حکومت نے پی ٹی آئی پر پابندی کی تجویز کس کو دی تھی؟ اپنے حلیفوں کو، میڈیا کو، عوام کو، پی ٹی آئی کو یا پھر خود اپنے آپ کو.....؟ یہ وہ معمہ ہے جو حل ہوتے ہوتے ہوگا۔ جمعرات سے اس پر کابینہ، پارلیمنٹ، حلیف جماعتوں کے درمیان بات چیت شروع ہو گی۔ البتہ اس سارے ہنگامے میں اگر کوئی ٹھوس پیش رفت ہوئی ہے تو وہ یہ کہ مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی درخواست دائر ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ باقی سب موشگافیاں ہیں جو کہ صحافی منیب فاروق مختلف ٹی وی چینلوں پر کر رہے ہیں اور جس طرح انہیں اپنے پرائے ہر ٹی وی چینل پر ٹائم مل رہا ہے اس سے لگتا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ترجمان ہیں۔ اگرچہ ان کا اصرار ہے کہ وہ جو کچھ بتار ہے ہیں، وہ ان کی خبر ہے ۔ منیب فاروق کے مطابق ان کی خبر یہ ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ سپریم کورٹ کو آنکھیں دکھانے کے لینے کے لئے بھی تیار ہے اور پی ٹی آئی کو معاف نہیں کرے گی۔ گویا کہ اسٹیبلشمنٹ کا آپریشن عزم استحکام ٹی ٹی پی کے نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے خلاف ہے۔
خیر آج کے کالم میں ہم کوشش کریں گے کہ صرف تجویز پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں۔ عمومی طور پر تجویز کو تب تک مشتہر نہیں کیا جاتا جب تک کہ اس پر مشاورت نہ ہو جائے مگر حکومتی زعماء بتارہے ہیں کہ وہ تجویز پبلک کرنے کے بعد اپنے حلیفوں کے ساتھ مشاورت کریں گے، پارلیمنٹ میں اس پر بحث کروائیں گے اور کابینہ میں غوروخوض کے بعد عملی قدم اٹھائیں گے۔ حکومت کی یہ ترتیب الٹی دکھائی پڑتی ہے کیونکہ اسے پہلے کابینہ میں غوروخوض کرنا چاہئے تھا، پھر پارلیمنٹ میں بحث کروانی چاہئے تھی، اس کے بعد حلیفوں سے حتمی مشاورت کرکے اس تجویز کو پبلک کرنا چاہئے تھا۔
پرانے زمانے میں جب کوئی تجویز انتہائی نتائج کی حامل ہوتی تھی تو اس پر بات کرنے والے ایک دوسرے سے پہلے بات کیا کرتے تھے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ آج کل یہ رواج بھی بدل گیا ہے اور حکومت کے اندر جب کوئی تجویز زیر غور آتی ہے تو پہلی بات یہ ہوتی ہو گی کہ میڈیا کیا کہے گا؟ خاص طور پر جب سے سوشل میڈیا پر افواہ سازی ایک سائنس کی شکل اختیار کرگئی ہے تب سے حکومتوں کو لوگوں کی کم اور سوشل میڈیاسمیت الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیاکی زیادہ فکر ہوتی ہے۔ وہاں سے آنے والے ردعمل پر حکومت اپنی تجویز پر عمل درآمد کی پالیسی طے کرتی ہے جس طرح کہ حالیہ کیس میں ہوا کہ جب پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی جانب سے منفی ردعمل آیا تو حکومتی زعماء نے کہنا شروع کردیا کہ پی ٹی آئی پر پابند ی کی بات ابھی محض ایک تجویز ہے جس پر مشاورت کے بعد ہی حتمی لائحہ عمل اختیار کیا جائے گا۔
میڈیا نے جہاں اس تجویز کا تیاپانچہ کرنے کے لئے تجزیہ کاری کے انبار لگائے وہاں پر حکومتی حلیفوں، حریفوں اور حتیٰ کہ امریکی ترجمانوں تک دوڑ کر پہنچے اور ان کے تاثرات و ردعمل (اور وہ بھی اپنی مرضی کا) لے کر بھونپوبجانا شروع کردیا کہ پیپلز پارٹی کے فرحت اللہ بابر، رضا ربانی اس کے مخالف ہیں، مولانا مخالف ہیں اور امریکہ مخالف ہے۔ کسی نے آصف زرداری یا بلاول بھٹو تک پہنچنے کا تردد کیا اور نہ ہی ان کے ردعمل کا انتظار کیا۔ یہاں تک کہ خود بھی ان کا ردعمل لینے کی کوشش نہ کی اور اس تجویز کی مخالفت میں لگاتار ٹرانسمیشن چلا کر ثابت کیا کہ ایسا تو کسی طور ممکن نہیں ہے۔
یہ ہے وہ فضا جس کا حکومت کو اس وقت سامنا ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ ہر ادارے میں، خواہ وہ بیوروکریسی ہو، عدلیہ ہو، اسٹیبلشمنٹ ہو یا میڈیا، ابھی تک پی ٹی آئی کی باقیات موجود ہیں جو پی ٹی آئی کی وکالت میں ہر دیوار سے ٹکر لینے کے لئے تیار ہیں کیونکہ بقول ان کے وہ ”ٹکر کے لوگ“ہیں۔عدلیہ میں اس حوالے سے ایڈہاک ججوں کی تعیناتی کی بات سامنے آئی ہے تو اس پر بھی وہی تکرار شروع کردی گئی ہے اور عوام میں یہ تاثر بٹھانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ یہ سب کچھ چیف جسٹس کی جانب سے اپنے آپ کو اکثریت میں لانے اور اپنی مدت ملازمت میں توسیع کا ڈرامہ ہے۔
یہ ساری صورت حال بتاتی ہے کہ حکومت کے لئے سب سے بڑا چیلنج پی ٹی آئی کی باقیات ہے جس سے نپٹتے نپٹتے اس کے ہاتھ پاؤں شل ہو رہے ہیں۔ یہ صورت حال اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ صبروتحمل سے کام لیا جائے۔ نون لیگ کو ان مخالف قوتوں سے نبردآزما ہوتے ہوئے اپنا ترقی کا ایجنڈا پس پشت نہیں ڈالنا چاہئے۔ ایسی قوتوں سے دو دو ہاتھ کرنے کا یہی بہتر طریقہ ہے کہ ان کو ہوائی فائرنگ میں الجھائے رکھا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ ایکسپوز کرنے کا سلسلہ جاری رکھنا چاہئے۔ عوام کی ایک بڑی تعداد ایسے عناصر کی مختلف اداروں میں موجودگی سے اچھی طرح واقف ہو چکی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان باقیات میں سے بہت سے ’شکرے‘اور ’گیلے تیتر‘اب چپ سادھے ہوئے ہیں۔اگر حکومت اپنی اس حکمت عملی کو ایک سال اور کامیابی سے چلاگئی تو عوام کی بڑی تعداد کی سوچ میں واضح تبدیلی آجائے گی اور انتشاریوں کو مزید کھل کھیلنے کا موقع نہیں ملے گا۔ پچھلے ایک برس میں حکومت نے میڈیامیں موجود گیلے تیتروں پر بڑی حد تک قابو پا لیا تھا کہ اس کو عدلیہ کی جانب سے ایک چیلنج کا سامنا ہوگیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس سے کیسے نپٹتی ہے کیونکہ حکومت جانتی ہے کہ کوئی کچھ بھی کرے، ملک کی مہار اس کے ہاتھ میں ہے!