معاشی انقلاب ،عوام کو فیصلہ کرنا ہو گا

معاشی انقلاب ،عوام کو فیصلہ کرنا ہو گا
معاشی انقلاب ،عوام کو فیصلہ کرنا ہو گا
کیپشن: pic

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وزیراعظم پاکستان محمد نواز شریف نے گزشتہ 40سال سے نظر انداز کئے گئے پاکستان کے معاشی دارالحکومت کراچی کے لئے جن بڑے بڑے منصوبوں کا اعلان کیا ہے؟معاشی انقلاب کی طرف بہت بڑا قدم ہے ۔کراچی کے دو کروڑ لوگوں کو کھینجر جھیل سے پانی کی فراہمی ،موٹروے لاہور سے کراچی لنک کرنے اور گرین لائنز بس سروس شروع کرنے سے نہ صرف کراچی میں معاشی تبدیلی آئے گی، بلکہ کراچی میں جاری جرائم میں بھی کمی ہو جائے گی ۔ گزشتہ کئی سال سے برسراقتدار لوگوں نے کراچی میں تبدیلی لانے کی کوشش کی، لیکن اصل تبدیلی اب وزیراعظم پاکستان محمد نواز شریف لا رہے ہیں، جنہوں نے گزشتہ دنوں کراچی کے لئے ترقیاتی منصوبوں کا نہ صرف اعلان کر دیا، بلکہ اس کے لئے پیسے بھی جاری کر دیئے۔ وزیراعظم پاکستان محمد نواز شریف پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے اپنی کوششوں میں مصروف ہیں اور انہوں نے میٹرو بس سروس لاہور کے بعد کراچی کے عوام کو گرین لائنز کا تحفہ دے کر نہ صرف یہ کہ کراچی کے عوام کو بھی 26 کلو میٹر کے اس طویل سفر کے لئے بنیادی سہولیتیں فراہم کر دی ہیں، اس سے کراچی میں ٹریفک کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔

ایک طرف ملک کی معاشی ترقی کے لئے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں، تو دوسری جانب شمالی وزیرستان سے بے گھرافراد کو وزیراعظم پاکستان کی ہدایت پر 35ہزار روپے نقد کی امداد بھی شروع کر دی گئی ہے اور 9لاکھ افراد کو یہ سہولیتیں فراہم کی جا رہی ہیں، اس سے قبل سوات،باجوڑ اور مہمند ایجنسی کا آپریشن بھی ہوا ہے اور لوگ آج بھی پشاور کے کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ، انہیں نقد رقوم نہیں دی گئیں، جس کی وجہ سے انہیں ضروریات زندگی کی اشیاءخریدنے میں مشکلات کا سامنا رہا۔ وزیراعظم نے ایک طرف ان کی بحالی کے لئے سول اور ملٹری انتظامیہ پر مشتمل ٹاسک فورس قائم کر دی ہے تو دوسری جانب عام لوگوں کو نقصان سے بچانے کے لئے وزیرستان سے انہیں باحفاظت نکال لیا۔

وزیراعظم نواز شریف کے اقتدار کو چودہ مہینے ہو گئے ہیں، ان چودہ مہینوں میں بڑے بڑے میگا پراجیکٹ کے اعلانات کئے گئے، گزشتہ چوبیس پچیس سال کے مسائل چودہ مہینے میں ختم نہیں ہو سکتے، لیکن محمد نواز شریف نے جو اقدامات اٹھائے ہیں، اس سے ایسا لگ رہا ہے کہ آئندہ 14 ماہ میں ان مسائل میں 50 فیصد سے زیادہ کمی ہو جائے گی، تاہم اب کچھ ایسی قوتیں میدان میں نکل آئی ہیں، جو پاکستان کے 18کروڑ عوام کو ان میگا پراجیکٹ کے فائدوں اور ترقی سے دور کرنا چاہتی ہیں، ان میں سر فہرست تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ہیں۔ عمران خان کے ساتھ محمد نواز شریف نے ہر قسم کی دوستی کا ہاتھ بڑھایا، لیکن وہ میں نہ مانوں کی رٹ پر بضد ہیں، انہیں خیبر پختونخوا میں حکومت ملی، لیکن ان کی تحریک انصاف نے ایسے کارنامے سرانجام دیئے کہ لوگ رمضان المبارک میں بددعائیں دینے پر مجبور ہیں۔ 160سے زائد انفارمیشن اہلکاروں کو دوسرے محکموں میں کھپا دیا گیا، جبکہ اسی انفارمیشن میں نجی اللہ خٹک جو ان کی پارٹی کا عہدیدار ہے، 19ویں گریڈ میں تعینات کر دیاگیا، جبکہ پنجاب سے عندلیب عباس اور دیگر خواتین کو خیبرپختونخوا ریڈیو اور انفارمیشن کا جنازہ نکالنے کے لئے انفارمیشن میں ڈیرے ڈالنے کے لئے جگہ دی ہے۔ خود تو وہ ایک محکمے کے ساتھ انصاف نہ کرے اور اپنے وزراءکو کرپشن پر نکال کر مسلم لیگ (ق) سے آنے والے مشتاق غنی، قلندر لودھی اور دیگر آزاد اراکین کے ہاتھوں میں دو کروڑ سے زائد پختونوں کی زندگیوں کے فیصلے کا اختیار دیا ہے۔
دوسری جانب بنی گالا سے حکومت ایس ایم ایس کے ذریعے چلائی جا رہی ہے۔ وزیراعلیٰ کے سابق مشیر شیراز پراچہ نے اس حوالے سے عوام کو آگاہ کیا ہے تاہم اس کے باوجود اس کا نوٹس نہیں لیا جاتا، خان صاحب پر وزیراعظم بننے کا بھو ت سوار ہے ۔ایک طرف ان کے ایم این اے مراد سعید لوگوں کی بے عزتی کر رہے ہیں اور نواز شریف جیسی شخصیت کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کے لئے میڈیا پر آنے کی کوششوں میں مگن ہیں۔ دوسری جانب اس کے حلقہ سوات میں لوگ اس کے پتلے جلا رہے ہیں، کیونکہ وہ اپنے علاقے سے اتنا بے خبر ہے کہ لوگ سحری اور افطاری کے لئے چندہ اکٹھا کر کے ٹرانسفارمر لگا رہے ہیں اور وہ کروڑوں روپے کا بجٹ لے کر غائب ہے۔ یہی تو اس کی گڈ گورننس اور حکومت کرنے کے طریقے ہیں اور خود پاکستان بدلنے کے دعوے کر رہا ہے پاکستان کے عوام اب اتنے بھولے بھالے بھی نہیں ہیں کہ وہ اس کی باتوں میں آ جائیں، کیونکہ سوات کے عوام نے مراد سعید کو جبکہ میانوالی اور دیگر علاقوں کے عوام نے عمران خان کو مینڈیٹ دیا تھا۔

عمران خان نے تو پشاور کے لوگوں کے ساتھ بھی بیوفائی کی اور جن لوگوں نے انہیں ووٹ دیا ان کے منتخب کردہ لوگوں کو وزارتوں تک سے ہٹا دیاگیا اور پشاور کے تحریک انصاف کے کارکنوں کے بجائے کرک اور پنجاب سے لوگوں کو بلا کر سرکاری افسران کو تنگ کیاجارہا ہے ۔یہ تو عمران خان کی گڈ گورننس کی صورت حال ہے، جبکہ دوسری جانب طاہر القادری جن کے ساتھ شریف خاندان نے نہ صرف احساس کیا ہے، بلکہ شریف خاندان نے انہیں اربوں روپے کی زمین دین کی خدمت کے لئے دی ہے، اگر انہیں محمد نواز شریف اور محمد شہباز شریف کے خلاف تحریک چلانے کا شوق ہے تو پہلے شریف خاندان کے احسانات کو واپس کر دیں، پھر تحریک چلانے کا شوق پورا کرلیں ۔ میدان بھی حاضر ہے اور ہم بھی حاضر ہیں،لیکن ایک طرف اربوں روپے کے احسانات لے کر اس پر بڑی بڑی کمرشل عمارتیں تعمیر کریں اور دوسری جانب اس خاندان کی کردار کشی کریں ان کی ذات پر حملے کریں قوم اس طرح کے کرداروں سے بخوبی واقف ہے اور 14 اگست کو طاہر القادری اور عمران خان کو اپنی حیثیت کا اندازہ ہو جائے گا، جب پاکستان کی سیاست سے ہمیشہ کے لئے ان کا بوریا بستر گو ل ہو گا، کیونکہ عوام کو اب صرف دو چائس ہیں کہ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے یا ملک کو ترقی سے ایک بار پھر آمریت کی طرف لے جانا ہے ۔یہ فیصلہ عوام نے کرنا ہے ۔  ٭

مزید :

کالم -