سیاستدانوں کا غیر اخلاقی انداز گفتگو 

سیاستدانوں کا غیر اخلاقی انداز گفتگو 
سیاستدانوں کا غیر اخلاقی انداز گفتگو 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

الیکشن کمیشن نے عمران خان کو روک دیاہے کہ وہ مخالفین کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال نہ کریں ۔چلو اچھا ہوا کسی ادارہ نے تو زبان کو مغلظات سے روکنے لئے پابند کیاہے ۔یہ پابندی ضابطہ اخلاق کے ضمن میں بہت پہلے لگ جانی چاہئے تھی۔ضروری نہیں کہ کوئی عدالت کا درواہ کھٹکھٹائے تو کورٹ اس کا نوٹس لے،از خود نوٹس بھی لیا جاسکتا تھا کہ ایسی زبان کو خاموش کرادیا جائے گا جو اخلاق کا دامن تار تار کرتی ہے ۔کوئی سیاستدان اس بنا پر بھی نااہل ہوجانا چاہئے ۔
زبان انسان کی شخصیت کی آئنیہ دار ہوتی ہے اس کی زبان سے ادا ہونے والے الفاظ اس کے اخلاقیات کی عکاسی کر رہے ہوتے ہیں۔ اسلام کی تعلیمات بھی اعلٰی اخلاق کا درس دیتی ہیں۔ ہمارے پیارے نبی مکرم ﷺ سے جب پوچھا گیا کہ سب سے بہتر انسان کون ہے تو دو جہاں کے والیﷺ نے فرمایا’’ تم میں سب سے بہتر وہ جو سلام میں پہل کرے۔ مسلمان ہر ملاقات کا آغاز السلام علیکم کہہ کر کرتے ہیں۔ یعنی یہ کہتے ہوئے کہ اے میرے مسلمان بھائی آپ پر اللہ کی طرف سے سلامتی ہو‘‘ تمام اکابرین دین نے ہمیشہ حْسنِ اخلاق کی تعلیم دی ہے۔لیکن آج ہمارے لیڈر ،قوم کے مصلح دوسروں کو پکارنے کے لئے اوئے کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔
سیاسی امیدواروں کی طرف سے مدمقابل امیدوار کے خلاف الزام تراشی اور بیان بازی معمول کی بات ہی نہیں بلکہ سیاسی کلچر کا حصہ بن چکی ہے۔ اور افسو اس بات کا کہ سیاست میں اس کو کوئی عیب نہیں سمجھا جاتا۔ جب کسی سیاسی جماعت کی مرکزی قیادت کی طرف سے مخالفین کیلئے غیر اخلاقی الفاظ کا استعمال شروع ہو جائے تو اس سے قومی جماعتوں کی غیر سنجیدگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ عوام ابھی تک ایک مذہبی رہنما علامہ خادم حسین رضوی کی گالیوں بھری گفتگو کو بھولی نہیں تھی کہ اس الیکشن 2018کی مہم میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، صوبہ خیبر پختونخواہ کے سابقہ وزیر اعلٰی پرویز خٹک، سابق سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی طرف سے اخلاقیات کی حدیں کراس کرتے ہوئے کسی ایک شخصیت نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں سے وابستہ کارکنوں کونامناسب الفاظ کے ساتھ تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے، جو کہ درحقیقت پاکستانی عوام کی تذلیل ہے۔ 
عمران خان کی طرف سے سابق وزیر اعظم سربراہ نواز شریف کے استقبال کیلئے لاہور ایئرپورٹ پر جانے والے لیگی کارکنوں کوگدھے سے تشبیہ دی۔ عمران خان جو کہ ممکنہ پاکستان کے وزیراعظم بننے کے امیدوار ہیں۔ وہ اس بات کو کیوں بھول گئے کہ سیاسی کارکن پہلے ایک پاکستانی ہیں ، جوآج ان کے دائیں بائیں سٹیج پر موجود ہوتے ہیں وہ پہلے دوسری جماعتوں میں ہی تھے۔ عمران خان اس سے پہلے بھی کئی بار مخالفین کیلئے اپنے جذبات کا غیر اخلاقی الفاظ میں اظہار کر چکے ہیں۔ اپنے سیاسی کزن جماعت پاکستان عوامی تحریک سے ایک موقع پر باہمی اتفاق نہ ہونے پر " ہم کوئی رشتہ لینے گئے تھے" جیسے نامناسب الفاظ کا استعمال کر چکے ہیں۔ پرویز خٹک کی طرف سے بھی پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے متعلق ایسے ہی ناقابل بیان الفاظ استعمال کرتے ہوئے بھول گئے کہ وہ بھی اسی جماعت سے وابستہ رہ چکے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے سردار ایاز صادق نے جوش خطابت میں تحریک انصاف کو ووٹ دینے والے پنجاب کے لوگوں کو غیرت سے منسوب کرتے ہوئے کچھ زیادہ ہی کہہ گئے۔ 
جن تین سیاسی لیڈرز کا ذکر کیا گیا۔ یہ تینوں پاکستان کے قدیم اور مشہور تعلیمی ادارے ایچیسن کالج لاہور سے تعلیم یافتہ ہیں۔ یہ وہ کالج ہے جس کو 1864ء میں امیر ترین طبقہ کی تعلیم و تربیت کی غرض سے بنایا گیا۔ ایسے مہنگے اور اعلیٰ تعلیمی ادارے سے ایسے غیر اخلاقی قیادت پاکستان کو میسر ہو گی یہ تو ایچسن کالج نے سوچا بھی نہیں ہو گا۔ اگر پڑھی لکھی قیادت کے اخلاق کا یہ عالم ہو گا تو پاکستانی عوام کی اخلاقی تربیت کیلئے یہ کون سے اقدام کریں گے؟۔ پاکستان کی سیاسی و مذہبی جماعتوں کو اپنی مرکزی قیادت اور کارکنوں کی اخلاقی تربت پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ مخالفین کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ بھی پاکستانی ہیں۔ آج اگر آپ کسی کے خلاف نامناسب الفاظ استعمال کریں گے تو جواب میں آپ کے اور آپ کے کارکنوں کے متعلق ایسے ہی الفاظ سننے کو ملیں گے۔ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے مملکت پاکستان کی عوام کیلئے ایسے رویے کسی صورت قبول نہیں ہوں گے۔سیاست کریں اور جائز تنقید بھی کریں لیکن قومی جماعتوں کے رہنماؤں کو اپنے اخلاق اور گفتگو سے عوام کیلئے بہترین مثالیں قائم کرتے ہوئے عوام کے دلوں میں جگہ بنانی ہوگی۔

۔

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -