کومیلا سے قصبہ (Kasba) جانے کے لئے دو راستے تھے۔ ایک راستہ جو چھوٹا تھا وہ سالدا ندی سے ہو کر گزرتا تھا، بارڈر کے متوازی چلا جاتا تھا اور بارڈر کے نزدیک تر بھی تھا۔ یہ راستہ تنگ تھا اور کئی مقامات پر بلیک ٹاپ بھی نہیں تھا۔ دوسرا راستہ (سڑک) طویل تھا، کمپنی گنج میں سے ہو کر گزرتا تھا اور کومیلا کو سلہٹ سے ملانے والا راستہ یہی تھا۔ یہ سڑک مشرقی پاکستان کے موسم اور آب و ہوا کو مدّ ِنظر رکھ کر تعمیر کی گئی تھی اس لئے ”ہمہ موسمی“ (All Weather) سڑک تھی۔ اِردگرد کی زمینوں کی مٹی کھرچ کر اس پر ڈال دی گئی تھی اور اس کو اونچا کیا گیا تھا اس لئے سڑک کے دونوں اطراف میں جہاں سے مٹی اٹھائی گئی تھی گہرے گڑھے بن گئے تھے۔ عسکری نقطہ ء نظر سے دیکھا جائے تو قصبہ گویا موت کا پھندا تھا۔ یہ ایک ایسا محصور علاقہ (Enclave) تھا جس کارقبہ بمشکل 1000مربع گز تھا اور اس کے تین اطراف میں انڈیا تھا۔ بانس اور ناریل کے جنگل اتنے گھنے تھے کہ ان میں کسی انسانی سرگرمی کا پتہ چلانا ممکن نہیں تھا۔
کمپنی گنج میں علاقے کے بعض بڑے بوڑھے بریگیڈیئر خالد کے پاس پہنچے اور رضاکارانہ پیش کش کی کہ وہ مقامی پلوں کی حفاظت کریں گے۔ ان کی پیشکش قبول کرلی گئی اور پلوں کو کوئی نقصان نہ پہنچا۔ (لیکن یہ پل فریقِ مخالف کے لئے بھی اتنے ہی مفید تھے۔)
قصبہ میں ایک ہجوم ہاتھوں میں پاکستانی پرچم پکڑے حاضر ہوا اور ہمارے ٹروپس کا خیر مقدم کیا۔ لیکن رات ہوئی تو ان کو ایک اور خیال آیا۔ ہوا یہ کہ 3انچ مارٹر کے بعض گولے بڑی سڑک پر ہماری توپوں کے نزدیک آکر گرے اور ساتھ ہی اکا دکا کا فائرنگ بھی سنائی دی۔ تاہم قصبہ پر 14اپریل کو قبضہ کرلیا گیا لیکن اس کے آگے نقل و حرکت رک کررہ گئی۔ مقامی ندی نالوں پر جتنے بھی پل بنے ہوئے تھے،سارے مسمار کر دیئے گئے۔ 12ایف ایف کا ایک دلیر کیپٹن ایک پلاٹون لے کر ندی کے پار جااترا اور وہاں ایک برج ہیڈ قائم کر دیا۔
17اپریل کو117بریگیڈ نے گنگاساگر ریلوے اسٹیشن پر قبضہ کرلیا جو قصبہ سے سات میل شمال میں واقع تھا۔17اپریل ہی کو میجر جنرل رحیم خان (14 GOC ڈویژن) نے قصبہ میں میجر جنرل شوکت رضا (9 GOC ڈویژن)سے ملاقات کی۔ جنرل رحیم اور کمانڈنگ آفیسر 22بلوج ہیلی کاپٹر کے ذریعے آئے تھے۔ 22بلوچ،آشو گنج پر تسلط کی لڑائی میں مصروف تھی۔ دریائے میگھنا کراس کرنے کے بعد وہ آفیسرز 9ڈویژن کے زیر کمانڈ آگئے تھے۔ 117بریگیڈ نے اکھوڑا سے ایڈوانس کرتے ہوئے برہمن باڑیا کے مقام پر 22بلوچ کے ساتھ لنک اَپ کرنا تھا۔
117بریگیڈ کو مواصلات کی پرابلم درپیش تھی۔ وہ بڑی سڑک جو کومیلا سے برہمن باڑیا جاتی تھی وہ قصبہ،گنگاساگر اور اکھوڑاسے نہیں گزرتی تھی۔موخر الذکر تینوں مقامات پر ریلوے سٹیشن بھی تھے جو چٹاگانگ، کومیلا اور سلہٹ کو جاتے تھے۔اس ریلوے لائن پر قصبہ، گنگا ساگر اور اکھوڑا بھی واقع تھے۔ ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ متوازی انداز میں واقع ایک کچا ٹریک بھی تھا جس کا ایک بازو انڈین سرزمین پر واقع تھا۔اکھوڑا اور برہمن باڑیا بذریعہ ریل ملحق تھے۔ یہ ریلوے لائن آشوگنج کے مقام پر دریائے میگھنا کو عبور کرتے ہوئے ڈھاکہ کی طرف چلی جاتی تھی۔
اکھوڑا کے بالمقابل تقریباً 10میل کی دوری پر اگر تلہ کے مقام پر انڈیا کا ایک ملٹری سٹیشن (Base)بھی تھا جس میں انڈین ائر فورس کا ایک ونگ (چندطیارے) اور ایک انفنٹری بریگیڈ مقیم تھے۔اگر تلہ میں میجر خالد مشرف بھی مقیم تھا جو کومیلا اور برہمن باڑیا میں مکتی باہنی کے آپریشنوں کا انچارج تھا۔ مشرف نے 1968ء میں بریگیڈیر شوکت رضا کے ماتحت سٹاف کالج کوئٹہ سے گریجوایشن کی تھی اور جولائی تا دسمبر 1969ء بریگیڈیر شوکت رضا کے ماتحت ان کا بریگیڈ میجر (BM)بھی رہا تھا۔ بریگیڈیئر شوکت رضا ان ایام میں 57بریگیڈ کمانڈ کررہے تھے جو کھاریاں میں تھا۔ انہی ایام میں 57بریگیڈ نے شب خون مارنے کے موضوع پر تفصیلی ہدایات تیار کی تھیں۔ مشرف نے ان ایام میں اس موضوع پر بڑی محنت کی تھی اور ایک ہونہار شاگرد کے طور پر سامنے آیا تھا۔ اس نے 57بریگیڈ میں اس ایجوکیشن پر بڑی تندہی سے کام کیا تھا۔ کیا خبر تھی کہ وہ اسی موضوع پر آگے چل کر ہمیں بہت سے سانحات سے دوچار کر دے گا۔
117بریگیڈ نے 19اپریل کو بمقام برہمن باڑیا 22بلوچ سے لنک اُپ کیا۔ 22بلوچ کے کمانڈنگ آفیسر نے بریگیڈیر K.Mخالد (117بریگیڈ) کو مطلع کیا کہ اس کی بٹالین کے پاس گزشتہ دس دنوں سے نہ تو کوئی سونے اور آرام کرنے کے بستر ہیں اور نہ ہی کھانا تیار کرنے کی کوئی سہولت ہے۔ اس لئے 22بلوچ کو مقامی ذرائع سے کھانے پینے اور سونے کے سامان کا بندوبست کرنا پڑا۔
33بلوچ اور 22بلوچ کی دو کمپنیاں، قصبہ۔ گنگا ساگر۔ اکھوڑا۔ برہمن باڑیا۔ آشوگج۔بھیراب بازار ایریا کی ذمہ دار تھیں۔ بٹالین کمانڈر نے فیصلہ کیا کہ ایک ایک کمپنی، قصبہ، اکھوڑا، برہمن باڑیا اور بھیراب بازار میں مقیم کر دی جائے۔ بٹالین ہیڈکوارٹر برہمن باڑیا میں بنایا گیا اور یہی بہترین انتظام تھا جو جاری صورتِ حال میں کیا جا سکتا تھا۔ ان کمپنیوں کے درمیان رابطہ بذریعہ پیٹرولنگ قائم کیا گیا۔ ان پیٹرولوں (گشتی دستوں) پر قصبہ اور اکھوڑا کے مابین بارہا شب خون مارے گئے۔
ہم نے فیصلہ کر رکھا تھا کہ بارڈر کو سیل (Seal) رکھا جائے گا۔ ہمارے اسی دھڑکے نے مکتی باہنی کو اس قابل بنا دیا کہ وہ اپنے آپریشنز اور ہمارے ری ایکشن کو بڑے درست انداز میں پلان کر سکے۔ مکتی باہنی انڈین سرزمین سے ہمارے ہاں آتی اور پاکستان کے اندر پچاس گز سے ایک سو گز تک گھس کر چھاپے مارتی تھی۔ وہ اپنی پوزیشنوں سے ہماری پوزیشنوں پر بڑا نپا تلا فائرکرتی۔ ہماری پوزیشنوں کی معلومات مقامی لوگوں سے حاصل کرتی تھی۔ اس قسم کی صورتِ حال سے نمٹنے کے لئے ہمارے پاس کوئی راستہ نہ تھا۔ مکتی باہنی والے آتے اور بارڈر کی متوازی پوزیشنوں سے ہم پر فائرنگ کرکے رفوچکر ہوجاتے تھے۔ ہم جب بھی ان پر جوابی فائر کرتے تھے تو یہ فائر پھسل کر (ریکوشٹ ہو کر) انڈین علاقے میں جا گرتا تھا۔ انڈین اس فائرنگ کے جواب میں ہمیں بطور سزا جی بھر کر زیرِ فائر لے آتے تھے۔
9ڈویژن نے کئی بار احتجاج کیا کہ ہمارے ٹروپس کے جانی نقصانات کم کئے جا سکتے ہیں اگر ان کو ایک بٹالین کی ٹیکٹکل صورت میں ڈیپلائے کر دیا جائے۔ لیکن ہماری ڈیپلائے منٹ ذیلی ٹکڑوں (Fragments) میں بٹی رہی اور جوں جوں وقت گزرا یہ ذیلی ٹکڑیاں کم ہو کر سیکشنوں (صرف 10آدمی) تک جا پہنچیں۔
جب برہمن باڑیا پر 9ڈویژن نے قبضہ کرلیا تو اس کے بعد اسے سلہٹ میں 313بریگیڈ کے ساتھ لنک اَپ کرنا تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لئے 313بریگیڈ کو حکم دیا گیا کہ وہ مولوی بازار اور سری مانگل (Srimangal) پر قبضہ کرے اور 117بریگیڈ کو بھی حکم دیا گیا کہ وہ اَٹھ کھولا (Ithakhola)اور شائستہ گنج پر تسلط حاصل کرے۔اندازہ لگایا گیا کہ یہ لنک اَپ مئی کے پہلے ہفتے تک مکمل کر لیا جائے گا لیکن یہ ملاپ 28مئی کو کہیں جا کر مکمل ہوا۔
24گھنٹوں کے اندر اندر ان احکامات کو تبدیل کرنا پڑا۔ایسٹرن کمانڈ فینی (Feni) پر قبضے کے لئے بہت بے تاب تھی۔ وجہ یہ تھی کہ چٹاگانگ میں بحری جہازوں سے جو سامان اتارا جا رہا تھا اس نے اس بندرگاہ کو لبالب (Choke)کر دیا تھا۔ اس سامان کو اس وقت تک اندرون ملک نہیں بھیجا جا سکتا تھا جب تک فینی پر قبضہ نہ کر لیا جاتا اس لئے فینی ایک اہم ہدف تھا۔ جب تک فینی۔ کومیلا روڈ بارڈر کے ساتھ ساتھ متوازی چلتی تھی اس وقت تک دشمن کی مداخلت کے زیرِ خطر رہتی تھی۔ خانہ جنگی ختم ہونے تک یہی صورتِ حال رہی۔ بالکل یہی صورتِ حال اس ریلوے ٹریفک کی بھی تھی کہ جو کومیلا۔ اکھوڑا کے درمیان چلتا تھا۔ تاہم اگر فینی ہمارے قبضے میں آجاتا تو چٹاگانگ سے فینی۔ بیگم گنج۔ لکشمن روڈ، اندرونِ ملک ٹریفک کے لئے استعمال کی جا سکتی تھی۔ اس کا متبادل صرف دریائی ٹرانسپورٹ تھی جو یا تو دستیاب نہ تھی اور جو تھی وہ ناقابلِ استعمال ہو چکی تھی اور اس کو قابلِ استعمال نہیں بنایا جا سکتا تھا…… خانہ جنگی میں یہی کچھ تو ہوتا ہے۔
117بریگیڈ کو حکم دیا گیا کہ جانبِ جنوب روانہ ہو اور 33بلوچ کو آشوگنج، برہمن باڑیا، اکھوڑا اور قصبہ کے دفاع کے لئے پیچھے چھوڑ دے۔کومیلا کا دفاع 22بلوچ کو سونپا گیا۔
117بریگیڈ کا پلان حسبِ ذیل تھا:
1۔39بلوچ بمعہ ایک فیلڈ بیٹری، لکشمن پر اکٹھی ہو اوربعدازاں بیگم گنج۔ فینی روڈ پر ایڈوانس کرے۔
2۔12ایف ایف لکشمن۔فینی ریلوے ٹریک کے ساتھ ساتھ ایڈوانس کرے۔
21اپریل کو یہ ایڈوانس شروع ہوا اور 23اپریل کو 0900بجے تک فینی پر قبضہ کر لیا گیا۔
39بلوچ نے مئی کے پہلے ہفتے میں نواکھلی پر قبضہ کرلیا۔
21اپریل کو سکاؤٹس کا ایک ونگ یہاں پہنچ گیا۔ ان کے پاس نہ تو کوئی مشین گن تھی، نہ مارٹر اور نہ مواصلاتی ساز و سامان حتیٰ کہ کھانا پکانے کے برتن بھی نہیں تھے،کوئی بسترے نہ تھے حتیٰ کہ یونیفارم کا دوسراجوڑا بھی نہ تھا۔ کفائت شعاری اور سادگی کا یہ ایک انوکھا نمونہ تھا۔ ان کے پاؤں میں چپلیں تھیں اور ان کا سارا سامان صرف 303کی رائفلیں تھیں، ہر رائفل کے لئے 50،50 کارتوس تھے اور تن پر صرف ایک وردی تھی…… لیکن انہوں نے اسی بے سروسامانی میں اپنے آپ کو خود سنبھالے رکھا۔
25اپریل کو 30پنجاب مغربی پاکستان سے آ پہنچی۔ اسے لکشمن، سونامورا اور بائبر بازار ایریاز کو کلیئر کرنے کے لئے استعمال کیا گیا۔
12ایف ایف کو ایک آدھ دن تک آرام کرنے کے لئے کومیلا بلایا گیا اور پھر شائستہ گنج اور حبیب گنج (Habibgung)روانہ کر دیا گیا۔ساری آل (Sarial) سے آگے ٹروپس کے ایڈوانس کی رفتار بہت آہستہ ہو گئی۔ بہت سے پلوں کو مسمار کر دیا گیا تھا اور باغیوں نے سرتوڑ کوشش یہ بھی کی تھی کہ گردونواح میں ایک بھی کشتی ایسی باقی نہ چھوڑی جائے جو ندیوں کو عبور کرنے میں استعمال کی جا سکے۔12ایف ایف نے جب حبیب گنج کو کلیئر کر لیا تو شائستہ گنج کے مقام پر 32بلوچ (313بریگیڈ) سے جا ملی۔ اب مئی کا تیسرا ہفتہ آ گیا تھا۔ لنک اَپ کے بعد 12 ایف ایف واپس کومیلا روانہ ہو گئی۔
اس بٹالین کے پاس راشن اور ایمونیشن بہت کم ہو چکا تھا اور اس کا رابطہ 117بریگیڈ سے بھی ٹوٹ چکا تھا۔ اس لئے بٹالین نے رات کو سفر پر نکلنے کا رِسک مول لیا۔
ساری آل (Sarial)سے کچھ پہلے اگلا ٹرک ایک بارودی سرنگ سے ٹکرایا۔ 30آدمی مارے گئے۔ بٹالین کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل K.K آفریدی نے ہمت سے کام لیا، ندی کو تیرکر عبور کیا اور اکیلا رات کی تاریکی میں پیدل چلتا ہوا،برہمن باڑیا تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ تمام علاقہ دشمن سے گھرا ہوا تھااور اس کا برہمن باڑیا میں 33بلوچ سے جا ملنا ایک معجز ہ تھا۔ اس کی خبریں اگلے روز 9ڈویژن ہیڈکوارٹر میں پہنچیں۔ ایسٹرن کمانڈ کو درخواست کی گئی کہ 12ایف ایف کو تین دن کا راشن اور ایمونیشن، بذریعہ طیارہ بھیجا جائے۔ اس پر کافی بحث ہوئی اور بالآخر راشن اور ایمونیشن بھیج دیا گیا۔
اس طرح ایک ہفتہ بعد 12ایف ایف تھکی ماندی 117بریگیڈ میں پہنچ گئی لیکن حوصلہ پھر بھی نہ ہارا۔
مکتی باہنی نے اس دوران 9ڈویژن کا خاصا نقصان کیا۔
313بریگیڈ:بریگیڈیئر افتخار رانا اس بریگیڈ کے کمانڈر تھے۔ یہ بریگیڈ 4اپریل کو بذریعہ طیارہ ڈھاکہ پہنچا تھا اور ڈھاکہ سے 7اپریل کو سلہٹ (بذریعہ طیارہ) پہنچایا گیا۔ اس میں درجِ ذیل یونٹیں زیر کمانڈ کی گئیں:
1۔ 31پنجاب…… پہلے سے سلہٹ میں موجود تھی اور لیفٹیننٹ کرنل سرفراز ملک اس کے کمانڈنگ آفیسر تھے۔
2۔32بلوچ…… لیفٹیننٹ کرنل غلام عباس اس کے کمانڈنگ آفیسر تھے۔
سلہٹ میں ایسٹ پاکستان رائفلز کا ایک ونگ بھی مقیم تھا۔ ایسٹ پاکستان رائفلر 26اور 27مارچ کی درمیانی شب غداری کی مرتکب ہوئی اور لوکل پولیس اور رضا کاروں وغیرہ سے جاملی۔
9اپریل کو 2بلوچ نے سلہٹ ائرپورٹ کے دفاع کا چارج سنبھالا۔31پنجاب نے بھی شہر (سلہٹ) پر قبضہ کرلیا۔ اس آپریشن میں باغیوں کی اُن پوزیشنوں پر بھی ایک فضائی حملہ کیا گیاجو دریائے سُرما (Surma) پر تعمیر ایک پل کے جنوبی حصے میں واقع تھیں۔ اس ایکشن کے بعد 31پنجاب (ایک کمپنی کم) کو سلہٹ شہر اور ائرپورٹ کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔ 32بلوچ (جس میں 31پنجاب کی ایک کمپنی بھی شامل تھی) کو حکم دیا گیا کہ وہ سلہٹ سے لے کر مولوی بازار تک کی سڑک کلیئر کرے۔اپریل کے تیسرے ہفتے تک 32بلوچ دریائے کھوسی یارا (Khusiyara) کے گھریلو کنارے تک پہنچ چکی تھی۔ اس جگہ یہ دریادوشاخوں میں تقسیم ہو جاتا تھا۔ یہ دونوں شاخیں ناقابلِ عبور تھیں اور ان کو عبور کرنے کے لئے پٹرول کی قوت سے چلنے والی کشتیاں درکار تھیں۔ ان دو شاخوں کے درمیانی علاقے میں بہت گنجان جنگل تھا جس میں باغی قبضہ جمائے بیٹھے تھے۔
اگلے روز 32بلوچ کو پٹرول سے چلنے والی دو کشتیاں مل گئیں اور 120ایم ایم مارٹر کا ایک ٹروپ بھی دے دیا گیا۔(ایک ٹروپ میں تین مارٹر ہوتے ہیں)دریا کی پہلی برانچ تو بغیر کسی پرابلم کے عبورکرلی گئی لیکن دوسری پوزیشن کو کلیئر کرنے کے لئے فضائی حملہ کرنا پڑا۔ مولوی بازار سے 5میل پیچھے 32بلوچ کو چند باغی پوزیشنوں کا سامنا ہوا لیکن انہیں جلد کلیئر کر لیا گیا۔
مئی کے آغاز میں فرنٹیئر کور کا ایک دستہ سلہٹ پہنچ گیا۔ اس دستے میں تین کمپنیاں تھیں جو لیفٹیننٹ کرنل اکرام کی کمانڈ میں تھیں۔
مولوی بازار پر قبضے کے بعد 32بلوچ نے سری مینگل کی طرف ایڈوانس شروع کیا اور مئی کے دوسرے ہفتے میں اس پر قبضہ کرلیا۔مئی کے تیسرے ہفتے میں 32بلوچ نے 12ایف ایف کے ساتھ لنک اَپ کرلیا جو جنوب کی طرف سے شائستہ گنج کی جانب سے آ رہی تھیں۔
دریں اثناء 31پنجاب نے وہ سڑکیں بھی کلیئر کردیں جو سلہٹ سے نکل کر شمال، مشرق اور جنوب میں انڈین بارڈر کی طرف جاتی تھیں۔ مئی کے تیسرے ہفتے تک جانتی پور، ہری پور، تمبل اور سونم گنج پر قبضہ کرلیا گیا۔ مئی کے اواخر میں 313بریگیڈ نے رپورٹ دی کہ سلہٹ اور اس کے نواحی علاقوں کو کلیئر کیا جا چکا ہے۔
53بریگیڈ:بریگیڈیئر اقبال شفیع 24ایف ایف کی قیادت کرتے ہوئے 31مارچ کو چٹاگانگ پہنچ گئے۔ 25ایف ایف 25مارچ کو بذریعہ طیارہ چٹاگانگ میں اتر چکی تھی۔یکم اپریل کو 205بریگیڈ، زیرِ قیادت بریگیڈیئر ایس اے حسن ڈھاکہ سے بذریعہ فضا چٹاگانگ پہنچا۔ ہیڈکوارٹر 205بریگیڈ نے ہیڈکوارٹر 5بریگیڈ سے چارج سنبھالا جس کو اب مارشل لاء فرائض انجام دینے تھے۔
درجِ ذیل یونٹیں 205بریگیڈ کے زیرِ کمانڈ کر دی گئیں:
1۔20بلوچ
2۔24ایف ایف
3۔25ایف ایف
4۔2کمانڈو بٹالین (وہ عناصر جو چٹاگانگ میں تھے)
باغیوں نے چانک بازار (Chank Bazar)چاندری ہاٹ اور فوجدار ہاٹ میں دفاعی پوزیشنیں قائم کی ہوئی تھیں۔ 3اپریل کو 20بلوچ نے دو ٹینکوں کے ہمراہ چانک بازار کلیئر کر دیا اور 25ایف ایف نے فوجدار ہاٹ تک کا ایریا کلیئر کر دیا۔ 24ایف ایف دریائی کنارے پر پہنچ گئی۔4اپریل تک باغیوں کا ریڈیو ٹرانسمیٹر تباہ کر دیاگیا۔ 9اپریل تک چٹاگانگ باغیوں سے کلیئر کروایا جا چکاتھا۔
10اپریل کو 25ایف ایف کو حکم دیا گیا کہ کپتائی (Kaptai) جانے والی سڑک کو باغیوں سے کلیئر کرے۔ مادام ہاٹ میں ایک ایکشن کے دوران لیفٹیننٹ تابش ایک حملے کی قیادت کرتے ہوئے مارا گیا۔
دریں اثناء 20بلوچ نے ہاٹ ہزاری پر بھی تسلط حاصل کرلیا۔
11اپریل کو ہیڈکوارٹر 53بریگیڈ نے ہیڈکوارٹر 205بریگیڈ کو آپریشنل ذمہ داریوں سے سبکدوش کر دیا اور مارشل لاء کے فرائض سنبھال لئے۔
12اپریل کو 25ایف ایف چندرگونا بھیجی گئی۔ 20بلوچ کو کپتائی پر قبضہ کرنے کاٹاسک سونپا گیا۔15اپریل کی دوپہر کو چندرگونا اور شام تک کپتائی پر قبضہ کرلیا گیا۔
16اپریل کو 24ایف ایف نے دریائے کرنافلی کے مشرقی کنارے پر قبضہ کرلیا۔17اپریل کو 25ایف ایف نے سیتاکند (Sita Kund) اور 2کمانڈو نے رانگامتی پر تسلط پا لیا۔ اس طرح26مئی کو 22ایف ایف، 20بلوچ اور ایس ایس جی پلاٹون نے بلونیا سیلنیٹ کو کلیئر کردیا۔ یہ سیلینٹ ایک انگلی کی طرح انڈین علاقے کے اندر تک چلا گیا تھا اور اس ”انگلی“ کی طوالت 20میل تھی۔ تصور کیا جا سکتا ہے کہ اس 20میل طویل اور تنگ سیلینٹ پر کہ جس کے دونوں اطراف میں دشمن کا علاقہ ہو وہ دشمن کے شب خونوں سے کس طرح محفوظ رہ سکتا ہے۔ انڈیا کی طرف سے ناگہانی حملوں کے لئے یہ بہترین علاقہ (Salient) تھا۔ ہمارے پاس اتنے ٹروپس نہیں تھے کہ مستقل طور پر اس ایریا میں رکھ دیتے۔ چنانچہ 9ڈویژن اس ایریا میں گاہے بگاہے حسبِ ضرورت پٹرول بھیجتا رہا اور اپنی حربی قوت کو کمزور کرتارہا۔ ہمارے ان پٹرولوں کو مسلسل بارودی سرنگوں اور شب خونوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس طرح 9ڈویژن کی قوتِ ضرب گھٹتی گئی اور مکتی باہنی کو ”بڑے ارزاں نرخوں“ پر ٹریننگ اور حوصلہ افزائی کے مواقع ملتے رہے۔
مئی کے اواخر تک 53بریگیڈ نے چٹاگانگ ایریا کلیئر کردیا تھا اور 117بریگیڈ سے ملاپ کر لیا تھا اور دریں اثناء اس نے رام گڑھ اور کاکسز بازار (Cox`s Bazar)پر بھی قبضہ کرلیا تھا۔(جاری ہے)