ڈالر کی اڑان اور مصر میں رضا باقر کی ”کامیابیاں“
ڈالر دنیا کی مضبوط ترین کرنسی ہے۔ دنیا میں 90 فیصد کاروبار ڈالر میں ہوتا ہے اور دنیا میں ملکوں کو جتنے بھی قرضے دئیے جاتے ہیں اس میں سے 40فیصد ڈالر میں ہی دئیے جاتے ہیں۔ ڈالر کی اس کامیابی کے پیچھے 1944ء میں ہونے والے Bretton Woods(بریٹون وڈس) معاہدے کا ہاتھ ہے۔ اس وقت امریکی ڈالر کے تبادلے کی شرح کو بڑھانے کے لئے تمام اہم ممالک بریٹون وڈس نیو ہیمپشائر میں جمع ہوئے۔ اس معاہد ہ نے دوسرے ممالک کو سونے کی بجائے اپنی کرنسیوں کو ڈالر کے ساتھ بیک اپ کرنے کی اجازت دی۔
پھر امریکہ نے تیل کی تجارت کے تمام معاہدوں میں لین دین کی کرنسی ڈالر کو رکھنے کا فیصلہ کیا اور سب سے زیادہ تو راج نیتی یہاں سے چلی جب پٹرول کی تجارت شروع ہوئی اور پیٹرو ڈالر نے جنم لیا اور ڈالر اس کے بعد ہاتھ میں نہیں آیا اور پوری دنیا میں پھیلتا چلا گیا۔ 1970 ء میں ایک ڈالر 4 پاکستانی روپے کے برابر تھا مگر دیکھتے ہی دیکھتے کیا ہو گیا، یہ ہم سے بہتر کون جانے ہے۔ حالات قابو میں ہی نظر آرہے تھے پر صرف 1982ء تک۔ سب سے بڑی غلطی ڈالر کے حوالے سے ہمارے اس وقت کے وزیر خزانہ غلام اسحاق خان نے کی تھی، جب انہوں نے ڈالر پر قابو رکھنے کی بجائے اسے فری فلوٹ دے دیا،پھر کیا تھا ڈالر پورے ملک پر چھا گیا۔
اس فیصلے کے بعد اب تک ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی کی قدر میں کمی ہی آتی رہی ہے۔ بس ایک وہ دن تھا اور ایک آج کا دن ہے۔ ڈالر نہ کبھی قابو میں آیا نہ روپے کی قدر بڑھی۔ بجٹ 2019-20ء میں بھی مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ ڈالر کو قرار دیا گیا۔ نئی حکومت کے آغاز میں ڈالر 129 روپے اور آج پورے ایک سال بعد ڈالر 166روپے کو چھو کر اوپر سے نیچے ہور ہا ہے اور جب کوئی تنقید کرے تو کہتے ہیں گھبرانا نہیں، حالانکہ سچ تو یہ ہے سارا ملک گھبرایا ہوا ہے۔ ایک سال میں ڈالر 21.3فیصد بڑھا ہے اور یہی نہیں اقتصادی ماہرین یہ خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ ڈالر اس سال کے آخر تک 200روپے تک پہنچ جائے گا۔
بظاہر تو حالات ایسے ہی نظر آرہے ہیں۔ پاکستان کا بیرونی قرض 96بلین ڈالر تھا، 2017-18ء میں اور اب ایسا نظر آرہا ہے کہ یہ قرض چھلانگ لگا کر 120 بلین ڈالر تک ہو جائے گا، یعنی پورے 25فیصد اضافہ۔ مارچ 2019 ء میں بیرونی قرضہ 105.8 بلین ڈالر پر آگیا ہے، جو کسی بری خبر سے کم نہیں۔پاکستان میں بیروزگاری کی شرح بھی بڑھتی جارہی ہے۔ 2018 ء میں 6.7فیصد، 2019 ء میں 7.4فیصد اور 2020 ء میں متوقع طور پر 8.2فیصد تک کی آواز ہے۔ غریب عوام کے لئے یہ سب سے خوفناک خبر ہے۔
جب ملک کے معاشی حالات ہی قابو میں نہ ہوں تو سرمایہ کار کیوں اپنا پیسہ لگائے۔ سرمایہ کاروں نے تواب پاکستان کو ایک بنجر زمین کی طرح دیکھنا شروع کر دیا ہے۔ نیا سرمایہ دار تو بھاگ گیا ہے اور جومہنگائی کے اس بھونچال میں پھنس گیا ہے وہ اپنی ہمت کے مطابق لڑرہا ہے۔ زر کی فرسودگی کی وجہ سے پچھلی حکومت کے دور میں پاکستان کی معیشت جو 313 بلین ڈالر تھی اب گر کر 280بلین ڈالر پر آگئی ہے اور ایسا نظر آتا ہے کہ جلد 270ارب ڈالر پر جانے والی ہے۔
اس کے نتیجے میں بیشتر درآمدات مزید مہنگی ہوتی چلی جائیں گی۔ پٹرول نئی حکومت کے آغاز میں 87.3 روپے فی لٹر تھا جو کہ اب بڑھتا ہوا 113روپے فی لٹر پر پہنچ گیا ہے،جو کہ 30فیصد زیادہ ہے، اسی طرح پٹرول سے منسلک تمام اشیاء مہنگی ہوئیں جیسے پبلک ٹرانسپورٹ،عوامی نقل و حمل کے تمام ذرائع مہنگے ہو گئے۔ پھر ذکر کریں تو ہماری آٹو موبائل صنعت کو بھی بھاری بھرکم نقصان ہوااور گاڑیاں اپنی حقیقی قیمت کی بجائے 45فیصد اور مہنگی ہو گئی ہیں۔
نیا پاکستان انتظامیہ کی نمائندگی کرنے والے بعض ”دانشوروں“ کا کہنا ہے کہ ڈالر اوپر نیچے ہونا پاکستان کے صرف ایک فیصد افراد کا مسئلہ ہے،99 فیصد افراد کو کوئی فرق نہیں پڑتا،یہ سفید جھوٹ ہے۔ ڈالر کے اثرات پورے ملک پر پڑتے ہیں،جو نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔بس یاد رکھیے سٹیٹ بنک کے موجودہ سربراہ رضا باقر جو آئی ایم ایف سے آئے ہیں، مصر میں اپنی تعیناتی کے دوران کیا ”کارنامہ“انجام دے کر آئے، رضا باقر جب آئی ایم ایف کنٹری ہیڈ کی حیثیت سے مصر گئے تو ایک ڈالر 7مصری پاؤنڈ میں دستیاب تھا۔ ان کی ”کامیاب“پالیسیوں کے باعث اس وقت 17 مصری پاؤنڈ میں ایک ڈالر ملتا ہے، افراط زر یعنی مہنگائی ہے کہ کسی طور قابو میں نہیں آرہی۔