قانون ساز اتھارٹی اور ملکی مفاد

جب ہمارے ملک میں سیاسی قحط اور جامد کلچرکی روایات استحکام پذیر ہیں تو اس کا صاف مطلب ہے کہ ہمارے ہاں نہ صرف مروجہ طرز ِ حکومت، بلکہ قومی کردار میں بھی کوئی بنیادی خامی ضرور موجود ہے۔ اس ضمن میں صرف حکمران طبقے کو ہی مورد ِ الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ وہ لوگ جو ان حکمرانوں کو برداشت کرتے ہیں، وہ بھی بدعنوانی، لاقانونیت، انتہا پسندی، سماجی افراتفری اور تشدد کے ذمہ دار ہیں۔ آج ہم دہرے رویے، دہری شہریتیں اور دہری وفاداری رکھنے والی قوم ہیں، جبکہ ہمارے حکمرانوں کے پاس دہرے اختیار ات ہوتے ہیں۔ پاکستان کی قومی شخصیت کے آئینہ دار اگر کوئی صاحب ہیں وہ ”ڈبل شاہ“ ہیں۔ شاید ہم میں سے بہت سوں کو یاد نہیں ہو گا کہ گجرات کے کسی قصبے سے تعلق رکھنے والا ایک دھوکے باز ، جو عرف ِ عام میں ڈبل شاہ کہلاتا ہے، کی دہری شہریت تھی۔ چند سال پہلے تک وہ تمام میڈیا کی شہ سرخیوں میں تھا ،کیونکہ اس نے ہزاروں افراد سے اربوں روپے اس بہانے سے بٹور لئے تھے کہ وہ ان کو چند ہفتوںکے اندر اندر دوگنا کر دے گا۔ اب اس کیس کا کیا بنا ؟ ....کوئی نہیں جانتا، کیونکہ بہت سے بااثر افراد اس کو بچانے کے لئے سرگرم ِ عمل تھے۔
اسلام آباد کی آنٹی شمیم سے لے کر نوے کی دھائی کے کوآپرٹیوسکینڈل تک ہماری تاریخ ہر قسم کی منفی سرگرمیوںسے عبارت ہے۔ ہماری قومی زندگی کا ہر شعبہ بدعنوانی سے لبریز ہے۔ حالیہ دنوں میں ہم ارباب ِ اقتدار اور ان کے اہل ِ خانہ کی بدعنوانی کے عقربی سکینڈلز کو دیکھ رہے ہیں۔ ان میں سے بہت سے کیس اس سنگین نوعیت کے ہیں کہ ان کا تعلق براہ ِ راست ہمارے ملک کی بقا سے ہے۔ ان میں سے سب سے سنگین میمو سکینڈل ہے۔ اس کے خالق نے، جو نہایت اعلیٰ عہدے پر فائز تھے، ایک غیر ملکی سپر پاو ر سے استدعا کی کہ وہ پس ِ پردہ مداخلت کرتے ہوئے پاک آرمی پر دباﺅ ڈالے تاکہ وہ اپنے ”مقام “ پر رہے۔ در اصل نااہل اور ساکھ سے محروم افراد میمو کی تحریر اس حقیقت کا اعتراف ہے جن کے پاس نہ تو قوی نظریات تھے اور نہ ہی ان کو اتنی عوامی حمایت حاصل تھی کہ وہ دفاعی اداروںکو سول کنٹرول میں لا سکیں، نے یہ سازشی قدم لیا اور پاکستان کے داخلی معاملات میں غیر ملکی مداخلت کو دعوت دی۔
عدالتی تفتیش نے پہلے ہی میمو سکینڈل کے مبینہ مقاصد کی تصدیق کر دی ہے اور اب عدالتی کارروائی کا انتظار ہے کہ اس کی ذمہ داری کس کے سر جائے گی۔ یہ عالمی افق پر انتہائی پیچیدہ اور گھناﺅنی سازش سمجھی جائے گی، کیونکہ اس میں ایک ریاست خود اپنی خودمختاری کے خلاف سازش میں ملوث پائی گئی۔ حال ہی میں ایک پراپرٹی کنگ کی طرف سے میڈیا اور عدلیہ کو ایک سکینڈل میں ملوث کرنے کی کوشش کی گئی اور یہ دو ادارے ریاست کے دو اہم ستون ہیںجن کو عوام، اعلیٰ عہدوں پر فائز لوٹ مارکرنے والے گروہوں کے خلاف امید کی آخری کرن سمجھ کر دیکھتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ چال اپنے حتمی مقاصد کے حصول میںناکام رہی ہو، مگر اس نے بہر حال عدلیہ اور میڈیا پرسے عوام کے اعتماد کو متزلزل کر دیا ہے، تاہم سازشوں اور الزامات کے ذریعے سپریم کورٹ کو محدود کرنے کی کوششیں ابھی تک جاری ہیں۔بدعنوانی کی سیاہی سے تاریک تر ہوتی ہوئی ہماری سرزمین پر صرف یہی واحد سازش نہیںہے، اس طرح کے ڈرامے ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں۔ وکی لیکس کا شکریہ، کہ ہمارے حکمرانوں کی طرف سے غیر ملکی قوتوںکے ساتھ ساز باز کرکے اپنے اقتدار کو طوالت دینا اب کوئی راز نہیں رہا ہے۔
ایسے ہی پس ِ پردہ اقدامات میں سے سب سے بدنام این آر او ہے جس کے تحت ایک فوجی آمر نے امریکہ سے درخواست کی تھی کہ وہ ایسا سیٹ اپ قائم کرنے میں اس کی مدد کرے، جس میں وہ بطور صدر اپنے عہدے پر قائم رہے، جبکہ ایک نام نہاد جمہوری حکومت قائم کی جائے، جس میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ شراکت ِ اقتدار کا فارمولہ طے ہو جائے۔ این آر او پر سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے، مگر اس پر عمل ہونا ابھی باقی ہے....(اس پاداش میں ایک وزیر ِ اعظم نااہل قرار دیے جاچکے ہیں ).... تاہم ایسا لگتا ہے کہ ابھی موجود حکومت نے کوئی سبق نہیں سیکھا اور وہ جارحانہ قوانین بنا کر سپریم کورٹ پر وار کرنا چاہتی ہے۔ موجودہ پارلیمنٹ نے، جس نے عوام کے دکھوںکا کوئی مداوا نہیں کیا ہے، گزشتہ چند ماہ کے دوران صرف حکمران طبقے کے مفادات کو تحفظ دینے کے لئے نہایت سرعت سے قانون میں ترامیم کی ہیں۔ دواور آئینی ترامیم کی جارہی ہیں ایک تو سپریم کورٹ کے آئینی معاملات کی تشریح کے اختیار کو سلب کرنے اور دوسری دہری شہریت رکھنے والے افراد کے لئے عوامی عہدے رکھنے کو جائز قرار دینا ہے (آئین کا آرٹیکل 63 (1) ( c ) دہری شہریت رکھنے والوں کو عوامی عہدے رکھنے کی اجازت نہیںدیتا ہے)۔ ان دونوں متوقع ترامیم کو روکا جانا چاہیے، کیونکہ ان کے منظور ہونے کو آئینی آمریت سمجھا جائے گا۔
اس میں کوئی شک نہی کہ ہم جمہوری اور اخلاقی قدروں سے کھلے عام انحراف کرتے ہوئے سیاسی ناپختگی کا ثبوت دے کر اپنے ذاتی مقاصد کے لئے آئینی ترامیم کرتے رہے ہیں۔ آئینی ترامیم کی آڑ میں من مانی کرنے کے علاوہ اب حکومت نے توہین ِ عدالت قانون میں ایسی ترامیم کردی ہیں، جس کے تحت صدرِ مملکت، وزیر اعظم ، وزرائے اعلیٰ اور وزراءتوہین عدالت کیس سے مستثنا ہوں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ قانون میں تبدیلی کرتے ہوئے صرف چند مخصوص افراد کی اجارہ داری قائم کی جارہی ہے۔ یہ جمہوریت نہیں، بلکہ بدترین قسم کی خودغرضی پر مبنی آمریت ہے جس کا مقصد صرف ارباب ِ اختیار کی دولت اور اختیارات میں اضافہ کرناہے تاکہ مستقبل میں بھی کوئی ان کو چیلنج نہ کر سکے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ڈبل شاہ کلچر سمندر پار ان پاکستانیوں تک سرائیت کرچکا ہے جو دہری شہریت رکھتے ہوئے پاکستان پر حکومت کرنا چاہتے ہیں۔ چونکہ ہم ابھی نوآبادیاتی غلامانہ ذہنیت سے نجات نہیں پاسکے ہیں، اس لئے ہمار ا خیال کہ ”اُدھر “ سے آنے والا ہر شخص ذہانت کا پیکر ہے ، اس لئے ہمارے ملک کے لئے ایک ناگزیر اثاثہ ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ صرف غیر ملکی پاسپورٹ کے حامل افراد ہی ہمارے درد کا درماں کر سکتے ہیں۔ تاہم اگر تجربات سے کچھ سیکھا جا سکتا ہے تواب تک ہم نے کئی ایک وزرائے اعظم اور وزرا¿ درآمد کر کے دیکھ لیا ہے اور نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ چونکہ ان افراد کا اپنا کوئی حلقہ ِ انتخاب نہیںہوتا اور نہ ہی ان کی جڑیں عوام میںہوتی ہیں، اس لئے وہ کسی سول یا ملٹری آمر کے اشاروںپر ناچتے ہیں۔
اس کے علاوہ دہری شہریت کے حامل ان پاکستانیوںکے لئے اخلاقی طور پر بھی روا نہیںہے کہ وہ ایک ایسے ملک ، جس کو اُنہوں نے خود بہت عرصہ پہلے چھوڑ دیا تھا، اسمبلی میںکسی عوامی عہدے کے دعویدار ہوں۔ ہاں، کسی کو بھی ان کی حب الوطنی پر شک نہیںہے، مگر ان کی کسی دوسرے ملک کے ساتھ وابستگی یقینا وفاداری اور مفادات کو امتحان میں ڈال دیتی ہے۔ اس میںبھی کوئی شک نہیں کہ یہ افراد ملک کے لئے ایک اثاثہ ہیںکیونکہ یہ ہر سال کئی بلین ڈالر کازرِ مبادلہ ملک میں بھیجتے ہیں، لیکن اگر ان کے آبائی ملک نے ان کو باہر جانے کی اجازت دی تو اس کی وجہ یہی تھی۔ دراصل ان کو اس سے بھی زیادہ رقم بھیجنی چاہیے۔
اگر دہری شہریت کے حامل افراد واقعی پاکستان کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو جس ملک میں قیام پذیر ہیں، وہاںکی مقامی سیاست میں حصہ لیں اور اپنی مہارت کو آزمائیں، بجائے اس کے کہ وہ وطن واپس آکر لالچ اور خود غرضی جیسا کہ ہمارے ہاں ہے کی سیاست میں اپنا دامن آلودہ کرلیں۔ اگر وہ دیگر ممالک کی اسمبلیوں تک رسائی حاصل کر لیں تو وہ ایک طرح سے پاکستان کی بہتر طور پر خدمت کر سکیںگے ۔ انڈیا میں دہری شہریت کے حامل افراد کو عوامی عہدے رکھنے اور انتخابات لڑنے کی اجازت نہیںہے، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ انڈیا ان افراد کو اپنے لئے اثاثہ نہیں سمجھتا۔ ایسے افراد نہ صرف زرِ مبادلہ بھیجتے ہیں، بلکہ اعلیٰ ٹیکنالوجی اور مہارتیں بھی منتقل کرنے کا سبب بنتے ہیں ، لیکن جہاں تک عوامی عہدے رکھنے کا تعلق ہے تو وہ وہیں رکھ سکتے ہیں جہاں وہ قیام پذیر ہوں۔ ٭