نوازشریف کا زور ہے
نون لیگ کی برتری یہ ہے کہ اس جماعت کے پاس گراس روٹ سطح پر ایک مضبوط تنظیم موجود ہے ۔ یہ گراس روٹ تنظیم بلدیاتی نمائندوں کے کونسلروں کی صورت بالخصوص پنجاب بھر میں موجود ہے ۔
اتنی بڑی سیاسی فوج کی موجودگی میں نون لیگ کو دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں جو برتری حاصل ہے اس کی وجہ سے یونین کونسل کی سطح پر پارٹی پوزیشن کی صحیح تصویر ہر وقت پارٹی قیادت کے پاس موجود رہتی ہے۔
انتخابات میں گراس روٹ سطح پر ایسی تنظیم کبھی پیپلز پارٹی کا خاصہ ہوا کرتی تھی، اب پیپلز پارٹی کے ضمن میں یہ بات سندھ کی حد تک درست ہو تو ہو لیکن پنجاب میں پیپلز پارٹی کے پاس ایسا مضبوط پارٹی ڈھانچہ موجود نہیں ہے جس کی اپنی ٹھوس وجوہات ہیں ۔ تاہم نون لیگ کو یہ برتری نہ صرف پیپلز پارٹی پر حاصل رہی ہے بلکہ اب پی ٹی آئی پر بھی ہے ۔
اس کے پاس گراؤنڈ پر ورکر موجود ہے جو اپنے علاقے کے ایک ایک فرد کو نام سے جانتا اور پیشے سے پہچانتا ہے ۔ اتنی بڑی افرادی قوت کے پیچھے گزشتہ تیس برس کا سیاسی تجربہ بہت بڑی بات ہوتی ہے ۔
اس کا ایک مظہر ہمیں بلدیاتی انتخابات میں دیکھنے کو ملا تھا ، خاص طور پر لودھراں اور چکوال میں تو اس کا بہت ہی شاندار مظاہرہ دیکھنے کو ملاتھا جب ایک جگہ پی ٹی آئی اور دوسری جگہ پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے مشترکہ امیدوارکو شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا ۔
اسی طرح نواز شریف کی نااہلی کے بعد جب پرانے حلقہ 120میں ضمنی انتخابات ہوئے اور کلثوم نواز ایک دن بھی حلقے میں نہ آسکیں اور مریم نواز بھی دن رات وہاں ڈیرے نہ ڈال سکی تھیں تب بھی صورت حال یہ تھی کہ حلقے میں نون لیگ کی گراس روٹ تنظیم کا اس قدر اثرورسوخ تھا کہ اکثر جگہوں پر پی ٹی آئی کی امیدوار یاسمین راشد کے عملے کو انتخابی دفتر کھولنے کی جرات نہ تھی ۔
گوالمنڈی جیسے مخصوص علاقوں میں تو صبح کے وقت دفتر کھلتا تھا تو شام تک بوریا بستر لپیٹ دیاجاتاتھا۔ اسی طرح ان علاقوں میں پی ٹی آئی کو اشتہاری مہم بھی ڈھنگ سے چلانے میں دشواری کا سامنا تھا۔جہاں کہیں دفاتر کھلے بھی تھے وہاں پر نون لیگ کے ورکر انہیں اونچی آواز میں پارٹی ترانے نہیں بجانے دیتے تھے۔
بعد میں جس دن ووٹنگ ہوئی اور نون لیگ کے ووٹروں کو سخت گرمی میں لمبی لمبی قطاریں بنا کر گھنٹوں انتظار کے باوجود بھی ووٹ نہیں ڈالنے دیا جارہا تھا تب بھی واقفان حال جانتے ہیں کہ نون لیگ کی ذمہ دار قیادت جس پولنگ سٹیشن پر بھی جاتی تھی ،ورکر ان کے کان میں سرگوشی کرتے کہ ووٹ نہیں ڈالنے دیا جا رہا ہے جس پر پارٹی ذمہ داروں کا سوال ہوتاتھا کہ کیا ہم اس پولنگ اسٹیشن سے جیت رہے ہیں، ورکر جونہی جی ہاں کہتے تو انہیں ہدائت کی جاتی کہ اگر جیت رہے ہیں تو پھڈا ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے ۔
بعد میں چشم فلک نے دیکھا بھی کہ گراؤنڈ لیول پر مضبوط سیاسی جماعت نون لیگ کی جڑوں کو اکھاڑ پھینکنا اس قدر آسان نہیں تھا ، خاص طور پر جب معزز عدالتوں کے جج پکار پکار کر کہہ رہے ہوں کہ نواز شریف پر کرپشن کا الزام ثابت نہیں ہوا ہے۔ پی ٹی آئی والے بڑے شوق سے کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ نواز شریف چور ہے لیکن ججوں کے فیصلے بتاتے ہیں کہ نواز شریف کا زور ہے ۔
گراس روٹ لیول پر نون لیگ کی مضبوطی کا ایک تازہ مظہر 13جولائی کو دیکھنے کو ملا ہے جب نوا ز شریف کے استقبال کے لئے نون لیگ کے صدر شہباز شریف نے اپنی ساری ریلی ہی اسی حلقے سے بنائی ہے جہاں ہمارے ٹی وی چینلوں کے مطابق ڈاکٹر یاسمین راشد کا بڑا زور ہے ۔ اگرڈاکٹر صاحبہ کا اتنا ہی زیادہ زور ہوتا تو شہباز شریف اپنی ریلی رائے ونڈ روڈ سے نکالنے کو ترجیح دیتے۔
13جولائی کی ریلی نے اس پراپیگنڈے سے بھی ہوا نکال دی ہے کہ مریم نواز اپنے والد کے حلقہ 125سے بھاگ کر حلقہ 127میں پناہ لے بیٹھی ہیں کیونکہ یہاں پر پی ٹی آئی کی یاسمین راشد کی پوزیشن بہت مستحکم ہے۔
یہ پراپیگنڈہ اس لئے دم توڑگیا ہے کہ نون لیگ نے نواز شریف کے استقبال کے لئے ریلی بنائی ہی اس حلقے سے ہے۔ لوہاری گیٹ سے تین بجے سہ پہر شروع ہونے والی ریلی رات نو بجے تک حلقہ 125میں گھومتی رہی جس کے گلی کوچوں سے لوگ جوق در جوق نکل کر اس میں شامل ہوتے رہے اور مخالفین کو بھی کہنا پڑا کہ نون لیگ نے لاہور میں اپنی مقبولیت کو ثابت کردیا ہے۔
13جولائی کی ریلی ڈاکٹر یاسمین راشد کے لئے ضرور سوہان روح ثابت ہوئی ہوگی کہ انہیں 25جولائی سے پہلے ہی آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہوگیا ہے ۔یہ مبالغہ آرائی نہیں ہے کہ اگرنواز شریف کی نااہلی کے بعد ضمنی انتخابات میں ووٹروں کو تنگ نہ کیا جاتا اور انہیں ووٹ ڈالنے میں آسانی بہم پہنچائی جاتی تو بیگم کلثوم نواز اور ڈاکٹر یاسمین راشد کے درمیان ووٹوں کا فرق 2013کے عام انتخابات سے بھی زیادہ ہوتا لیکن تب مینج کرنے والوں نے مینج کیا ، حالانکہ حلقے میں عمران خان کا عوامی جلسہ اس درجہ ناکام تھا کہ جیل روڈ پر ہونے والے اس جلسے میں پڑی کرسیوں کی بڑی تعداد ایسی تھی جنھیں ان فولڈ ہی نہیں کیا گیا تھا اور وہ مختلف ڈھیریوں کی صورت میں جگہ جگہ پڑی ہوئی تھیں۔ جلسوں میں کرسیوں پر بندے چڑھے تو آپ نے اکثر دیکھے ہوں گے لیکن کرسیوں پر کرسیاں چڑھی اس جلسے میں پہلی مرتبہ دیکھی جا سکتی تھیں۔
نون لیگ کے حامیوں کو اپنے ووٹ پر اعتبار قائم رکھنا ہے اور اس وسوسے کو دل میں جگہ نہیں بنانے دینی ہے کہ خلائی مخلوق الیکشن کو مینج کرلے گی کیونکہ بقول لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی کے انٹیلی جنس ایجنسیاں ہر چیز کا اندازہ لگاسکتی ہیں لیکن اگر کسی چیز کا اندازہ نہیں لگاسکتیں تو وہ عوام کا موڈ ہوتا ہے۔
گراس روٹ پر ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عوام میں آپ کی جڑیں مضبوط ہیں۔
تبھی آپ کو یونین کونسل کی سطح پر ایسی پذیرائی حاصل ہورہی ہے ۔ یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو کارنر میٹنگوں کی رونق بنتے ہیں ، جو تھڑوں کی سیاست کا رنگ جماتے ہیں اور مخالفین کوکُسکنے نہیں دیتے ہیں۔
یہ سارے خاصے کبھی پیپلز پارٹی کے ورکر کے ہواکرتے تھے لیکن اب تو لگتا ہے کہ رانا ثناء اللہ سمیت ہر کوئی پیپلز پارٹی سے اٹھ کر نون لیگ میں آبیٹھا ہے اور یہاں بھی وہی رنگ جما رہا ہے جو کبھی بے نظیر بھٹو کے حق میں جما کرتا تھا۔
پارٹی قیادت سے نہیں گراس روٹ پاپولیریٹی سے مضبوط ہوا کرتی ہے ، گراس روٹ پاپولیریٹی ہی کسی پارٹی کی اصل مقبولیت ہوتی ہے اور اس کی قیادت کے ماتھے کا سہرا ہوتی ہے ۔ تبھی تو مریم نواز کہتی ہیں کہ نواز شریف جہاں کھڑا ہوتا ہے جلسہ بن جاتاہے ۔
یعنی یوں کہئے کہ نواز شریف نے تیس برسوں کی عملی سیاست میں اپنے ورکر کا بھرپور خیال رکھا ہے اور ورکر نے وقت پڑنے پر خون دینے سے دریغ نہیں کیا ہے۔
نون لیگ کی ایک اور برتری یہ ہے کہ مسلم لیگ پاکستان کی سب سے پرانی جماعت ہے اور اس وقت پاکستان میں موجود ساری مسلم لیگوں پر نون لیگ کو فوقیت حاصل ہے۔ اس کی مقبولیت سب سے بڑھ کر ہے ، چنانچہ پرانے مسلم لیگی حلقے نون لیگ کے ساتھ ہیں اور آج نہیں گزشتہ دس بیس برسوں سے کھڑے ہیں ۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ مسلم لیگ کی جڑیں دیہی علاقوں میں بھی ہیں اور ہماری دیہی آبادی کا بڑا حصہ ذہنی طور پر مسلم لیگ کو پسند کرتا ہے اور اس کے پاکستانی ایجنڈے پر مر مٹنے کو تیار ہوتا ہے اور 25جولائی کو یہ جادو سر چڑھ کر بولتا نظرآرہاہے کیونکہ پی ٹی آئی کھمبوں پر یا انڈر پریشر ٹی وی چینلوں پر ہے مگر نواز شریف عوام کے دلوں میں ہے۔