فوج کو سپریم کورٹ سے لڑانے کی سازش !
سورة رحمان کی شروع کی آیات میں ہی میزان یعنی ترازو قائم کرنے کی بات ہے، میرے رب کا حکم آتا ہے کہ ٹھیک ٹھیک تولو انصاف کے ساتھ اور نہ گھاٹا دو تولتے وقت، اگرا س حکم کو صرف دکانداروں اور ترازو کے محدود پیمانے میں ہی دیکھا جائے تو اس سے بڑا ظلم نہیں ہو سکتا۔ ہم نے زندگی کے ہر شعبے میں او رہر موقعے پر انصاف سے کام لینا ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ دانشورانہ دیانت پر یہ ترازو لاگو نہ ہوتا ہو۔ ظلم تو یہ ہے کہ بعض نام نہاد دانشور ہی اپنے دسترخوان کے لئے کبھی کبھی اس ترازو کو ایک جانب اتنا جھکا دیتے ہیں کہ شائد کوئی کریانہ مرچنٹ بھی اپنے ترازو میں اتنا جھول نہیں رکھتا ہو گا۔ اس تمہید کا مقصد آپ کے سامنے معروف دانشور نجم سیٹھی کا ایک کالم رکھنا ہے جو ایک روز قبل شائع ہوا۔ صحافی کا کام خبر دینا اور تجزیہ کرنا ہے مگر اس خبر اور تجزئیے کو بہرحال خواہش سے الگ ہی ہونا چاہئے۔ موصوف اس لئے بھی ایک بڑا نام ہیں کیونکہ اب وہ ایک بڑے چینل پر بیٹھ کر موشگافیاں کرتے ہیں اور اسی گروپ سے متعلقہ اخبار میں اپنا تجزیہ بھی شائع کرتے ہیں۔ ملک ریاض والے ایشو میں وہ ایک پلڑے والا ترازو لئے بیٹھے ہیں مگر ایک روز قبل شائع ہونے والے اپنے کالم میں تو انہوں نے انتہا کر دی۔ میں اس کالم کے اقتباسات کچھ اپنی معروضات کے ساتھ آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں ۔ اپنی تحریر کے آغاز میں نجم سیٹھی فرماتے ہیں ” جیسے جیسے سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے یہ خدشہ بھی پیدا ہو رہا ہے کہ اس اگر صورتحال پر قابو نہ پایا گیا تو دفاعی اداروں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو سکتاہے۔ اس کیس کے روح رواں ملک ریاض صاحب ہیں اور ان کے صدر زرداری کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہونے کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی شراکت داری ہے“ ۔۔۔ یہ کالم ملک ریاض کو مشکل وقت سے بچانے کے لئے سپریم کورٹ آف پاکستان کے خلاف دفاعی اداروں کو ایک خاص لائن دے رہا ہے حالانکہ ہر کس و ناکس جانتا ہے کہ ملک ریاض کس انیکسی میں بیٹھ کر مشورے کرتے اور لائن لیتے تھے، یہ انہی کی انیکسی اور گھر ہے جس کے ساتھ ان کے دوستانہ تعلقات کا موصوف نے اعتراف کیا ہے۔ آگے فرماتے ہیں ” اگر ملک ریاض کیس کی ٹائمنگ دیکھیں تو سازش کی تھیوری میں جان نظرآتی ہے کیونکہ بعض ادارے چیف جسٹس سے نالاں تھے کیونکہ سپریم کورٹ انسانی حقوق کے حوالے سے فو ج کو من مانی کرنے کی اجازت نہیں دے رہی تھی، دوسری طرف پی پی پی بھی چیف صاحب سے ناراض تھی کیونکہ وہ حکومتی عہدیداران کی بدعنوانی کو نظرانداز کرنے کے لئے تیار نہ تھے“ ۔۔۔ لیں جناب بلی تھیلے سے پور ی طرح باہر آتی ہے، فوج کا براہ راست نام لے لیا جاتا ہے، اگرچہ شامل غزل حکومت بھی ہے مگر اسی حکومت کو وہ اپنے تجزئیے میں کیا لائن دے رہے ہیں وہ بھی ملاحظہ کریں ” حکومت کی پہلی ترجیح یہ ہے کہ خود کو اس معاملے سے دور رکھے تاکہ سازش کی تھیوری عوامی قبولیت کا درجہ حاصل نہ کرلے۔ اس کی بجائے وہ ملک ریاض صاحب کے کیس کا رخ دفاعی اداروں کی طرف جاتے ہوئے دیکھ رہی ہے کیونکہ حالیہ دنوں میں انہوں نے سپریم کورٹ کے کئی احکامات کی من و عن تعمیل نہیں کی ہے“۔۔ کیا سازش کی تھیوری نے ابھی عوامی قبولیت کا درجہ حاصل نہیں کیا، اگر نجم سیٹھی کے خیال میں ایسا نہیں ہوا تو وہ کبھی عوامی حلقوں کا رخ تو کر کے دیکھیں، انہیں خود ہی پتا چل جائے گا۔ دوسرے حکومت کیس کا رخ دفاعی اداروں کی طرف جاتے ہوئے نہیں دیکھ رہی بلکہ اسے لائن دی جا رہی ہے کہ وہ کیس کا رخ دفاعی اداروں کی طرف لے جائے۔
میری بات کی تصدیق اس طرح بھی ہوتی ہے کہ موصوف اسی تجزئیے میں آگے چل کر لکھتے ہیں ” فی الحال کسی نے بھی خفیہ اداروں پر کھلے عام الزام نہیں لگایا ہے کہ وہ چیف صاحب کو کمزور کرنے کے لئے ان کے خلاف سازش کر رہے ہیں تاکہ وہ ا نکے لئے مزید پریشانی پیدا کرنے سے باز رہیں تاہم دبے لفظوں میں مگر بڑے تسلسل کے ساتھ کسی ” نادیدہ“ ہاتھ کی بات کی جارہی ہے۔ کچھ لوگ اس بات پر یقین کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ ملک ریاض نے اس گرین سگنل کے بغیر ہی اتنا بڑا قدم اٹھا لیا ہو“ ۔۔ گویا آن دی ریکارڈ اس بات کے کرنے میں نجم سیٹھی ہی بازی لے گئے ہیں ورنہ یہ بات کہیں بھی نہیں ہو رہی۔ موصوف بھول رہے ہیں یا جان بوجھ کر میمو گیٹ کا ذکر نہیں کرنا چاہ رہے جس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے تین محترم چیف جسٹس صاحبان پر مشتمل کمیشن نے ایوان وزیراعظم میں پناہ لینے والے کو افواج پاکستان کے خلاف سازش کا ملزم قرار دیا ہے۔ افواج پاکستان کے خلاف جب سازش ہوئی تو اسے پاکستان کی سب سے بڑی عدلیہ کی طرف ہی آنا پڑا، یہی آئینی اور اخلاقی راستہ تھا لہذا اگر کوئی کھلے عام یہ الزام نہیں لگا رہا ہے کہ پاکستان کے دفاعی ادارے چیف صاحب کو کمزور کرنے کے لئے ان کے خلاف سازش کر رہے ہیں تو ان کے علاوہ کوئی ایسی بے پرکی اڑا بھی نہیں سکتا۔ کیا افواج پاکستان سپریم کورٹ کے مقابلے میں زرداری اور گیلانی کے ساتھ جا کے کھڑی ہوں گی،یہ کیسی لغو بات ہے۔ اصل بات تویہ ہے کہ چیف جسٹس نے اپنے بیٹے کو محض الزام لگنے پرحکومتی صفوں میں بیٹھوں ہوو¿ں کے نوکیلے دانتوں اور زہریلے پنجوںکے سامنے ڈال دیا ہے مگر سب کو علم ہے کہ چیف جسٹس کے بیٹے پر تو یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ اس نے عدلیہ کو بیچنے کے لئے روپے لئے مگر ملک ریاض یہ اعتراف کر چکا ہے کہ اس نے عدلیہ کو خریدنے کے لئے ادائیگیاں کیں۔ بہرحال مزید آگے چلتے ہیں جہاں وہ اپنے خوابوں او رخواہشوں میں ملک ریاض کو بچانے کے لئے ملک کو ڈبونے تک سے بھی گریز نہیں کرتے۔ فرماتے ہیں ” اس کیس کا نتیجہ کچھ بھی ہو، بہت اہمیت کا حامل ہو گا۔ اگر سپریم کورٹ نے چیف صاحب کا بھرپور ساتھ دیتے ہوئے تمام الزامات کو رد کر دیا تو پھر یہ قدم آگے بڑھاتے ہوئے اس” غیر مقبول“ حکومت کے خلاف مزید اقدامات بھی کرے گی، اسے ” ہم خیال“ عوام کی تائید بھی حاصل ہو گی۔ اس صورت میں حکومت کا رویہ بھی جارحانہ ہو گا اور وہ اس کے احکامات پر عمل کرنے سے انکار کر دے گی۔ جس کے نتیجے میں آئینی بحران گہرا ہو جائے گا۔ اس صورت میں اگر سپریم کورٹ فوج سے مدد طلب کرے گی تاکہ وہ حکومت کے اس احکامات پر عمل کرنے پر مجبور کرے توفوج آئینی بنیادوں پر ایسا کرنے سے انکا رکر سکتی ہے۔
(اس کی مثال موجود ہے) کہ فوج وزارت دفاع سے احکامات لینے کی پابند ہے۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ وکلاءاور میڈیا کے دباو¿ کو برداشت نہیں کر سکتی کیونکہ اس کو بہرکیف حکومت اور فوج کی تائید حاصل ہو گی۔ اس دباو¿ کے سامنے ارسلان کیس کی غیر جانبدارانہ تحقیق کرنا پڑے گی“ ۔۔ میں یہاں حاصل کلام پیرا گراف نقل کرنے سے پہلے ایک بریک لینا چاہتا ہوں تاکہ ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ کی عملی تفسیر آپ انور ٹڈ کوماز میں موجود فقروں کو پڑھ کر آپ خود دیکھ لیں۔ وہ بھول رہے ہیں کہ از خود نوٹس کے فیصلے کے مطابق تحقیق و کارروائی دونوں حکومت نے کرنی ہیں جس کے وہ ساتھ کھڑے ہیں۔سپریم کورٹ کی فوج سے مدد اور آئینی بنیادو ں انکار ایسے ہی ہے کہ ” مگس کو باغ میں جانے نہ دیجیو، ناحق خون پروانے کا ہو گا“۔ اب آتے ہیں اس اختتامی پیراگراف کی طرف ، جس نے سب سے زیادہ تکلیف دی ہے وہ یوں ہے ” دونوں صورتوں میں نقصان سپریم کورٹ کا ہو گا تاہم اگر محاذ آرائی نے زور پکڑا اور کشیدگی ” سرخ لائن“ عبور کر گئی تو ممکن ہے فوج کو ” وسیع تر قومی مفاد “ میں ویسا ہی فیصلہ کرنا پڑے جیسا وہ گذشتہ چھ عشروں میں تین بار کر چکی ہے“۔ ۔ یہاں یہ تجزیہ نما خواہش اختتام پذیر ہو جاتی ہے۔سازش کرنے والے ، جسے پوری تحریر میں صاحب کہہ کر بلایا گیا، کو بچانے کی خواہش اتنی شدید ہے کہ موصوف ،چیف جسٹس کی طرف سے اپنا بیٹا حکومتی تحقیقات او رکارروائی کے لئے پیش کرنے کے باوجود سرخ لائن عبور کروارہے ہیں۔ مبشر لقمان ، مہر بخاری شو کے بعد یہ سامنے آ چکا ہے کہ کس کو اپنے بیٹوں پر مقدمات پر پریشانی تھی اور ” بنی“ کیوں کال کر رہا تھا۔ موصوف اسی کالم میں لکھتے ہیں ” اس کیس نے میڈیا کو تقسیم کر دیا ہے“ ۔۔ درست لکھتے ہیں بحریہ دسترخوان کے فیض یابوں کے چہروں سے نقاب اتر رہے ہیں۔ مگر کیا خدا کا خوف نہیں ہے دفاعی اداروںکو سپریم کورٹ سے لڑانے اور مارشل لاءلگوانے کی لائن دینے سے بھی گریز نہیںکرتے، انہی ظالموں کو دیکھتا ہوں تو خدا کا شکرادا کرتا ہوں کہ میں نجم ولی خان ہوں، نجم سیٹھی نہیں۔