بس ذرا دل بڑا کرنے کی ضرورت ہے!! 

 بس ذرا دل بڑا کرنے کی ضرورت ہے!! 
 بس ذرا دل بڑا کرنے کی ضرورت ہے!! 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 پتہ نہیں کہ وطنِ عزیز کو جنم گھٹی بحران کی ملی تھی کہ بحران ٹلنے میں ہی نہیں آ رہے،چین، سکون اور آسودگی تو جیسے روٹھ ہی گئے ہیں۔ ابھی پاکستان کی ولادت کو گیارہ ماہ ہوئے تھے کہ ستمبر 1948ء کو بابائے قوم رخصت ہو گئے، ابھی قیادت کا بحران اور ملکی نظام قدموں پر کھڑا نہیں ہوا تھا کہ وزیر اعظم لیاقت علی خان کو لیاقت باغ راولپنڈی میں دوران تقریر گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔ ان بحرانوں سے قبل آزادی ملتے ہی بھارت نے ہندوستان کے خزانے میں پاکستان کے (آبادی اور رقبے کے تناسب سے) حصے کے چار کروڑ روپے کی ادائیگی روک دی، سرکاری ملازمین کو تنخواہ دینے کی رقم بھی خزانے میں نہیں تھی، مالیات کا بحران۔ پھر وزیر اعظم کے قتل کے بعد نظام حکومت ہی ڈگمگا گیا۔ بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے پھبتی کسی کہ میں اتنے پاجامے نہیں بدلتا جتنی حکومتیں پاکستان کی بدل جاتی ہیں، حکمرانی کا بحران۔ کبھی جمہوری، کبھی نیم جمہوریت، کبھی آمریت، کبھی صدارتی، کبھی پارلیمانی اور کبھی بنیادی (بی ڈی) نظام۔ ان سب سے گزرتے گزرتے آدھے سے زیادہ پاکستان گنوا بیٹھے۔ چند دن کفِ افسوس مل کر پھر اپنی ڈگر پر آ گئے، انتہاؤں کی سیاست کا چلن پھر عام ہو گیا، 1973ء کے متفقہ آئین کے بعد دو مارشل لاؤں کے 20 سال بھی آئے اور گزر گئے مگر قوم حکومت بذریعہ ووٹ کا سبق سیکھ گئی۔ دنیا بھر میں یہی بحرانوں کا حل ہے مگر ہمارے ہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے ہم الیکشن سے بھی بحران نکال لاتے ہیں۔ 1970ء کے انتخابات بالکل شفاف مانے جاتے ہیں مگر نتائج نہ ماننے سے ایسا بحران پیدا ہوا کہ ملک ہی دو لخت ہو گیا اب تازہ ترین الیکشن کو دیکھ لیں یہ کہنے کو ضمنی الیکشن تھے مگر نتائج و اثرات کے حوالے سے فیصلہ کن ثابت ہونا تھے، ان کی بنیاد پر ملک کے سب سے بڑے صوبے کی حکومت بھی تبدیل ہونے کے آثار پیدا نہیں ہوئے بلکہ بے یقینی کا ایک اور بحران سامنے آ گیا ہے۔ پنجاب حکومت تبدیل ہوتی ہے تو ”تیرا کیا بنے گا۔۔۔“ والا معاملہ ہوگا۔ ایسی وفاقی حکومت کیا چلے گی کہ جس کی کسی صوبے میں حکمرانی نہیں ہو گی۔ 52 فیصد آبادی کے صوبے پنجاب میں پی ٹی آئی اور ق لیگ کی حکومت۔

دوسرے نمبر پر بڑے صوبے سندھ پر پیپلزپارٹی کی حکومت، کے پی کے میں تحریک انصاف کی، آزاد کشمیر میں تحریک انصاف کی، گلگت بلتستان میں تحریک انصاف اور بلوچستان میں آزاد قسم کی حکومت جو خود ڈانواں ڈول رہتی ہے،ایسے میں حکمرانی کیا ہو گی اور کہاں ہو گی؟ پھر مالیاتی بحران بھی سامنے ہے کہ آئی ایم ایف نے قرضے کی منظوری ابھی دینی ہے۔ اگر یہ منظوری ہماری سیاستی و حکمرانی بے یقینی کی وجہ سے مؤخر ہوتی ہے تو قرضے کی قسط بھی مؤخر ہو گی اور قرض نہ ملا تو ہماری سٹاک ایکسچینج مزید بیٹھ جائے گی، ادائیگیوں کا توازن مزید بگڑ جائے گا، روپیہ مزید گر جائے گا۔ سیاسی و جمہوری دیوالیہ پن کے بعد مالیاتی دیوالیہ ہونے کا خطرہ حقیقت کے قریب پہنچ جائے گا۔ اس بحران سے ایک کمزور یا ڈولتی ہوئی حکومت کیسے نمٹے گی؟ فیصلہ سازی کی طاقت سے محروم انتظامیہ کیسے ڈلیور کرے گی؟ پھر یہی تازہ تازہ سرخرو سیاسی قوت پی ٹی آئی کی طرف سے یہی کہا جائے گا کہ ”سو گلاں دی اِکو گل۔۔۔ سیاسی بحران دا اِکو حل۔۔۔ نیا الیکشن نیا الیکشن“ لیکن کیا قومی خزانہ اس کا بوجھ اٹھا پائے گا؟ یا اس کے لئے بھی بیرونی قرض ہی لیا جائے گا؟ پھر کیا قومی اور صوبائی تمام اسمبلیاں توڑنے پر متعلقہ کرتا دھرتا مان جائیں گے؟ اگر بالفرض مان بھی جائیں اور انتخابات ہو بھی جائیں تو کیا ضمانت ہے کہ ایک مستحکم حکومت وجود میں آ جائے گی۔ ضمنی الیکشن کے نتائج پر عام انتخابات کو قیاس کرنا بھی حقیقت پسندی نہیں ہو گی کیونکہ اس کی سائنس مختلف ہے اور ویسے بھی ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار اس کے کارکنوں میں سے نہیں تھے، ”امپورٹڈ“ تھے،

یہ تمام امیدوار تحریک انصاف کے تھے جو منحرف ہو گئے اور اپنی نشستوں سے محروم ہو گئے تھے۔ عام انتخابات میں سینکڑوں نشستوں پر لیگی کارکنوں اور رہنماؤں میں سے امیدوار سامنے آئیں گے تو ووٹروں کا جوش اور طرح کا ہو سکتا ہے۔ خیر جو بھی ہوا کہا یہی جاتا ہے کہ جمہوریت کی خرابیوں کا حل مزید جمہوریت ہے، آمریت نہیں اور چلنا تو اسی راستے پر پڑے گا۔ اس مرحلے پر ”غصیلی باجی“ مریم نواز نے جس احسن انداز میں نتائج تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے وہ خوش آئند ہے۔ اگر فاتحین پنجاب بھی اسی طرح دل کھلا کریں، سب کے ساتھ چلنے اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی جمہوری روش اختیار کریں تو تاریخ بدل بھی سکتی ہے اور استحکام آ بھی سکتا ہے۔ جب وطن کامیاب ہوگا تو سب فریق کامران ہوں گے، کوئی ناکام نہیں ہوگا، یہی اس بحران میں کامیابی کی کنجی ہے۔ ملتان کے حلقہ پی پی 217 سے ناکام ہونے والے سابق ایم پی اے سلمان نعیم نے نتائج مکمل ہوتے ہی جس طرح خود آگے بڑھ کر کامیاب ہونے والے زین قریشی کو بغلگیر ہو کر مبارکباد دی وہ مثال بننی چاہئے ورنہ تو اس ملک میں جیت کر بھنگڑے ڈالنے والوں پر ہارنے والے گولیاں برساتے بھی دیکھے گئے ہیں۔ ہماری جمہوریت کو برداشت اور روا داری کا تڑکا لگ جائے تو حکمرانی بھی دیر پا ہو سکتی ہے اور معیشت بھی قدموں پر کھڑی ہو سکتی ہے، امن بھی دیرپا ہو سکتا ہے اور خوشحالی بھی آ سکتی ہے، بس ذرا دل بڑا کرنے کی ضرورت ہے۔ عوام کے مینڈیٹ کا احترام کرنے کی ضرورت ہے۔

مزید :

رائے -کالم -