آسمانی بجلی                      (2)

 آسمانی بجلی                      (2)
 آسمانی بجلی                      (2)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بعض اوقات ایک بادل سے دوسرے بادل اور دوسرے سے تیسرے میں بجلی بھرتی چلی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ اس میں اس قدر زور ہو جاتا ہے کہ ہوا نہیں روک سکتی اور یہ زمین پرگرنا چاہتی ہے۔بجلی کی ایک چمک بعض اوقات سیکنڈ کے کئی لاکھویں حصے کے وقفے کی ہوتی ہے مگر اس کی شدت کی وجہ سے ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ دیر چمکتی رہی۔ اس میں کروڑوں گھوڑوں کی قوت ہوتی ہے مگر افسوس کہ اب تک یہ ہم کو دھوکے دے رہی ہے اور انسان کے قابو میں نہیں آ سکی۔ دنیا کی تمام قوتوں کی طرح یہ بھی کم سے کم مزاحمت کا راستہ ڈھونڈتی ہے، چنانچہ بلند عمارتیں چمنی، منارے، برج،درخت وغیرہ جو اس کے قریب آ گئے، ان کے ذریعے سے زمین میں پیوست ہونا چاہتی ہے اور چونکہ ان چیزوں میں کچھ نہ کچھ مزاحمت ہوتی ہے، لہٰذا ان دونوں قوتوں میں یعنی بجلی میں اور شے مذکور میں ایک کشمکش ہوتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بجلی کی شکل آپ نے دیکھی ہوگی کہ آسمان پر ایک لہریے کی سی ہوتی ہے۔ اسے Forked Lightning یا برق شاخسانہ کہتے ہیں۔ اس نظریے کو معلوم کرکے فرینکلن نے تجویز دی کہ اگر عمارتوں پر ایسے تار جن میں مزاحمت کم ہو بلند مقام پر لگا دیں تو وہ بہ آسانی بجلی کو گزر جانے دیں گے اور نہ کشمکش ہوگی نہ کڑاکا ہوگا اور نہ عمارت کا نقصان ہوگا مگر یہاں اس بات کی انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے کہ یہ تار زمین میں دور تک گہرا چلا جائے۔ خشک زمین بھی حاجز ہے۔یعنی بجلی کو روکتی ہے۔ لہٰذا ایسے تار زمین میں اتنی گہرائی تک لے جائے جائیں جہاں موسم گرما میں نمی نکل آئے۔ اس تار کو اکثر ایک چوڑی پٹی کی شکل میں لگایا جاتا ہے۔ ایک تانبے کی چادر لوہے کے پائپ سے خوب واصل کرکے اور جھال دے کر دفن کریں۔ اگر باریک کوئلے پیس کر اس گڑھے میں بھر دیں اور اسے پانی سے خوب تر کر دیں تو نمی دیرپا رہتی ہے۔ اکثر اس تار کو کنوئیں میں اتار دیتے ہیں یا پانی کے نل سے ملا دیتے ہیں۔ اس طرح تار کو لگانے سے حفاظت مکمل ہو جاتی ہے۔ اسے اصطلاح میں To Earth یا ارتھ کرنا کہتے ہیں۔ ایسے مکانات پر جو ایک دوسرے سے علیحدہ ہوں یا پہاڑی پر ہوں، برق ربا لگانا ضروری ہے۔ شہروں کی ایسی عمارتیں جو متصل چلی آتی ہیں ان پر بجلی گرنے کا اندیشہ اتنا نہیں ہوتا جتنا منتشرعمارتوں پر ہوتا ہے۔ شہر میں بھی ایسی عمارت پر جو دوسری عمارتوں میں سربرآورد ہو برق ربا لگا دینا چاہیے۔ ایسی عمارتیں جیسے مسجدیں جن میں دو یا زیادہ منارے ہوتے ہیں اگر ان سب مناروں پر تار لگا دیئے جائیں تو مناسب ہے۔ مکان میں جہاں دھات لگی ہو خصوصاً ٹین کے سائبان انہیں ضرور ارتھ کردینا چاہیے۔ اگر یہ سائبان لوہے کے تھمبے پر ہوں تو ان کے نیچے نہیں بیٹھنا چاہیے۔ ایسے سائبانوں کو ایک لوہے کے تار سے ملا کر تار کو زمین میں دفن کر دینا چاہیے یا پانی کے پائپ سے ملا دینا چاہیے۔

جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ بجلی کم سے کم مزاحمت کے راستے سے گزرنا چاہتی  ہے یعنی وہ موصل میں سے گزرنا پسند کرتی ہے، بمقابلہ کسی غیر موصل یا حاجز چیز کے۔ تمام دھاتیں موصل ہوتی ہیں اور اسی لئے دھات کے خصوصاً تانبے کے برق ربا بناتے ہیں مگر علاوہ دھاتوں کے اور بھی چیزیں ہیں جو موصل  ہیں مثلاً کاربن اور دھواں۔ جو دھواں چمنی میں سے نکلتا ہے۔ وہ بھی موصل ہے۔ اس لئے بجلی کا جس وقت طوفان آئے تو آتش دان کے پاس نہ بیٹھنا چاہیے۔ بلکہ وسط کمرے میں ایسے قالین یا دری پر بیٹھنا چاہیے جو سوکھی ہو کیونکہ خشک کپڑا جہاں حاجز ہے، وہاں تر کپڑا نہایت عمدہ موصل بن جاتا ہے۔ اگر آپ جنگل میں ہوں اور بجلی کا طوفان آ جائے، یعنی یہ معلوم ہو کہ بالکل سمت الراس پر ہے۔ تو یہ خیال رکھنا چاہیے کہ بجلی کے گرنے کا امکان آپ پر زیادہ ہے۔ ایسے وقت میں کسی اونچے درخت کے نیچے پناہ لیں کیونکہ بلند چیز پر بجلی گرنے کا احتمال زیادہ ہے۔ یہ ممکن ہے کہ بعض وقت درخت پر بجلی گرے اور اس کے نیچے جو آدمی ہے۔ وہ براہ راست اس کی زد میں تو نہ آئے مگر،درخت کے گرنے یا اس کی کسی بھاری شاخ کے گرنے سے وہ مجروح ہو سکتا ہے۔ ایسے وقت میں پانی سے بھیگنے کی پروا نہیں کرنی چاہیے بلکہ درخت سے ہٹ کر کھلے میدان میں آجانا چاہیے۔ اگر گھٹا جنگل ہے تو اونچے درختوں کی پناہ نہ لے بلکہ کسی چھوٹے درخت یا جھاڑی کی آڑ پکڑنا چاہیے۔ اگرکوئی شخص موٹر یا کشتی میں سوار ہو اور طوفان بالکل سر پرہو تو کشتی میں لیٹ جائے اور موٹراگر چٹیل میدان میں ہو تو اس سے اتر کر اس کے پاس تھوڑے فاصلے پر لیٹ جانا چاہیے۔کیونکہ موٹر نسبتاً زیادہ بلند ہے۔ اگر کوئی گڑھا مل جائے تو گڑھے میں لیٹنا زیادہ بہتر ہے۔ اگر بہت سے آدمی ساتھ ساتھ جا رہے ہوں تو سب کو منتشر ہوجانا چاہیے۔ ایک جگہ نہ رہیں۔اگر آگ جلا رکھی ہو تو آگ سے دور بیٹھیں، کیونکہ  دھواں موصل ہے اور بجلی کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ بیٹھے رہنے میں بھی نسبتاً زیادہ خدشہ ہے۔ گیلے کپڑے حفاظت کا باعث ہو سکتے ہیں کیونکہ سوکھے کپڑے کے مقابلے میں گیلا کپڑا بہتر موصل ہے۔ اگر کسی پر بجلی گرنے والی ہے تو زیادہ امکان یہ ہے کہ وہ گیلے کپڑوں میں سے یعنی انسان کی بالائی سطح پر سے گزر جائے اور جسم میں سے ہو کر نہ گزرے۔ اگر کوئی لمبی لکڑی یا برچھا ہو تو اسے گاڑ کر اس سے قدرے فاصلے پر لیٹ جانا چاہیے۔ اگر لکڑی بالکل خشک ہو تو گیلا کپڑا اس پر لپیٹ دیں کہ زمین تک پہنچ جائے۔ چھتری جس کے ہاتھ میں ہو، اسے اس کی احتیاط ضروررکھنی چاہیے کہ چھتری اور زمین تک صرف وہی ایک واسطہ نہ ہو۔ اگر لوہے کی ڈنڈی ہے تو اسے زمین پر لگا کر اس کے نیچے بیٹھ جانا چاہیے تاکہ اگر بجلی گرے تو تاروں میں اور ڈنڈی میں ہو کر زمین میں چلی جائے۔ یہ سب احتیاطیں صرف چٹیل میدان میں اور اس وقت کرنے کی ہیں، جب یہ دیکھ لے کہ بالکل سر پر بجلی برق شاخسانہ کی صورت میں چمک رہی ہے۔ اگر سر پر برق شیٹ میں چمک رہی ہے تو پھر ان احتیاطوں کی ضرورت نہیں۔ برق شاخسانہ کی علامت یہ ہے کہ اس میں کڑک ہوتی ہے اور اس کی شکل لہریے دار ہوتی ہے۔

برق ربا کے پاس کھڑے ہونے میں تو کچھ اندیشہ نہیں، کیونکہ بجلی گرے گی تو سیدھی زمین میں پیوست ہو جائے گی، مگر جس وقت بجلی کا طوفان کہیں بھی آ رہا ہو تو تار کے گچھوں سے دور رہنا چاہیے۔ بعض اوقات گائیں بھینسیں ریل کے کنارے کے تاروں کے پاس مری ہوئی ملتی ہیں حالانکہ ان کے سر پر طوفان نہیں آیا بلکہ کسی دور مقام پر طوفان آیا۔ تار پر بجلی گری اور چونکہ تار بعض وقت ارتھ نہیں ہوتا۔ یعنی لکڑی یا پتھر پر لگا ہوتا ہے یا لوہے کے تھمبے بھی خشک زمین پر ہوتے ہیں، اس لئے بجلی بجائے زمین میں جانے کے تار میں پہنچ کر دور تک جو اس کے قریب ہواہلاک کرتی چلی گئی۔

بعض کا خیال ہے کہ جہاں ایک دفعہ بجلی گر جاتی ہے وہاں پھر نہیں گرتی حالانکہ تجربے نے بتایا ہے کہ جہاں ایک دفعہ بجلی گر چکتی ہے وہاں اس کے گرنے کا زیادہ احتمال  ہے۔اول تو یہ کہ ضرور اس مقام میں اور بجلی والے بادل میں مزاحمت کم تھی۔ جب ہی بجلی گری دوسرے پے در پے کئی مرتبہ بھی اس وجہ سے گرنے کا امکان  ہے کہ جب بجلی گرتی ہے تو آس پاس کی ہوا میں خلا پیدا ہو جاتا ہے اوربمقابلہ ہوا کے خلا کی مزاحمت بہت کم ہوتی ہے۔ اسی لئے اس میں سے بجلی کے گزرنے کا آسان راستہ بن جاتا ہے جہاں بجلی گرتی ہے۔ وہاں بعض وقت تھوڑی دیر تک گندھک کی سی بو آتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بجلی میں شعلہ پیدا ہوتا ہے تو یہ آکسیجن کے اجزاء میں تغیر پیدا کرکے تین جوہروں کا ایک سالمہ بنا دیتا ہے۔ اسے اوزون OZON کہتے ہیں۔ یہ دق، دمے اور پھیپھڑے کے مریضوں کے لئے مفید ہے۔ اس گیس اوزون کی بوگندھک کی بو سے مشابہ ہوتی ہے ورنہ بجلی میں گندھک وغیرہ کچھ نہیں ہوتی۔(ختم شد)

مزید :

رائے -کالم -