”کشف“قوم کی بیٹی
”پاکستان“ وہ ملک ہے جہاں بسنے والی آبادی میں کثیرالتعداد لوگ غربت کی لکیر سے بھی نیچے ہیں۔ یہاں جمہوریت صرف سیاستدانوں اور استطاعت رکھنے والے باشندوں کی ہے۔ ملک ہے چلتا ہے وہ اس کا سکہ جو کھرا ہو اور قانوں ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ اس ملک میں کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو تپتی دھوپ میں ننگے پاؤن چلتے، بھوک کی شدت میں پیٹ پر پتھر باندھے اور غفلت کی نیند میں سڑکوں پر اونگتے نظر آتے ہیں۔ سماجی عدم توازن کا جن صرف بوتل سے باہر نہیں بوتل توڑ کر باہر نکلا ہے جس کا مطلب اب وہ بوتل ٹوٹ چکی، جس میں اسے قید کیا جا سکتا تھا۔
ہر انسان کی اپنی ایک کہانی ہے بادلِ نخواستہ کتنے ہی ایسے مسائل ہیں، جن کے لوگ والی وارث تو ہیں، لیکن ان کا کوئی سدباب نہیں ایسی ہی ایک کہانی ہے لاہور کے علاقے کریم گارڈن کی رہائشی کشف شہزادی کی۔ 20سالہ کشف اس وقت گردے اور جگر کے عارضے میں مبتلا ہے۔ اس کی حالت دن بادن مزید ابتر ہوتی جارہی ہے۔ پھپڑے سکڑتے اور سانس رکتی جارہی ہے اور اسے چراغ کی کوئی آخری لو نظر بھی نہیں آتی۔یہ تو تھی موت سے لڑتی کشف کی حالیہ صورت حال لیکن کشف ماضی میں کیسے ان تمام مصائب سے لڑتی ہی یقیناًاس پر روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے۔
بات کچھ یوں ہے کہ کشف نے آنکھ ایک گولے کے گھر کھولی اور بچپن ہی سے اس کے ایک گردے میں دس اور دوسرے میں پندرہ پتھریاں تھیں۔ کشف کے والد کافی عرصے تک اس کا علاج لاہور کے مختلف ہسپتالوں اقر حکیموں سے کرواتے رہے مگر کوئی خاطرخواہ نتائج موصول نہ ہوئے۔ کشف نے اسی بیماری کی حالت میں اپنا F.A مکمل کیا اور جوں ہی اس کی حالت کچھ بہتر ہوئی تو انیس سال کی عمر میں کشف کی شادی کردی گئی۔ شادی کے دو سال بعد کشف کو ٹائیفائیڈ کا بخار ہوا اس میں پانی کم پینے کی وجہ سے کشف کے گردے مزید سکڑ گئے اور ان کی حالت مزید بْری ہو گئی۔ بہادر لڑکی کشف کو لاہور کے دو مشہور ہسپتالوں پی کے ایل آئی اور شیخ زید ہسپتال میں داخل کروایا گیا لیکن ڈاکڑوں کے مطابق اس کی کشف کے گردے صاف کروانے کے احکامات صادر ہوئے تو لہٰذا کشف کے والد شاہد اقبال اپنی بیٹی کی سلامتی کے لئے اس علاج میں لگ گئے اور اپنی بیٹی کے ہفتے میں دو دفعہ گردے صاف کروائے جانے لگے۔ اس کے بعد شیخ زید والوں کے مطابق کشف کے گردے ٹرانسپلانٹ ہوں گے۔اس پیوندکاری کے سلسلے میں کشف کے تمام ٹیسٹ کروائے گئے جس کے بعد کشف کا سٹی سکین بھی ہوا تو بات سامنے آئی کہ اس کے گردے کا ٹرانسپلانٹ نہیں ہو سکتا اور اگر ہو بھی گیا تو نیا گردہ پھر اسی حالت میں آجائے گا، کیونکہ اصل مسئلہ کشف کے گردوں کا نہیں اس کے جگر کا ہے۔ کشف کا جگر بچپن ہی سے ایسا خون بناتا ہے جو اس کے گردوں میں پتھری پیدا کرتا ہے لہٰذا گردوں سے پہلے جگر کی پیوندکاری عمل میں لائی جائے۔اس سلسلے میں پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ والوں نے ایک ٹیسٹ لکھ کر دیا تو شاہد اقبال نے سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورالوجی سے کروایا کیونکہ پنجاب میں ایسا کوئی ادارہ نہیں جہاں سے یہ ٹیسٹ کروایا جاسکے۔ اس ٹیسٹ کے بعد یہ بات واضح ہوگئی کہ کشف کو جگر کا مسئلہ ہے جس کی بروقت پیوندکاری انتہائی ضروری ہے اور اس پیوندکاری کے لیے نجی ہسپتال 60-50 لاکھ روپے کی رقم مانگ رہے ہیں جو کہ کشف یا اس کے مزدور باپ شاہد اقبال کیلئے ادا کرنا ناممکن ہے اور پی کے ایل آئی کی مطابق وہاں کسی کی اتنی استطاعت ہی نہیں کہ اس غریب باپ کی مستحق بیٹی کا علاج کیا جا سکے۔
یہ تھی کشف قوم کی ایک بہادر لڑکی جو گزشتہ بیس سال سے ان بیماریوں سے بغیر کسی مدد کے لڑتی آرہی ہے اور شاہد اقبال جو کشف کے والد ہیں اپنی استطاعت سے بڑھ کر اپنی بیٹی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس جنگ شاہد اقبال کا گھر بک گیا گھر میں کھانے کے لالے پڑ گئے لیکن وہ اب بھی لڑ رہا ہے اکیلا اور تنہا۔ میں اس کالم میں آپ کی توجہ صرف دو نکات پر ڈالنا چاہتا ہوں ایک کشف کی بہادر اور دوسری حکومتی ہسپتالوں کی بے راروی پر: پہلے ہم نظر ڈال لیتے ہیں ہسپتالوں پر پی کے ایل آئی اور شیخ زید جیسے ہسپتال جن کا کریڈٹ ہر حکومت وقت لیتی ہے وہ تن و تنہا اس بچی کو چھوڑ کر کون سی کارکردگی دیکھا رہے ہیں۔ حکمرانوں کی جانب سے جن ہسپتالوں کا افتتاخ دھوم دھام سے کر دیا جاتا ہے کاش انہیں فعل بھی بنایا جائے تاکہ کبھی کسی کی بھی بیٹی اتنے قرب سے نہ گزرے۔
اب بات کر لیتے ہیں کشف شہزادی کی جو اپنے نام کی طرح ایک شہزادی ہے کو بچپن سے لڑتی ہے رہی ہے اور لڑتی رہے گی لیکن کب تک کیا ریاست کی کوئی ذمہداری نہیں؟ کیاان کا کوئی کردار نہیں؟ کاش کے درد میں گرتے آنسو حکمرانی کی اس پتھر مْرتی کو منہدم کر دیں۔ کشف اور اس کے والد شاہد اقبال کی وزیر اعظم عمران خان، چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ، چیف جسٹس آف پاکستا جسٹس آصف سعید کھوسہ، پاکستان کے مخیر حضرات اور عوام الناس سے گزارش ہے کہ قوم کی اس بیٹی کو اکیلا نہ چھوڑا جائے جو کوئی بھی اس کیلئے آگے بڑھ کر کچھ بھی کرسکتے ہے وہ کرے تاکہ کشف اپنے نام کی طرح اس بلندی پر پہنچے جہاں سے وہ دنیا دیکھ سکے۔