ظلم کی انتہااور ’’رقصِ ابلیس‘‘ کی تکرار!

ظلم کی انتہااور ’’رقصِ ابلیس‘‘ کی تکرار!
ظلم کی انتہااور ’’رقصِ ابلیس‘‘ کی تکرار!
کیپشن: hafiz m idrees

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


17جون2014ء کو ماڈل ٹاؤن لاہور میں جو خونی ڈرامہ کھیلا گیا اس نے ہر باضمیر انسان کو آزردہ ہی نہیں، انتہائی زیادہ دکھی اور زخمی کردیا۔ تصاویر جو سامنے آئیں وہ خود بہت کچھ بتاتی ہیں۔ وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف کا معذرتی بیان اور ان کے کارندوں کی کارکردگی کا آپس میں کوئی تال میل تلاش نہیں کیا جاسکتا۔ شوٹنگ ٹو کل(Shooting to kill)کے ارادے سے ڈائریکٹ گولیاں برسانے والے اپنے طو رپر اتنا بڑا فیصلہ کیسے کرسکتے ہیں۔ مقتولین کو جسم کے بالائی حصوں، سینے اور سر میں گولیاں لگیں۔ تمام جاں بحق ہونے والے سرکاری پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق گولیاں لگنے سے جان کی بازی ہارے ہیں۔ تصاویر میں ایک اور بڑی اہم اور چونکا دینے والی حقیقت سامنے آئی کہ ایک شخص جس کا حلیہ پہچاننے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی، پولیس کی موجودگی میں ان کے بالکل ساتھ گاڑیوں کو مسلسل توڑ رہا تھا۔ 17جون کے اس واقعہ نے وہ پرانے زخم تازہ کردیے جو جماعت اسلامی کے کارکنان کو 21فروری1999ء کو دفتر جماعت اسلامی، لٹن روڈلاہور کے پرامن اجتماع میں لگے تھے۔ بہت سے لوگ گولیوں اور لاٹھیوں سے زخمی کئے گئے، جس طرح منہاج القرآن کے باہر بزرگوں کی داڑھیاں نوچی گئیں اور انھیں زمین پر گھسیٹا گیا اسی طرح سفید ریش بزرگوں کو مارا، پیٹا اور گھسیٹا گیا تھا۔

وہ منظر بھول ہی نہیں سکتا کہ زخمیوں کے کپڑے خون سے رنگین تھے اور انھیں گاڑیوں میں بھرا جارہا تھا۔ اس لمحے ایک بدقماش حکومتی کارندہ جو سادہ کپڑوں میں ملبوس تھا ہاتھ میں لاٹھی لئے گاڑیوں میں سوار ہونے والے ہر شخص پر غلیظ گالیوں کی بوچھاڑ کے ساتھ بے دردی سے ڈنڈے برسا رہا تھا اور بالکل پہچانا جاسکتا تھا ،مگر اس کے خلاف آج تک کوئی کارروائی نہ ہوئی۔ موقع پر موجود ویڈیو کیمرہ نے یہ سارے مناظر محفوظ کئے اور وہ فلم آج بھی ’’رقصِ ابلیس‘‘ کے نام سے یاد دلاتی ہے کہ بھارت میں بی جے پی کی حکومت، اٹل بہاری واجپائی کی وزارت عظمیٰ میں اپنے روایتی ظلم سے کشمیر اور بھارت کے مسلمانوں کو نشانۂ انتقام بنا رہی تھی اور یہاں بڑے میاں صاحب وزیراعظم اور چھوٹے میاں صاحب وزیراعلیٰ پنجاب تھے۔ واجپائی کے والہانہ استقبال پر جماعت اسلامی کے پرامن احتجاجی جلسے پر جو ستم ڈھایا گیا اس کا ریکارڈ ویڈیو کے علاوہ تحریراً بھی ہماری کتاب ’’دریچہ زنداں‘‘ میں موجود ہے۔ اب 2014ء میں پھر تاریخ اسی موڑ پہ آپہنچی ہے کہ بھارت اور پاکستان میں وہی حکومتیں برسراقتدار ہیں جو آج سے 15سال پہلے تھیں۔

ماڈل ٹاؤن میں منہاج القرآن اور علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی رہایش کے باہر جو بیریر لگے تھے وہ آج کے تو نہیں۔ ان کو ہٹانا مقصود تھا تو اس کے لئے اعلیٰ سطح پر گفت وشنید ہوسکتی تھی۔ پھر مشکل پیش آتی تو قانونی ذرائع اختیار کئے جاسکتے تھے۔ پھر بھی کوئی رکاوٹ ہوتی تو انسانی جانوں کو بچانے کے لئے تمام احتیاطی تدابیر اپنائی جاسکتی تھیں۔ میاں شہباز شریف صاحب نے جو اخباری بیان دیا ہے وہ ’’عذرِگناہ بدتر از گناہ‘‘ کے زمرے میں آتا ہے۔ صوبے کا حاکم اعلیٰ بالکل بے خبر ہو اور اتنا بڑا وقوعہ صوبائی صدرمقام پر ہوجائے تو یہ بذات خود ایسا واقعہ ہے کہ حاکم اعلیٰ کو استعفا دے دینا چاہیے تھا۔ یہ کہنا کہ اگر میرا جرم ثابت ہوا تو میں مستعفی ہوجاؤں گا اپنے آپ کو دھوکہ دینے سے زیادہ بھولے بھالے عوام کو دھوکہ دینے اور مظلومین کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔ موصوف کہتے ہیں کہ میں مظلوم کا ساتھی ہوں، تصویریں بتارہی ہیں کہ اس واقعہ میں ظالم کون ہے اور مظلوم کون ہے۔
جو ظالم ہیں ان کی زمام قانونی اور اخلاقی طور پر وزیراعلیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ جو مظلوم ہیں ان کے زخموں پر مرھم رکھنا شاید ان حکمرانوں کے بس میں تو ہے ہی نہیں۔ آخر ایک دن اعدل العادلین کے دربار میں بھی پیش ہونا ہے۔ ہمیں نہ حکمرانوں سے کوئی ذاتی دشمنی ہے اور نہ تحریک منہاج کے ساتھ ہمارا کوئی اتحاد اور اشتراک ہے، مگر یہ سخت بے ضمیری اور غیرانسانی سوچ ہوگی کہ اس واقعہ میں ظالم اور مظلوم کو نہ پہچانا جاسکے۔ چند افسروں کو قربانی کا بکرا بنا دینے سے بات نہیں بنتی، آپریشن میں شریک تمام لوگ قاتل ہیں اور ان کے حکام بالا بھی اس جرم میں یکساں شریک ہیں۔ تصاویر میں پولیس اہل کار ڈائریکٹ فائرنگ کرتے نظر آتے ہیں۔ اگر امن عامہ کی کوئی گھمبیرصورت حال پیدا ہوگئی تھی اور گولی چلانا ضروری ہوگیا تھا تو کس عدالت سے اس کی اجازت لی گئی؟ پھر لوگوں کو کنٹرول کرنا ہی مقصود ہو تو آنسو گیس یا ربڑ کی گولیاں استعمال میں لائی جاتی ہیں۔ اگر ناگزیر ہوجائے تو گولی سے بھی جسم کے نچلے حصوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کتنی سنگدلی کی بات ہے کہ گولیوں کی بوچھاڑ میں دو خواتین بھی جان سے گزر گئیں۔

یوں معلوم ہوتا ہے کہ میاں برادران کسی گہری سازش میں پھنسا دیے گئے ہیں اور اس کی ذمہ داری بھی ان پر ہے کیوں کہ وہ ہمہ مقتدر اور بھاری مینڈیٹ کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے گھر کے باہر بیریر نہ آج کے ہیں اور نہ ان کی مجوزہ سیاسی تحریک پہلی بار سامنے آئی ہے۔ اس سے قبل بھی چند سال پہلے وہ اسلام آباد میں اپنی قوت اور احتجاج کا مظاہرہ کرچکے ہیں۔ اس وقت نہ کسی کی نکسیرپھوٹی تھی، نہ کوئی ناخوش گوار واقعہ رونما ہوا تھا۔ مرکز میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی اور پنجاب میں میاں شہبازشریف ہی وزیراعلیٰ تھے۔ حکومت نے احتجاج کا موقع فراہم کیا اور پھر کامیاب گفت وشنید سے اسلام آباد کو مظاہرین سے خالی کرالیا گیا۔ یہ تازہ سانحہ نااہلی، بے تدبیری اور بے دانشی کے ساتھ ظلم و حماقت کی بدترین مثال ہے۔
مقتولین کے جنازے کے موقع پر جو رقت آمیز مناظر سامنے آئے انھوں نے ہر شخص کے دل کو زخمی اور ہر آنکھ کو اشک بار کردیا۔ ظلم کی حمایت کوئی بھی باضمیر انسان کبھی نہیں کرسکتا۔ ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ طاہرالقادری صاحب کے ساتھ ہماری یاداللہ ہمیشہ رہی ہے، مگر ان کی اپنی سوچ ہے اور ہمارا اپنا لائحۂ عمل۔ وہ بالکل ایک الگ ایشو ہے۔ انسانی اور اسلامی اقدار کے پیش نظر ہم اس واقعہ کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور متاثرہ خاندانوں سے دلی اظہار محبت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ظلم کی بھینٹ چڑھنے والے تمام مردوخواتین کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور ان کے پسماندگان کو صبرواجر سے نوازے۔ زخمیوں میں سے بہت سے زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے۔ ہم ان سب کے لئے اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو شفائے کاملہ عاجلہ عطافرمائے۔
جولوگ گرفتار کرکے زنداں میں ڈالے گئے ہیں ان کی گرفتاری اور حبسِ بے جا پر بھی افسوس ہوتا ہے۔ ’’رقصِ ابلیس‘‘ کا کھیل جب کھیلا گیا تھا اور ہم لوگ جیل میں تھے تو ہمارے بزرگ روحانی استاد اور تحریکی راہنما جناب مولانا عاصم نعمانی ؒ نے یہ شعر لکھ بھیجا تھا:
زنداں میں تو مجھ کو ڈال دیا اے حاکم زنداں تونے مگر
پرواز جو میری روک سکے ایسی بھی کوئی دیوار اٹھا
ہم بھی اپنی پرخلوص دعاؤں کے ساتھ تمام محبوسین کی خدمت میں آج یہ شعر عرض کرتے ہیں۔ اللہ آپ کی مشکلات کو آسان فرمائے اور ظالموں کو کیفرکردار تک پہنچائے:
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا

مزید :

کالم -