پیچھے ہے۔رپورٹس کے مطابق ملک میں اِس وقت شرح خواندگی لگ بھگ 63 فیصد ہے جبکہ صوبوں میں سب سے کم شرح خواندگی بلوچستان میں تقریباً 54 فیصد ہے، پنجاب میں 66 فیصد، سندھ میں 62فیصد اور خیبرپختونخوا میں شرح خواندگی 55 فیصد ہے،خواتین کی شرح خواندگی لگ بھگ 52فیصد جبکہ مردوں میں یہ شرح 73 فیصد کے قریب ہے۔بنگلہ دیش کی شرح خواندگی 74.91 فیصد ہے جو کہ پاکستان سے کہیں زیادہ ہے۔ گزشتہ سال پیش کیے گئے پاکستان اکنامک سروے کے مطابق پاکستان میں 32 فیصد بچے سکول سے باہر تھے اور اِن میں لڑکیوں کی تعداد زیادہ تھی جبکہ سندھ دوسرے نمبر پر تھا جہاں 44 فیصد بچے سکول نہیں جا رہے تھے۔ سروے میں بتایا گیا تھا کہ مالی سال 2022ء میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مجموعی تعلیمی اخراجات کا تخمینہ جی ڈی پی کا محض 1.7 فیصد تھا جبکہ دنیا کے دیگر ممالک تعلیم پر اِس سے کہیں زیادہ خرچ کر رہے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو یہ شرح پاکستان سے کئی گنا زیادہ ہے۔
ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر بچے کے لئے سکول جانا یقینی بنائے۔ آئین کی شق A 25 کے تحت تعلیم حاصل کرنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ نظامِ تعلیم کی کمزوری تو پرائمری سے ہی شروع ہو جاتی ہے۔ سرکاری سکولوں میں سہولتوں کی شدید کمی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ۔اساتذہ کرام کو ماڈرن ٹیکنالوجی سے روشناس کرایا جائے۔پی ٹی آئی کے دور حکومت میں ”سنگل نیشنل کریکلم“ ایس این سی کا شور اْٹھا، اس کو مرتب کرنے کے لئے بہت سے لوگوں کی خدمات حاصل کی گئیں، لیکن اسے بغیر مناسب منصوبہ بندی کے نافذ کر دیا جس کے کوئی خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوئے۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ نوجوان قومی چمن کے سدا بہار پھول ہیں، لیکن بدقسمتی سے آج ملک میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بے راہ روی کا شکار ہے۔ بدمعاشی اور غنڈہ گردی میں اضافہ ہو رہا ہے۔بے راہ روی کے بڑھنے کی ایک بڑی وجہ سوشل میڈیا کا بے محال استعمال ہے۔ اس کے ساتھ تعلیم کی کمی، مذہب سے دوری اور پھر رشوت، کرپشن، لاقانونیت، نفرت، راتوں رات امیر بننے کی خواہش ہمارے نوجوانوں کو بے راہ روی کی طرف تیزی سے مائل کر رہی ہے۔سب سے اہم یہ کہ ہم اپنے بچوں اور بچیوں کی اخلاقی تربیت پر بھی وہ توجہ نہیں دے رہے، آج نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ ان میں سے کئی تو ایسے ہیں جن کے والدین بھی ان سے خوفزدہ ہوتے ہیں، جس کے باعث یہ زیادہ بے خوفی سے مجرمانہ سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں۔لمحہ فکریہ ہے کہ ان میں اب کچھ لڑکیاں بھی شامل ہوتی جا رہی ہیں، جس کے باعث معاشرہ بگاڑ کی جانب بڑھ رہا ہے۔
آج ہمارے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد سرِشام گلی محلوں میں چوک چوراہوں پر دکھائی دیتی ہے۔یہ نوجوان گروپوں اور ٹولیوں کی صورت میں ہوتے ہیں،،جس کی وجہ سے جھگڑے اور سٹریٹ کرائمز میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان گروپوں میں سے کچھ تو بالکل ان پڑھ ہوتے ہیں، کچھ ایسے طالب علم بھی ہوتے ہیں جو پڑھائی پر مکمل دھیان نہیں دیتے، جس کے باعث معاشرہ تیزی سے بے راہ روی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ گزشتہ بارہ پندرہ سال میں ایسے گروپوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے سدِباب کے لئے حکومتی سطح پر سخت ترین اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے تعلیمی اداروں کے سربراہوں، تھانوں کے ایس ایچ او صاحبان کو خصوصی اختیارات تفویض کرنے ہوں گے۔ تعلیمی اداروں کے سربراہوں کو ہدایات جاری کی جائیں کہ جس طرح تمام طالب علم ایک جیسی یونیفارم میں سکول آتے ہیں، اسی طرح ان کے بالوں کے سٹائل مختلف ہونے کی بجائے ایک ہی ہوں، فوجی کٹنگ کو طلبہ کی یونیفارم اور شخصیت کا حصہ بنا دیا جائے۔ طلبہ کی ایک جیسی یونیفارم اور کٹنگ ہو گی تو اس سے ان کی شخصیت میں نکھار آئے گا۔صرف حلیہ درست ہونے سے آدھی سے زیادہ نسل نظم و ضبط کی پابند ہو جائے گی اور جو طلبہ تعلیمی اداروں میں غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث پائے جائیں، ان کے والدین کو بلا کر انہیں آگاہ کیا جائے۔ اگر وہ طالب علم والدین کے کہنے سننے میں نہیں ہیں تو انہیں سمجھایا بجھایا جائے۔
اگر اس پر بھی ان کی اخلاقیات بہتر نہیں ہوتیں تو پھر سخت تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے۔اوّل تو بالوں کا سٹائل بہتر ہونے سے ستر، اسّی فیصد طالب علموں کی اخلاقیات بہتر ہو جائیں گی، رہی سہی کسر والدین کے ساتھ میٹنگ کرنے سے پوری ہو جائے گی اور سخت ترین اقدامات کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی، بالخصوص ایسے میں جبکہ طلبہ کو معلوم ہو گا کہ اگر خود کو بہتر نہ کیا گیا تو انہیں کس قدر سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ رہی ان نوجوانوں کی بات جو شام ہوتے ہی، ٹولیوں اور گروپوں کی صورت میں گلی محلوں میں دکھائی دیتے ہیں، ان کے بھی پہلے حلیے درست کروائے جائیں، انہیں بھی فوجی کٹنگ کا پابند بنایا جائے، دوسرے ان پر ٹولیوں یا گروپوں کی صورت میں گلی محلوں میں بیٹھنے پر پابندی لگائی جائے۔ جو نوجوان اپنے والدین کے کہنے سننے میں نہیں یا جن کے والدین ہی نہیں، ان کے سرپرستوں کی ذمہ داری ہو کہ وہ ان بچوں کی اخلاقیات درست کریں۔ اگر یہ بچے ان کی بات نہیں مانتے تو حکومتی سطح پر ایک ادارہ بنا کر یا کسی بھی ادارے کو یہ ذمہ داریاں تفویض کر کے، اس کا پابند بنایا جائے کہ وہ اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے پوری کریں۔
اسی طرح ہر تعلیمی ادارے میں طلبہ کے مسائل کے حل اور ان کی کیرئیر کونسلنگ کیلئے کم از کم ایک استاد کو مختص کیا جائے۔ طلبہ کی کیرئیر کونسلنگ کے لئے باقاعدہ ہر ماہ بزمِ ادب کی طرز پر تقریب کا اہتمام ہو جس میں کسی ایسی معزز شخصیت کو مدعو کیا جائے جو اپنے تجربات سے طلبہ میں علم کے حصول اور ملک سے محبت کا جذبہ اجاگر کریں۔ اس طرح تیار ہونے والی نسل ملک سے محبت، اداروں کا احترام اور فرائض کی انجام دہی میں ذمہ داری کا مظاہرہ کرے گی۔
آج ملک میں بدقسمتی سے ہر چیز لگڑری ہو چکی ہے۔ معیاری تعلیم اور طبی سہولتیں ناپید ہو رہی ہیں۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں اور نجی یونیورسٹیوں کی فیسوں پر کسی کی نظر نہیں ہے۔ اب تو اکیڈمیوں اور ٹیوشن سنٹروں کی فیسیں بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔تمام پرائیویٹ تعلیمی ادارے من مانی فیسیں وصول کر رہے ہیں۔مزے کی بات یہ ہے کہ یہ تعلیمی ادارے فیسوں کے علاوہ بھی آئے روز مختلف مد میں طلبہ سے رقوم وصول کرتے رہتے ہیں۔ان کے اخراجات روز بروز بڑھ رہے ہیں اور تعلیمی معیار گرتا جارہا ہے۔ سرکاری سکول آج بھی بہت بہترین ہیں، لیکن معاشرے میں آج استاد کو وہ مقام میسر نہیں جو ترقی یافتہ ممالک میں ہے۔ استاد کو معاشرے میں تیسرے درجے کا شہری بنا دیا گیا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ استاد کو معاشی فکر سے آزاد کیا جائے،اسے احترام اور مراعات ملنی چاہئیں، انہیں بھی حکومت کی طرف سے پلاٹ بلکہ گھر ملنے چاہئیں۔آج اساتذہ کرام کو اپنے حق کے لئے بھی عدالتوں کا سہارا لینا پڑتا ہے، پھر بھی انہیں ان کا حق دینے کے لئے ٹال مٹول سے کام لیا جاتا ہے۔پنجاب کے نوجوان اور باصلاحیت وزیر تعلیم رانا سکندر حیات کو اللہ تعالیٰ نے ایسی خوبیوں سے نوازا ہے جو بہت کم لوگوں میں ہوتی ہیں، انہوں نے جس طرح امتحانی نظام کو بہتر کیا، اس پر یقینا وہ مبارکباد کے مستحق ہیں، وہ فوری طورپر مسئلے کو سمجھنے اور فوراً ہی اس کے حل کے لئے احکامات جاری کرتے ہیں، جتنی تیز رفتاری سے رانا سکندر حیات کام کرتے ہیں، اس پر انہیں جتنا بھی خراج تحسین پیش کیا جائے کم ہے۔ رانا سکندر حیات صاحب کو چاہیے کہ جو سرکاری افسر اپنی ذمہ داریاں بروقت ادا نہیں کرتے، ان کے خلاف سخت ترین تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے۔ یہ افسر اگر ریٹائرڈ ہو جائیں یا ٹرانسفر ہو جائیں تو بھی ان کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جانی چاہئے۔ اسی طرح اے جی آفس میں سرکاری ملازمین کے بقایاجات کی بروقت ادائیگی نہ کرنے والے ملازمین کو بھی نشانِ عبرت بنانے کی ضرورت ہے۔ بالخصوص وہ سرکاری ملازمین جو بھاری بھرکم رقم بطور رشوت وصول کرنے کے چکر میں اپنے فرائض بروقت انجام نہیں دیتے، ان کے خلاف بھی سخت ترین تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے۔
وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف سے گذشتہ دنوں چین کے اعلیٰ سطحی وفد نے پنجاب ہاؤس اسلام آباد میں ملاقات کی۔ ملاقات میں چینگ ڈو جنرل کوآرڈینیٹر برائے آئی سی ٹی ہب مس اسکارلٹ اور ڈپٹی سی ای او ہواوے مسٹر یو رے شامل تھے۔چینگ ڈو نے 700 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری پر رضامندی ظاہر کی ہے، جس کی وزیراعلیٰ مریم نوازشریف نے اصولی طور پر منظوری بھی دے دی ہے۔ چینگ ڈو حکومت کے تعاون سے ای- ٹیکسی سروس کا جلد آغاز کرے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ نوازشریف آئی ٹی سٹی میں چینی کمپنی کمپیوٹنگ سینٹر بھی قائم کرے گی۔ اس ملاقات میں نوازشریف آئی ٹی سٹی میں ڈیٹا اور کلاؤڈ سینٹر قائم کرنے پر اتفاق کیا گیا۔حکومت پنجاب ڈیٹا اور کلاؤڈ سینٹر قائم کرنے کے لئے اراضی اور بلڈنگ فراہم کرے گی۔ملاقات میں پاکستان میں پہلا ای کامرس پلیٹ فارم قائم کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا۔ چینی کمپنی پاکستانی نوجوانوں کو آن لائن ورلڈ وائڈ ٹریڈنگ کے لئے ٹریننگ بھی دے گی۔لاہور میں چین کے اشتراک سے سمارٹ کنٹرول روم، سمارٹ ٹریفک کنٹرول، سمارٹ ٹرانسپورٹ، سمارٹ سینی ٹیشن سینٹر قائم ہوگا۔
گزشتہ ماہ وزیراعلیٰ مریم نوازشریف کے دورہئ چین کے موقع ان کے وفد میں شامل وزیر ٹرانسپورٹ بلال اکبر اور وفد کے دیگر ارکان کو دورہئ چین میں جدید ترین ڈیجیٹل سینٹرز کے بارے میں بریفنگ دی گئی تھی۔ واضح ہو کہ فیز ٹو میں چین کی مدد سے جلد ہی پنجاب کے نوجوانوں کو آرٹیفیشل انٹیلی جنس ٹیکنالوجی سے متعارف کرانے کے لئے اے آئی انڈسٹری سینٹر بھی قائم کیا جائے گا۔اس کے علاوہ چینی حکومت پنجاب میں پلیٹ فارم سروس کیپسٹی بلڈنگ کے لئے بھی معاونت فراہم کرے گی۔ فیز تھری میں انڈسٹریز کے قیام کے لئے لوکل انویسٹمنٹ میں معاونت کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ، پاکستانی نوجوانوں کو ٹیکنالوجی کے جدید تقاضوں سے متعارف کرانے کے لئے بھی اشتراکِ کار کیا جائے گا۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کا اس موقع پر کہنا تھا کہ چین کے تعاون سے پنجاب کو سب سے بڑا آرٹیفشل انٹیلی جنس سینٹر بنانا چاہتے ہیں۔پنجاب بہت جلد خطے کا آئی ٹی ہب بنے گا۔ہم اپنے بچوں کو آئی ٹی میں سب سے برتر دیکھنا چاہتے ہیں۔
وزیراعلیٰ مریم نوازشریف کا کہنا ہے کہ ہماری حکومت مہنگائی کو تاریخ کی کم ترین سطح پر لانے میں کامیاب رہی ہے۔مہنگائی کا جن بوتل سے نکل آئے تو اسے بند کرنا مشکل ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور عوام کی دعاؤں سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے ایسا کر دکھایا ہے۔ وزیراعلیٰ مریم نوازشریف کا کہنا ہے کہ نوجوانوں کو جلاؤ گھیراؤ،پٹرول بم، تھانے اور قومی اداروں پر حملہ کرنے کی ترغیب کے دن گئے، اب ان کو روزگار اور تعلیم دی جائے گی۔ میرا خواب ہے کہ نوجوانوں کو روزگار مہیا کروں تاکہ وہ اپنی ڈگریاں ہاتھوں میں لیے نہ پھر رہے ہوں۔۔مریم نوازشریف کی حکومت کا موازنہ اگر سابقہ حکومتوں سے کیا جائے تو یقینا زمین آسمان کا فرق محسوس ہو گا۔ مریم نوازشریف کی اس کامیاب کارکردگی کے پیچھے جہاں ان کے جہاں دیدہ والد ِمحترم میاں محمد نواز شریف کا تجربہ ہے، وہیں سینیٹر پرویز رشید، صوبائی وزیرِ اطلاعات عظمیٰ بخاری، سینئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب، وزیر پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر خواجہ عمران نذیر، خواجہ سلمان رفیق سمیت ان کی کابینہ کے اراکین بالخصوص ان کے معاونِ خصوصی راشد اقبال نصراللہ کی کاوشوں کو بھی کسی صورت نظر انداز نہیں کیا سکتا۔ ٭٭٭
٭٭٭