الیکٹرانک میڈیا اور تشہیری سیلاب
الیکٹرانک میڈیا پر کچھ دنوں سے آخر وہی ہونے لگا ہے جس کا ہونا ٹھیر چکا تھا، صبح ہوتا یا شام ہوتا.... قصہ پیشہ ورانہ رقابت سے شروع ہوا۔ بعض الیکٹرانک میڈیا چینل اس بات پر جِز بِز ہو رہے تھے کہ ان کا بزنس تقسیم کیا جا رہا ہے۔ آئے روز نئے چینل آن ایئر ہو رہے ہیں اور آئے روز اشتہاری بجٹ تحلیل ہو رہے ہیں۔ یہ وہی معاملہ ہے، جس کو محکمہءمال میں غیر منقولہ جائیداد کا معاملہ کہا جاتا ہے.... ایک باپ کی وراثتی زمین اگر 100 مربع ہو اور اس کے پانچ بیٹے ہوں تو باپ کی وفات کے بعد ہر ایک بیٹے کو 20، 20 مربعے مل جاتے ہیں اور اگر یہی حال اگلی نسل کا ہو تو ہر بچے کے حصے میں 4، 4 مربعے آئیں گے۔ تیسری نسل میں بات مربعوں سے نکل کر ایکڑوں، کنالوں اور پھر مرلوں تک آجائے گی....یہ انجام ہو کے رہتا ہے۔ درمیان میں صرف ”وقت“ حائل ہوتا ہے۔
صدر پرویز مشرف کے عہد میں جب نجی ٹی وی چینلوں کا اجراءعام ہوا تو اول اول چند چینل تھے اور ان کی اشتہارات سے آمدنی بھی محدود تھی، لیکن دیکھا دیکھی چینلوں کی تعداد بڑھتی گئی۔ ملک میں جتنے اردو اور انگریزی کے قومی روزنامے تھے، ان سب نے اپنا اپنا چینل بھی چلا دیا۔ آج ملک کا کوئی قومی اخبار ایسا نہیں، جس کا اپنا چینل نہ ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پرنٹ میڈیا سے مالکان اخبارات کو جو آمدنی ہوتی تھی، اس کا حجم الیکٹرانک میڈیا کی آمدنی سے کئی گنا کم ہوگیا۔ اخباری نمائندوں کو چینل رپورٹر بنا دیا گیا اور اس طرح پرنٹ میڈیا میں کام کرنے والے دوسرے پروفیشنل اور نیم پروفیشنل کارکنوں کی ”پروموشن“ کر دی گئی۔ البتہ جو صنف، پرنٹ میڈیا میں اپناکوئی الگ مقام (SLOT) نہیں رکھتی تھی یا اگر رکھتی بھی تھی تو اس کی ”قدر و قیمت“ ایک تنگ سے دائرے میں محدود تھی۔ لیکن جب ٹی وی آیا تو جیسے اچانک ایک بھونچال سا آگیا!.... پرنٹ میڈیا کے کئی پروفیشنل کارکن راتوں رات نہال ہوگئے اور کئی ایسے بھی پیدا ہوگئے، جن کا کسی کو خواب و خیال بھی نہ تھا.... یہ صنف، اینکر خواتین اور مرد حضرات کی تھی۔
مرد حضرات کی دانش و بینش، علم و فضل اور بین الاقوامی امور پر ان کی گرفت قابلِ صد ستائش تھی۔ لب و لہجہ، طرز استدلال، فرقِ مراتب کو محلوظِ خاطر رکھنا، اشاروں کنایوں اور استعاروں میں اپنا مدعا بیان کرنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ ان حضرات کو داد دینی چاہئے کہ انہوں نے کم سے کم عرصے میں انگریزی اور اردو زبانوں پر اپنی دسترس اور طریقِ استدلال کی دھاک بٹھا دی۔
....جہاں تک خواتین اینکرز کا معاملہ ہے تو ان کو بھی الیکٹرانک میڈیا کی دنیا میں دو صفات(Attributes) نے ایک ممتاز مقام عطا کر دیا۔ یہ دو صفات ان کے نسوانی رنگ و روپ اور خوش کلامی سے عبارت تھیں۔ رفتہ رفتہ ان کی گرمیءکلام سے سارے کا سارا ٹاک شو آتش زیر پا رہنے لگا۔
ناظرین کی اکثریت ان خواتین اینکرز کی خوش کلامی اور خوش اندامی اور ”مور اوور“حاضر جوابی اور طرزِ استدلال سے مرعوب ہو ہو جاتی تھی۔ ان کو لباسِ فاخرہ کے نئے نمونے جو دیکھنے کو ملتے تھے.... آرائش گیسو کا روزانہ ایک نیا مظاہرہ جو زیب ِ نظر ہوتا تھا.... ہر روز ان کی بے باکی اور موضوعِ زیر بحث پر ان کی گرفت، پاکستان کے ایک عام سے گھامڑ ناظر کو بھی اپنی طرف متوجہ کئے بغیر نہیں رہتی تھی، بلکہ مَیں نے تو کئی ”اللہ والوں“ کو ٹاک شوز کے دوران اقبال کے اس شعر کا مصداق پایا:
متاعِ دین و دانش لُٹ گئی، اللہ والوں کی
یہ کس کافر ادا کا غمزئہ خونریز ہے ساقی
مگر ٹاک شوز کی ان نمائشوں میں اصل فائدہ وہ لوگ اٹھا رہے تھے جو اشتہار بناتے، اشتہار دیتے، اور اشتہار چلاتے تھے اور اصل نقصان دہ لوگ اٹھاتے تھے، جنہیں ہم ”18 کروڑ عوام“ کہتے ہیں۔ ذرا دماغ پر زور دے کر یاد کیجئے کہ اس موضوع پر کیا کسی چینل نے کوئی ایک ٹاک شو بھی آن ایئر کیا ہے کہ ایک گھنٹے کے پروگرام میں آدھ گھنٹے کے اشتہارات سے کس کو کتنا فائدہ اور کس کو کتنا نقصان ہوتا ہے؟
مثلاً ملک کے درجنوں ٹی وی چینلوں پر چلتے ہوئے اشتہارات میں سر فہرست موبائل فونوں کے اشتہار ہوتے ہیں۔ دوسری پراڈکٹس کا نمبر اس کے بعد آتا ہے۔ موبائل فون کے جہاں بہت سے فائدے ہیں، وہاں بہت سے نقصانات بھی ہیں۔ (اس موضوع پر کئی کالم لکھے جا سکتے ہیں۔ ہم پاکستانی اس سہولت کا غلط فائدہ اٹھاتے اور اپنے پاو¿ں پر آپ کلہاڑی چلاتے رہتے ہیں).... کسی بھی ٹی وی اشتہار کو بنانے کے لئے پہلے اس کو احاطہءخیال میں لانا (To Conceive) پھر اس کے لئے نسوانی اور مردانہ کرداروں کا انتخاب، ان کی ریہرسل، ان کی ڈبنگ (Dubbing) ان کی پروڈکشن اور دوسرے متعلقہ اخراجات۔ یہ مرحلہءاول ہے.... دوسرے مرحلے میں اس اشتہار کو ٹی وی چینلوں پر چلانا، 24 گھنٹوں میں اس کا آن ایئر دورانیہ، مختلف پروگراموں میں اس اشتہار کی لوکیشن یعنی تقدیم و تاخیر وغیرہ۔ مرحلہءدوم ہے.... ان دونوں مراحل میں پہلے مرحلے کا خرچ صرف ایک بار اٹھانا پڑتا ہے، جبکہ دوسرے مرحلے کا خرچ روزانہ کی بنیاد پر شمار کیا جاتا ہے۔ ٹی وی پر اشتہار چلانے کے لئے وقت کا پیمانہ ”سیکنڈوں“ میں ہوتا ہے، منٹوں میں نہیں۔ اور ٹی وی چینل کا کوئی نرخ نامہ اگر آپ کو کہیں نظر آجائے تو آپ کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں۔ یہ بھی دیکھیں کہ اگر ملک میں کسی ایک موبائل برانڈ کے 4 کروڑ استعمال کنندگان ہوں اور روزانہ ہر ”فون اونر“ صرف ایک کال کرے تو روزانہ 4 کروڑ سے زائد کی آمدن اس موبائل فرم کو ہوگی.... لیکن ہم پاکستانی کیا صرف ایک منٹ کی کال پر اکتفا کرتے ہیں؟ اگر ہر ”صاحبِ موبائل“ صرف 10 منٹ روزانہ کال کرے تو40 کروڑ روپے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ اس رقم میں سے اگر ٹیلی ویژن چینلوں کو ایک کروڑ روزانہ دے دیاجائے تو کیا ہرج ہوگا؟.... حقیقت یہ ہے کہ موبائل فون والے اپنی آمدنی میں اپنی اشتہاری مہم کو آٹے میں نمک بھی خیال نہیں کرتے....بھگت کبیر نے کیا خوب کہا تھا:
چڑی چونچ بھر لے گئی، ندی نہ گھٹیو نیر
پُن دیے، دھن گھٹے ناہیں کہہ گئے داس کبیر
ندی کا نیر (پانی) کسی چڑیا کی بوند سے واقعی گھٹتا تو نہیں، لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ یہ بوند بوند پانی آتا کہاں سے ہے کہ جس سے ایک ٹھاٹھیں مارتی ہوئی نہر بن جاتی ہے؟ جناب عالی! یہ بوند میری آپ کی جیبوں سے آتی ہے!
چلیں اب موبائل فونوں سے آگے چلتے ہیں....
ہر ٹی وی چینل24 گھنٹے آن ہوتا ہے۔ اس پر جن جن اشیائے صرف کے اشتہار چلتے ہیں ( اور دن رات چلتے ہی رہتے ہیں) ان کے اخراجات کا اندازہ کیجئے.... مثلاً کسی واشنگ پاو¿ڈر ہی کو لے لیں.... ان کے کئی نام اور کئی برانڈ ہیں۔ اگر ”سرف“ ہی کو لے لیں تو ایک کلو ”سرف ایکسل“ کے دام کسی دوکاندار سے پوچھیں.... لگ پتہ جاتا ہے جب بات سینکڑوں میں کی جاتی ہے....
اب ذرا ایک لحظے کو رک کر یہ بھی سوچیں کہ جو فرم، کمپنی، کارخانہ، فیکٹری یہ سرف تیار کر رہا ہے، اس کو اشتہار بازی کی مد میں کتنا خرچہ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ پرنٹ میڈیا میں اور شہروں کی سڑکوں اور چوراہوں پر بل بورڈوں اور جہازی سائز کے ہورڈنگز پر اٹھنے والے تشہیری اخراجات بھی اس میں شامل کریں تو بات کہاں سے کہاں نکل جاتی ہے.... اگلی بات یہ ہے کہ کیا یہ بے محابا خرچ سرف بنانے والی فرم برداشت کرتی ہے؟.... جناب عالی! نہیں، یہ سب خرچ میری اور آپ کی جیب سے جاتا ہے۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ عام اشیائے صرف کی ہر روز مہنگائی جو بڑھ رہی ہے تو اس کی وجہ کیا ہے؟.... اس کی وجہ میری نظر میں یہی ہے کہ مختلف چینلوں کو اشتہارات کی مد میں جو ہر ماہ لاکھوں کروڑوں روپے ادا کرنے پڑتے ہیں، وہ یہ ”سرف ساز“ کمپنیاں اپنی جیب سے نہیں ہماری آپ کی جیب سے وصول کرتی ہیں.... ہر ماہ ”سرف“ کے نرخ بڑھا کر....!
یہ درست ہے کہ چینل مالکان کے اخراجات بے تحاشا ہوتے ہیں۔ مثلاً کسی بھی نئے چینل کی تنصیب کا ابتدائی بجٹ.... سازو سامان(Equipement) کی خرید کا خرچ.... یوٹیلٹی بلوں کی ادائیگی.... عملے کی تنخواہیں.... ملک بھر میں پھیلے نمائندوں کو دیا جانے والا سازو سامان اور ان کے ماہانہ مشاہرے.... پٹرول کا خرچ اور اس قسم کے دیگر بہت سے اخراجات.... یہ سب اخراجات مل کر کروڑوں سے آگے اربوں تک نکل جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان کو کہاں سے پورا کیا جائے گا؟.... یہی وجہ ہے کہ روز بروز مختلف چینلوں کی معاشی صورت حال ابتر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ جہاں نئے پہلوان دنگل میں اتر رہے ہیں، وہاں پرانے پہلوان تھک ہار کر اور مار کھا کر اکھاڑے سے باہر بھی ہوتے جا رہے ہیں۔
اب آخر میں یہ دیکھنا ہے کہ اس مرض کا علاج کیا ہونا چاہئے.... آپ کے پاس مندرجہ ذیل آپشنز ہیں:
-1 ملک کی سماجی تنظیمیں جلسے جلوس نکال کر عوام میں یہ آگہی عام کریں کہ عوام کو ”آگہی“ دینے کی آڑ میں ان پر عرصہءحیات تنگ کیا جا رہا ہے۔
-2 اس مضمون کے اشتہارات ذرا ٹی وی چینلوں پر چلا کر دکھانے کی کوشش تو کریں اور پھر دیکھیں کہ چینل مالکان کا ردعمل اس پر کیا ہوتا ہے۔
-3 ”مہنگے سرف“ کو خریدنا بند کریں.... کوئی ایسا سرف خرید کریں جو مقابلتاً ارزاں ہو.... کئی برس پہلے بازاروں میں ”سرف“ بنانے کے اجزائے ترکیبی دستیاب تھے جن کو ملا کر ایسا سرف تیار کیا جاسکتا تھا، جو ان ایام میں بازاروں میں بکنے والے سرف کی نسبت کہیں سستا تھا.... اس قسم کی روایت کو از سر نو زندہ کیا جاسکتا ہے۔
-4 پیمرا کوئی ایسا نظام وضع کرے جس کی رو سے .... (1) کسی ایک پراڈکٹ کی تشہیر کے لئے ایک مخصوص/ محدود دورانیہ/ بجٹ مختص کیا جاسکے.... خلاف ورزی کرنے والے چینل کو بھاری جرمانے کئے جائیں۔
....(2) الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی بہت سی خرابیوں کو دور کرنے اور نشریاتی اداروں کے کارکنوں کے جائز مطالبات کو تسلیم کرنے کے عمل کو ریگولیٹ کیا جائے....(3) نشریاتی ضابطہءاخلاق کو پبلک میںعام کر کے اس کو حرفاً حرفاً نافذ کیا جائے۔
-5 تمام چینلوں/ اخبارات کے حسابات کے ماہانہ گوشوارے چیک کئے جائیں اور اشتہارات (سرکاری اشتہارات) کی تقسیم کا ایک یکساں ضابطہ وضع کر کے لاگو کیا جائے۔ اس کے لئے مختلف اخبارات اور چینلوں کی ”کیٹیگرائی زیشن“ کی جا سکتی ہے۔
-6 ٹاک شوز آن ایئر کرنے پر تو کوئی پابندی نہیں لگائی جا سکتی، لیکن مالکان خود اپنے اینکرز کو ”انٹرنیشنل کوڈ آف کنڈکٹ“ کی پیروی پر تو آمادہ، بلکہ مجبور کر سکتے ہیں۔
-7 اور آخری بات یہ کہ اس وسیلہءمواصلات (ٹی وی اور اخبارات) کی ایک الگ وزارت قائم کی جائے یا ایک الگ ڈویژن (وزارتِ اطلاعات و نشریات میں) ایسا قائم کیا جائے، جس میں ”پیمرا“ کی نمائندگی بھی ہو اور الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کی نمائندگی بھی جو اپنے اپنے اداروں کے لئے جواب دہ ہوں۔ ٭